ووٹ کے اصل حقدار کون

Vote

Vote

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری

انتخابات کی تاریخ جب قریب آتی ہے تو ہر شخص اس سوچ میں غرق ہو جاتا ہے کہ اپنا قیمتی ووٹ کس کو دے؟کس امیدوار کے انتخابی نشان پر اپنی تصدیقی مہر ثبت کریں ؟کس کو راہنما مانے؟اپنی رائے کس کے حق میں استعمال کرے؟عوام پر واضح رہنا چاہیے کہ ووٹ صرف کاغذ کی پرچی نہیں جو بغیر سوچے سمجھے مہر لگا کر کسی کے بھی حق میں ڈال دی جائے بلکہ یہ آپ کی قیمتی رائے ہے یہ آپ کے پاس صرف ایک امانت ہی نہیں بلکہ ایک شہادت ہے “اور اللہ کی رضا مندی کے لیے شہادت د و”(القرآن) اگر آپ اپنی رائے ایسے شخص کے حق میں استعمال کریں گے جو بد دیانت ہو حکومتی خزانے لوٹنے والا ہو آپ کے علاقہ کی سکیموں کے لیے بھیجی جانے والی رقوم میں خورد برد کرنے والا ہو،دھوکا باز ہو جھوٹا فراڈی اورخائن ہوتوآپ اس کی لوٹ کھسوٹ ،دھوکا بازی اور جھوٹ میں برابر کے شریک ہوں گے کہ آپ نے اس کو ووٹ کے ذریعے طاقتور بنایا ہے اپنا سردار اور راہنما چن لیا ہے اب اس کی تمام غلیظ حرکات کے آپ بھی اسی طرح ذمہ دار اور حصہ دار ہیں جیسا وہ خود ہے آپ کو تو معلوم بھی نہ ہو گا کہ آپ کے اس راہنما نے کیا کیا گُل کھلائے ہیںیعنی کیا کیا گناہ کیے ہیںمگر آپ کے کھاتے میں اس کے کیے گئے گناہوں کا برابر حصہ لکھا جاتا رہے گا۔

ہم برے آدمی کو ووٹ دیں گے تو وہ ممبر کی حیثیت میں جو بُرے کام کرے گااس کے گناہ میں ہمیں برابر کا حصہ ملے گا اسی طرح اچھے آدمی کو ووٹ دینے کی صورت میںوہ ممبر کی حیثیت سے جو اچھے کام کرے گااس کے اجر میں ہمیں بھی حصہ ملے گا ووٹ ایک گواہی ہے اس بات کی کہ میرے حلقے میں جو امیدوار الیکشن میں کھڑے ہیں ان میں سے فلاں سب سے بہتر ہے نبی اکرم ۖ کے ارشاد کے مطابق جھوٹی گواہی دیناگناہ کبیرہ ہے۔ووٹ نہ دینا یا غلط ووٹ دینا سچی گواہی کو چھپانے کے مترادف ہے اور اللہ تعالیٰ نے سچی گواہی کو چھپانے کو بہت بڑا ظلم قرار دیا ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے “اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس کے ذمہ اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے (البقرة:141)ووٹ امانت ہے اس کے ذریعے منتخب ہونے والے افراد ان اختیارات اور فنڈزکے امین ہوتے ہیں جو ہم ووٹ کے ذریعے امانت کے طور پر انہیں دیتے ہیں تاکہ وہ انکو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”مسلمانو اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل افراد کے سپرد کردو”(النسأ:58)نبی اکرم ۖ نے فرمایا “کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جن میں سے ایک امانت میں خیانت ہے “ووٹ کے ذریعے ہم اس بات کی سفارش کرتے ہیں کہ فلاں شخص کوہمارے علاقہ کا ممبر ہونا چاہیے قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “جو شخص بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (النسأ:85) ذرا سوچئے اگر آپ کو چند ہزار روپے یا اپنا تھوڑا سا قیمتی سامان کسی کے پاس بطور امانت رکھنا ہو تو آپ کی نگا ہیں کس طرح کسی امانتدار اور ایماندار شخص کو ڈھونڈھتی ہیںآپ کو اپنے حقیقی بھائی پر بھی اگر بھروسہ نہ ہو تو آپ کبھی اس کے پاس تھوڑی سی پو نجی بطور امانت رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے پھر کس طرح بار بار آپ ملک کی باگ ڈور دھوکا بازاور خائن لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں؟

کس طرح قانون کی کھلی خلاف ورزی کرنے والوں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس کو مذاق بنانے والوں کو قانون کا محافظ بنا دیتے ہیں؟کیوں بار بار ایسے افراد کو حکومت میں لایا جاتا ہے جو دیانت و امانت کے معروف تقاضوں پر پورا نہیں اترتے ؟جو ملک کی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے جاتے ہیں ؟؟جو فرقہ واریت علاقائیت برادری ازم اور لسانیت کی لعنت کو ہوا دیکر اور ملک میں بد امنی پھیلا کر اپنے مذموم عزائم پورے کرتے ہوں؟جو عدلیہ کا مذاق پورے شد و مد سے اڑاتے ہیں اور اسے اپنے تابع مہمل بنا کر رکھتے ہوںجن کے نزدیک عدالتیں بنیے کی دکان سے کم نہ ہوں ؟جو سادہ لوح لوگوں کے ساتھ جھوٹے دعوے/ وعدے کرتے ہوں انہیں سبز باغ دکھا کر ملک کے اثاثے اغیار کے حوالے کرتے ہوں ؟ووٹ کے ذریعے ہم اپنے علاقے کا سربراہ قائد اور امام منتخب کرتے ہیں قرآن پاک میں قیامت کے دن کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں کہ “اس دن ہم سب انسانوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے”(بنی اسرائیل :71)گویا دنیا میں ہم جسے اپنا قائد اور امام بنائیں گے قیامت کے روز ہمارا حشر اسی کے ساتھ ہو گا۔

ووٹ کس کو دیا جائے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیا دہ پر ہیز گار (اللہ کی نافرمانی سے پر ہیز کرنے والا) ہے “ہمارے لیے ووٹ کا معیار یہی حکم الٰہی ہونا چاہیے جو امیدوار جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے والا ہے اور جس کے نیک عمل سب سے زیادہ ہیں وہی ہمارے لیے عزت کا مستحق ہونا چاہیے اور اسی کو اپنے علاقے کا نمائندہ اور قائد بنانا چاہیے اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنوں میں پرہیز گار اور دیانتدار معلوم نہ ہو تو ا ن میں سے نسبتاً کم گناہ گار کے حق میںووٹ استعمال کرنا ہو گا کیونکہ ووٹ نہ دینے کی صورت میں ہم بددیانت و گناہ گار امیدوار کے لیے منتخب ہو جانے کا ذریعہ بن جائیں گے ایسا مت سوچئے کہ اچھے کردار کے امیدوار کو ووٹ دیں اور وہ جیت نہ سکے تو ووٹ ضائع ہو جائے گا ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں سوچنا ہو گا کہ قیامت کے روز ہمارے اپنے اعمال کی باز پرس ہو گی صرف دیانتدار افراد ہی قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کے مسائل حل کرسکتے ہیںانتخاب میں ہمارا صحیح فیصلہ ہماری قسمت تبدیل کرسکتا ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا حدیث نبوی ۖ ہے کہ “مومن ایک سوارخ سے بار بار نہیں ڈساجاسکتا” تقویٰ اور نیکی کو معیار بنا کر اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناضر جان کر ہمیں ووٹ کا استعمال کرکے ہمیں صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا ہو آمین۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری