مولانا روم کے بقول خدا جب کسی پر مہربان ہوتا ہے تو اُسے ہدایت کی نصیحت سے سرفراز کرتا ہے ‘محبوب حقیقی کو کوئی تلاش نہیں کر تا جب تک وہ خو د اپنی تلاش کا جنون نہ عطا کر ے ‘ سالک اگر تمہیں اپنی تلاش کی نعمت ملی ہے تو جان لو کہ حق تعالیٰ کو بھی تمہاری تلاش ہے اہل عشق کی محبت خام کو بھی خاص بنا دیتی ہے جب دل میں عشق کی چنگاری پھوٹتی ہے تو پھر اِس میں کو ئی شک نہیں کہ وہ بھی تم سے محبت کر تا ہے اگر کو ئی پیا سا پانی پانی پکا رتا ہے تو پانی بھی صدا دیتا ہے کہ کہاں ہے میراپینے والا’ صرف پیاسے کوپانی کی پیاس نہیں ہو تی بلکہ پانی کو بھی پیاسے کی پیاس ہو تی ہے ‘ہمارے با طن میں خدا کی تلاش اورپیاس اسی ذات کی کشش کا کما ل ہے ‘وہ خو د ہمیں اپنی جانب کھینچتاہے کیونکہ ہم اُس کے ہیں وہ ہمارا ہے ‘خدا ئے بزرگ و برتر اپنی تلاش کا جنون عطا کر کے سالک کو اس قابل کرتا ہے کہ وہ عبادت ‘ ریاضت اورکڑے مجاہدوں سے خودکوگزارکرپیکرکثافت سے پیکرلطافت میں ڈھالے ‘ برصغیر پاک و ہند کی عظیم روحانی شخصیت حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری بھی ایسے ہی پیکر نور تھے جن کی ذات پھوٹنے والی کرنوں سے کرامات کاظہورہوتاہے جن کو دیکھ کر ما دیت پرست انسان محو حیرت ہو جاتا ہے۔
کرامت کسی بھی خدامست درویش کے زہد اور تقویٰ کاکمال ہوتا ہے جب سالک حق تعالیٰ کے نور میں مستغرق ہوتاہے تو کشف و کرامات جنبش کرم کی منتظر رہتی ہیں ‘شاہ چشت کے لاڈلے مرید خوجہ قطب الدین بختیار کاکی آپ کی اپنی ہی کرا مت کا ذکر اکثر فرمایا کر تے تھے کہ ہندوستان آنے سے قبل جب مرشد کریم بغداد میں تھے تو اکثر فرمایا کر تے تھے کہ ان دنوں آتش پرستوں کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہو ئی تھی شہر کے باہر سنسان جگہ پرسات آتش پر ست عرصہ درازسے آگ کی پوجا میں مصروف ہیں وہ خو د کو زندہ قبر میں دفن کر لیتے پھر کئی دنوں بعد جب نکا لے جاتے تو زندہ ہو تے یا کئی کئی دن کھا ئے پئے بغیر زندہ رہتے ‘طویل ریا ضت کی وجہ سے تھو ڑی بہت روحانیت بھی بیدارہوگئی تھی جس کو وہ شعبدہ با زی کے طورپراستعمال کر رہے تھے ‘آتش پرستوں کی جھوٹی کرامات کے چرچے چاروں طرف پھیلتے جا رہے تھے ‘ لوگ جوق در جو ق اُن کی طرف متو جہ ہو رہے تھے عقلوں کو حیران کرنے والے کر شمے کر تے جو دیکھتا اُن کا گرویدہ ہو جاتا وہ ایسے کر شمے کر تے جن کے با رے میں عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا ‘آتش پرستوں کی کرشمہ با زیاں دیکھ کر اہل دنیا کی عقلیں ٹھو کریں کھانا شروع ہو گئیں تھیں ‘ شہنشاہِ چشت کے پاس مریدین بار بار آکر آتش پرستوں کے بارے میں بتاتے کہ اگر اُن کو روکا نہ گیا تو کمزور ایمان مسلمان اُن سے متا ثر ہو کر کہیں منکر یا مر تد نہ ہو جائیں خو اجہ جی پہلے تو مسلسل نظر انداز کر تے رہے کہ ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن جب آتش پر ستوں کی سرگرمیاں حدسے گزرنے لگیں اور وہ کھلم کھلااسلام کے خلاف باتیں کر نے لگے توحضرت خواجہ معین الدین نے اپنے خدام سے کہا مجھے وہ آگ دکھائو جسے پجاریوں نے خدا کا درجہ دے رکھا ہے آپ کو آتا دیکھ کر آتش پرست آگ کے گرد اکٹھے ہو کر بلند آواز میں کچھ پڑھنے لگے۔
