جب سے پاکستان بنا اس وقت سے لیکر اب تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مختلف خاندانوں کا راج رہا قیام پاکستان سے قبل بھی یہی لوگ انگریزوں کے غلام تھے جنکی بدولت انہیں بڑی بڑی جاگیریں اور مراعات ملی ہوئی تھیں جب پاکستان بننے کا وقت قریب آیا تو یہی جاگیر دار مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور پھر ادھر آکر بھی اپنے نام لمبی چوڑی زمینیں الاٹ کروالی اپنا حلقہ اور اپنے ووٹروں کی بدولت یہ ہر الیکشن جیتنا شروع ہوگئے ملک میں جسکی بھی حکومت آئی ان لوگوں نے فوری طور پر اسی پارٹی میں شمولت اختیار کرکے اقتدار کے مزے لوٹنا شروع کردیے جبکہ ہر پارٹی لیڈر کی بھی خواہش رہی کہ یہ جیتنے والے گھوڑے انکے ساتھ ہی شامل ہو جائیں اس کے لیے بعض اوقات ان لوگوں کو انکی مرضی کی وزارتیں بھی دی گئی ملک میں مارشل لا ہو ،فوجی جمہوریت ہو یا شخصی آمریت ہو یہ مفاد پرست لوگ ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں ایک اور سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ بظاہر ایک دوسرے کے مخالف رہنے والے اندرونی طور پر ایک ہی ہوتے ہیں اندرون خانہ انکی رشتہ داریاں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑی ہوتی ہیں کہ یہ لوگ جدا ہونا بھی چاہیں تب بھی نہیں ہوسکتے اقتدار کسی بھی جماعت کے پاس ہومگر ان خاندانوں کے لوگ حکومت میں شامل ضرور ہونگے یہ ایسے سیانے لوگ ہوتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ اب آنے والی حکومت کس کی ہو گی اور پھر یہ لوگ جوق در جوق اسی پارٹی میں شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ایک پارٹی سے دوسری پارٹی اور پھر وہاں سے تیسری جماعت میں جانا ان لوگوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہماری قوم کی یاد داشت ویسے بھی کمزور ہے اور رہی سہی کسر حکمرانوں نے پوری کردی ہے ہم بہت پیچھے نہیں جاتے مشرف دور سے شروع ہوتے ہیں کہ نواز شریف جب معافی نامہ لکھ کر سعودی عرب روانہ ہوئے تو الیکشن2002 میں 140اراکین اسمبلی نے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پاکستان مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کرلی اور جب چوہدری برادران حکومت سے فارغ ہوگئے تو وہی حکومتی مزے لینے والے الیکشن2008 میں تقریبا 89 اراکین اسمبلی نے پاکستان مسلم لیگ ق کو خدا حافظ کہہ کر پاکستان پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا لیااور جب پیپلز پارٹی کا سورج غروب ہوگیا تب یہی مفاد پرست سیاستدان الیکشن 2013 سے پہلے تقریبا 121اراکین نے پاکستان پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن واپس آگئے اور اب الیکشن2018کے قریب آتے ہی یہی تمام اراکین پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بن رہے ہیں اقتدار کے یہ لالچی لوگ سمجھ رہے ہیں کہ آنے والا دور تحریک انصاف کا ہے اس وقت پارٹی میں عمران خان کے علاوہ تین اور وزیراعظم کے امیدوارموجود ہیں جو اس عہدہ کے لیے کسی سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں یہ تو تھے لوٹے افراد جو کسی بھی وقت گھوم سکتے ہیں۔
رہی بات لٹیروں کی تو ایک بات طے ہے کہ اراکین اسمبلی نے قومی خزانہ کو خوب لوٹا یہاں تک کہ ایسے اراکین اسمبلی بھی موجود ہیں جو بیمار نہیں ہوئے مگر اپنے نام سے کی لاکھوں مفت ادویات لیکر کھا گئے قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں میں کسی قسم کا کوئی کام نہیں ہوا اراکین اسمبلی اپنی بھاری بھرکم تنخواہوں کے ساتھ ساتھ مراعات سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے پنجاب حکومت نے اپنی ایک رکن اسمبلی کو نوازنے کے لیے ایک سرکاری یونیورسٹی میں ممبر سنڈیکیٹ بنا دیا اتفاق سے اسی دن اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے کہا کہ زرا وی سی کو ٹیلی فون کرکے پوچھنا سے نے مجھے کیا بنا یا ہے اسنے فون پر مجھے بتایا ہے کہ تمہیں کوئی ممبر بنا دیا ہے ہمارے اکثر اراکین اسمبلی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں لوگوں نے اسمبلی کس لیے بھیجا ہے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے مگر وہ پیسہ خرچ کرکے جس مقصد کے لیے اسمبلیوں میں آتے ہیں وہ ہر گز نہیں بھولتے کچھ عرصہ سے پنجاب اسمبلی کے اندر جہاں سے اراکین اجلاس میں شرکت کے لیے اندر جاتے ہیں وہاں پر ایک اسمبلی ملازم رجسٹر لیکر بیٹھ گیا جو اراکین اسمبلی کی حاضری لگاتا ہے۔
اراکین نے اسمبلی آنا چھوڑ دیا تھا اور تنخواہ ہر ماہ باقاعدگی سے وصول کرتے تھے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وزیراعلی پنجاب خود اسمبلی نہیں آتے سال بھر میں ایک یا دو بار کچھ دیر کے لیے آنا بھی ہو جائے تو کچھ ہی دیر میں واپسی ہوجاتی ہے اسی روش کو دیکھتے ہوئے اراکین اسمبلی نے بھی آنا چھوڑ دیا تھا جسکے بعد ہر تقریبا ہر اجلاس میں اپوزیشن کی طرف سے کورم کی نشاندہی پر سبکی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور حکومتی دلچسپی کے بل بھی اراکین کے نہ آنے کی وجہ سے پاس نہیں ہو پاتے تھے جسکے بعد حکومتی بڑوں نے فیصلہ کیا کہ اراکین کی تنخواہوں اور مراعات کو حاضری رجسٹر کے ساتھ مشروط کیا جائے اور جب یہ طریقہ اختیار کیا گیا تو پھر اراکین آتے اور حاضری لگا کر رفو چکر ہوجاتے جسکے بعد وزیراعلی کے سیکریٹری نے خاص دنوں میں آکر اراکین پر نظر رکھنا شروع کردی جسکے ڈر سے اراکین تو ایک طرف وزرا بھی اسمبلی اجلاس کے دوران سر نکالنے کی ہمت نہ کرتے یوں حکومت نے اپنے پانچ سال پچھلے اور پانچ سال موجودہ حکومت کے پورے کرلیے مگر اب جیسے ہی میاں نواز شریف کی نااہلی اور فوج مخالف بیانات کے بعد انکی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی تو ایک بار پھر مفاد پرست سیاستدانوں نے اگلی مدت میں دانہ چگنے کے لیے اپنی پارٹیاں تبدیل کرنا شروع کردی مرکز سمیت تمام صوبائی حکومتوں کے آخری آخری اجلاس ختم ہوچکے ہیں چند دن کا کھیل باقی ہے جیسے ہی نگران سیٹ اپ بنے گا ویسے ہی وفاداریاں تبدیل کرنے کے رجحان میں تیزی آجائیگی اور جس جماعت میں ریس جیتنے والے گھوڑے زیادہ ہونگے وہی عوام کی خدمت کرکے انہیں مزید مشکلات سے دوچار کرنیگے۔