کسی سے سنا کہ ماڈل ٹاون کیس میں طاہر القادری نے کسی کے کہنے پہ افراتفری پھیلائی، تو اشتیاق ہوا کہ تصدیق کی جائے۔ ویسے تو ڈاکٹر قادری کی ہسٹری خاصی دل چسپ ہے لیکن ہم زیادہ پیچھے جانے کے بجائے بات 2014 سے شروع کرتے ہیں جب موصوف نے کینیڈا کے برف زاروں کو چھوڑ کر جون کی گرمی میں پاکستان آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا (موسم کا موازنہ کریں تو داد تو بنتی ہے بھئی)، موصوف کے کارکنان کہتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بےروزگاری، کرپشن اور عوام کے حقوق کی بازیابی کے لیے طاہر القادری کے میدان میں آنے پرحکومت بوکھلا اُٹھی، اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی اور اس تحریک کو کچلنے کی منصوبہ بندی شروع کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر لگےہوئے بیرئیرز کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ بنے اسے ختم کردیاجائے۔
ویسے جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں عوامی تحریک کارکنان کی یہ دلیل مانی جاچکی ہے کہ بیرئیرز عدالت عالیہ کے حکم سے پولیس نے خود لگوائے تھے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف ڈاکٹر قادری کے فتوٰی دینے کے بعد حکومتی ایجنسیوں نے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ کیا تھا جس کا ریکارڈ مل چکا ہے۔ اسکے بعد ڈاکٹر قادری کے اہل محلہ تحفظ کے لیے لاہورکورٹ چلے گئے، رٹ پٹیشن 22367/2010 کا ریکارڈ بھی منظر عام پہ آچکا جس کی سماعت کے دوران عدالت کے حکم پر ایس پی ماڈل ٹاؤن لاہور نے اہل محلہ کو پروٹیکشن دینے کی عدالت میں تحریری یقین دہانی کروائی تھی جس کے بعد پولیس نے خود متعلقہ سڑکوں پر نہ صرف بیرئیرز لگوائے بلکہ 16پولیس اہلکاران کو 24گھنٹے وہاں متعین بھی کیا جو کہ اس دن بھی ان بیرئرز کی حفاظت کررہے تھے جس دن یہ سانحہ بپا ہوا، سوال یہ ہے کہ اگر یہ بیرئرز غیر قانونی تھے تو پولیس انکی حفاظت کیوں کررہی تھی؟
اسی رپورٹ میں یہ راز بھی کھل چکا کہ اس تحریک کو روکنے کے لیے رانا ثناءاللہ، توقیرشاہ، میجر(ر)اعظم سلیمان(ہوم سیکرٹری)، راشد محمود لنگڑیال(کمشنر لاہور)، محمد عثمان( DCOلاہور)، طارق منظورچانڈیو(ACماڈل ٹاؤن)، علی عباس (TMOماڈل ٹاؤن)، راناعبدالجبار(DIGآپریشن) و دیگر نے میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ ادارہ منہاج القرآن کے اردگرد رکاوٹوں کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گااور جو بھی روکاوٹ بنے، ختم کردیا جائے۔ پھر پوری دنیا نے میڈیا چینلز پر براہ راست اس منصوبے پر عمل ہوتے دیکھا جس میں 100 افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور دو خواتین سمیت 14 پاکستانی شہری شہید ہوئے اس میٹنگ کی آج تک تردید نہیں کی گئی لہذا اسے سچ ماننے میں تامل نہیں۔
لیکن، سوال پیداہوتا ہے کہ کیا یہ میٹنگ شہباز شریف کے علم میں تھی؟ کیونکہ جب شہباز شریف پہ اس قتل عام کا الزام لگا تو انہوں نے پریس کانفرنس میں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لیے باقر نجفی جوڈیشل کمیشن بنا رہا ہوں اگر میری طرف انگلی بھی اُٹھی یا مجھے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو میں فوری طور پر استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردوں گا۔ بعد ازاں اسی کمیشن نے حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو قتل وغارت گری کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے کہا کہ ’’رانا ثناءاللہ کے اجلاس کے فیصلے پاکستانی تاریخ کے بد ترین قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔ منہاج القرآن کے باہر لگے بیرئیرز قانونی تھے۔ پولیس نے وہی کچھ کیا جس کا حکومت نے حکم دیا تھا۔ حکومت پنجاب کی منظوری سے پولیس نے آپریشن کیا’’۔
لیجیئے جناب، اس وقوعہ کے چند روز بعد 23 جون 2014 کو ڈاکٹر قادری واقعی اڑان بھر بیٹھے تو چند گھنٹوں کے بعد عمارات ائرلائن کا طیارہ اسلام آباد ائر پورٹ پر چکر پہ چکر لگا رہا تھا اور بالاخر لینڈنگ کی اجازت نہ ملنے پر اس کا رخ لاہور کی طرف کر دیا گیا، عوامی تحریک والے کہتے ہیں حکومت خوفزدہ ہوچکی تھی کہ ڈاکٹر قادری اسلام آباد اتر کر ملک جام کرسکتے تھے لیکن میرا خیال ہے کہ سیکورٹی کی کوئی وجہ ہوگی بالآخر ملکی دالحکومت کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری تھی۔
اگرچہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعدFIR درج نہ ہونے دینے کا الزام بھی پنجاب حکومت پر لگا، کیونکہ شہدا کے لواحقین شریف برادران اور انکے وفاقی اور صوبائی وزرا کو قاتل نامزد کرنا چاہ رہے تھے لیکن شاید پولیس بھی حق بجانب تھی کہ کیسے ملک کے وزیراعظم اور وفاقی وزرا کو قاتل لکھتی؟ میں پولیس افسر ہوتا تو شاید میں بھی ملک کے وزیراعظم کا نام ایف آئی آر میں اتنی آسانی سے نہ ڈالتا، بہرحال اس کے بعد پاکستان کی تاریخ کا یادگاردھرنہ ہوا جس نے پاکستان میں احتجاجی سیاست کی پرامن لیکن انتہائی طاقتور نئی ڈائنامکس متعارف کروائی جس میں بالاخر آرمی چیف راحیل شریف کو مداخلت کرنا پڑی اور طاہر القادری نے اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج کراکے دھرنہ ختم کردیا اسکے بعد تین سال تک اس کیس پہ کچھ خاص پیشرفت نہیں ہوپائی، سوچتا ہوں کہ، کہنے کو تو ڈاکٹر قادری اپنے آپ کو وکلا کا استاد کہتے ہیں لیکن کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ پاکستان میں کیس ایسے نہیں جیتے جاتے؟
بہرحال، کیس میں جان اسوقت پڑی جب، 15 مارچ 2016 کو عوامی تحریک نے انسداد دہشت گردی عدالت میں استغاثہ دائر کردیا جس میں 56 زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات ہوئے، جس پر انسداد دہشت گردی عدالت نے 124 پولیس والوں کو طلب کرلیا، عوامی تحریک والے پھر بھی خوش نہیں، انہوں نے ہائی کورٹ میں پھر رٹ فائل کردی کہ جن افراد (شریف برادران اور انکے وزرا) کے حکم سے یہ ریاستی دہشت گردی ہوئی انکو طلب کیا جائے، اب کچھ دیر سے استغاثہ کیس میں چار ایس پی طارق عزیز، محمد ندیم، معروف صفدرواہلہ، عمر ریاض چیمہ، تین ایس ایس پی اقبال خاں، ڈاکٹر فرخ رضا اور عمر ورک سمیت 115 پولیس والے عدالت میں پیش ہورہے ہیں جبکہ ڈی ائی جی رانا عبدالجبار، ایس پی عبدالرحیم شیرازی اور ایس پی سلمان علی خان فرار ہیں اس دواران اعلی عدالتوں میں کئی بینچ بنتے رہے اور ٹوٹتے رہے(جس کا الزام بھی حکومتی وکلا کے تاخیری حربوں پہ ہے) یہاں تک کہ چیف جسٹس، ثاقب نثار صاحب نے انصاف میں تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے، لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء تمام رٹ پٹیشنز کو نمٹانے کیلئے تین ججز پر مشتمل فل بنچ تشکیل دے دیا، باقر نجفی کمیشن رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیا اور انسداد دہشت گردی عدالت کو روزانہ سماعت کا حکم دیا جس کے بعد نہ صرف سابقہ آئی جی مشتاق سکھیرا عدالت میں پیش ہوئے بلکہ عدالت نے مفرورڈی آئی جی رانا عبدالجبارکو یہ کہتے ہوئے پیش ہونے کا آخری موقع دیا ہے کہ 18 مئی کو پیش نہ ہوئے تو وارنٹ گرفتاری جاری کرینگے۔ اسکے علاوہ شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ جس کے بارے میں مبینہ طور یہ کہا جاتا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں وعدہ معاف گواہ بننے کے ڈر سے موصوف کو بطور سفیر عالمی بزنس فورم میں تعینات کیا گیا کوعدالت نے ملک چھوڑنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ آپ پہ سانحہ ماڈل میں ملوث ہونے کا الزام ہے ۔ یاد رہے جسٹس باقر نجفی کمیشن کے سامنے وزیر اعلٰی پنجاب نے بیان حلفی میں کہا تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر توقیرشاہ کو ٹیلیفون پر پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا۔ یہ بیان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ڈاکٹر توقیر شاہ پورے سانحہ کے موقع پر آن بورڈ تھے اور توقیر شاہ کا عدالت میں یہ کہنا غلط تھا کہ میرا اس سانحے سے کوئی تعلق نہیں۔ واضع رہے کہ بیرئیر ہٹانے کی آڑ میں 16جون 2014 کے دن رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں بھی ڈاکٹر توقیر شاہ شریک تھے اور رابطہ کار تھے۔
سابقہ ہفتے میں ہونے والے تین واقعات ایسے ہیں جن کی بنا پہ میں دال کالی ہوتی دیکھ رہا ہوں۔ پہلا، جسٹس اعجاز الحسن کے گھر پہ ایک ہی دن میں دو دفعہ فائرنگ ہونا ہے۔ جس پرجمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور متحدہ مجلس عمل کی مرکزی کمیٹی کے چیئرمین حافظ حسین احمد نے کہا’’منصفوں کے گھر پہ حملہ قابل مذمت بھی ہے اور ماضی کی روایت بھی، کیونکہ ماضی میں سپریم کورٹ پہ حملہ ہوا اور اب منصفوں کو نشانہ بنا کر انصاف کی راہ کو مسدود کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، منصف کے گھر کو بھی ماڈل ٹاؤن سمجھا گیا، پہلے صرف باتیں تھیں اب طاقت کا استعمال بھی سامنے آگیا، اس کی براہ راست ذمہ داری پنجاب کے حکمرانوں پہ ہے’’۔
دوسرا واقعہ، عوامی تحریک کے چشم دید گواہ، عبدالقیوم نے انسداد دہشتگردی عدالت میں تحریری درخواست دی کہ عمر ورک کے ایماء پر اکرم اور مراتب نامی شخص انکے گھر آئے اور انہیں گواہ نہ بننے پر مجبور کیا، لہذا انہیں ہراساں کرنے سے روکا جائے اور مجھے تحفظ دیاجائے۔ عدالت میں ملزم کی طر ف سے مراتب نامی شخص کی طرف سے گواہ سے رابطہ کرنے کی تصدیق کی گئی اسنے کہا ملاقات ہراساں کرنے کیلئے نہیں صفائی دینے کیلئے تھی اس دوران عمر ورک کے وکیل برہان الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمر ورک کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے وہ چھوٹی موٹی دھمکیاں نہیں دیتا اگر یہ کام عمر ورک کرتا تو بندہ عدالت تک نہیں پہنچ پاتا اور یہ نہیں بتا پاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ کیا یہ اقبال جرم نہیں؟
تیسرا واقعہ ، شریف برادران کے خلاف اہم کیسز میں پیش ہونے والے پاکستان عوامی تحریک کے سینئر وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے دفتر میں لیپ ٹاپ سمیت اہم کاغذات اور فائلوں کی چوری کا واقعہ ہے، اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ چند روز قبل پرویز رشید نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔
پولیس افسران کا مفرور ہونا، جج کے گھر پہ فائرنگ اور وکیل کے دفتر میں چوری کے واقعات دال میں کچھ کالا ہونے کی دہائی دے رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ شریف برادران کو اندھیرے میں رکھ کر انکے وزرا نے یہ مکروہ کھیل کھیلا ہو؟ یا پھرسچ کچھ اورہے؟ حقیقت بہرحال جلد یا بدیر کھلنے والی ہے پاکستانیوں کا خون رائیگاں ہونے سے بچ گیا توتاریخ، چیف جسٹس کو یاد دے گی۔