پیکر نو ری خواجہ جی اُن کے پاس گئے اور بولے یہ تم لوگ کیاکررہے ہو تو وہ بو لے ہم اپنے خداکی عبادت کر رہے ہیں ‘ شاہ چشت شفیق لہجے میں بو لے اِس آگ کو تم خدا سمجھتے ہو تو آتش پرست بولے ہاں یہ دنیا کی سب سے طاقتور چیزہے جو ہر شے کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے ‘آگ کی زد میںجو چیز بھی آتی ہے یہ اُس کو خاک بنا دیتی ہے اِس کی طا قت لا زوال ہے ‘درویش چشت دلنواز لہجے میں بو لے اگر پانی کے چند قطرے اِس آگ پر برسا دئیے جا ئیں تو بھی یہ پانی کو جلا دے گی کیا پانی پڑنے کے بعد بھی تمہا را خدا قائم رہے گا ‘ آتش پرست پتھر کے مجسموں کی طرح ساکت تھے وہ لاجواب ہو چکے تھے لیکن پھر بو ڑھا آتش پرست بو لا نہیں آگ ہما را خدا نہیں ہے آگ طاقت ور ہے آگ کا عذاب شدید ہو تا ہے اِس لیے ہم آگ کی پو جا کر تے ہیں تا کہ آگ ہمارے جسموں کو نہ جلا ئے ‘ہما رے جسم جلنے سے محفوظ رہیں ‘ شاہ چشت نے گہری نظروں سے آتش پر ستوں کو دیکھا اور بولے اِس کا مطلب ہے کہ آگ اب تمہا رے جسموں کو نہیں جلائے گی ‘ اب بو ڑھا پجا ری گھبرا گیا لیکن پھر بھی بو لا ہاں آگ اپنے پجاریوں کو نہیں جلا تی درویش خدا مست بو لے تم میںسے کو ن ہے جو آگ میں کود جا ئے اور خیریت سے واپس بھی آجا ئے اورآگ اُ س کو جلائے بھی نہ ‘ کو ئی ایسا ہے تو آگ سے گز رے تا کہ ہم بھی اُس کی آگ پرستی کا مظا ہرہ دیکھ سکیں ‘ شاہ اجمیر کے اِس سوال کے لیے آتش پرست بلکل بھی تیا ر نہیں تھے وہ جو دن رات شعبدے با زیوں اور کر شمہ سازیوں سے سادہ لو ح لوگوں کو متاثر کر رہے تھے آج اُن کا ٹا کرا مر د ِ درویش سے تھا جو اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُن سے با ت کر رہا تھاا ب پھر بو ڑھا آتش پر ست بو لا ابھی ہم ریا ضت اور عبادت کے اُس درجے پر نہیں ہیں کہ آگ ہما ری دوست بن جا ئے اُس منزل کو پا نے کے لیے ہم آتش پر ستی کر رہے ہیں۔
ایک دن آئے گا جب آگ ہما رے جسموں کو چھو ئے گی بھی نہیں ۔ آتش پرست نے آخر سہا را لے لیا’ تبسم دلنواز سے شاہ چشت بو لے تم صدیو ں اِس آگ کی پرستش کر تے رہو پھر بھی یہ آگ تمہاری دوست نہیں بن سکتی کیونکہ یہ آگ خالق کائنات کی پیدا کر دہ ہے اُسی کے حکم کی پابند ہے تم قیامت تک اِس آگ کی پر ستش کر تے رہو پھر بھی تمہیں جلا کر خا کستر کر دے گی آگ حق تعالی کی پابند ہے جو خدا کو مانے گا اُسے یہ کچھ بھی نہیں کہے گی خداکو نہ ماننے والوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دے گی بچے گا وہی جو نو ر اسلام میں رنگے گا ‘ اِس کائنات کا مالک اکلوتا خدا ہے کائنات میں موجود ساری چیزیں بھی اُسی کے حکم کی تا بع ہیں آتش پرست بو لا آپ اُسی خدا کے ماننے والے ہیں جو تنہا ہے جس کا کو ئی شریک نہیں تو آپ اِس آگ سے کیوں نہیں گزر جا تے جس خدا نے اِس کو پیدا کیا ہے اگر تم بھی اِس آگ سے ڈرتے ہوتو پھر ہما ری آزمائش کیوں ‘بو ڑھاآتش پرست اب گستاخ ہوتا جارہاتھا مسلمان خدا کے علا وہ کسی سے نہیں ڈرتا شاہ چشت بو لے ڈرو روزِ قیامت سے جب گنا ہ گار انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے آ گ کے حوالے کر دیا جا ئے گا ۔ لیکن آتش پرست بضد تھے کہ آپ ہمیں اِس آگ سے گزر کر دکھا ئیں ورنہ ہما را وقت برباد نہ کریں ‘ حضرت خوا جہ کی باتوں کا آتش پر ستوں پر اثر نہیں ہو رہا تھا ‘ آخر آپ نے واپس جانے کا ارادہ کیا کہ میں نے تو پیغام حق دے دیا لیکن انہوں نے کان بند کر رکھے ہیں لیکن خادم بولا شہنشاہ اگر ہم واپس چلے گئے تو اِن کی شہرت میںمزید اضافہ ہو گا۔
مسلمان اِن کے گرد اوراکٹھے ہو نگے ‘ شاہا اِ ن کے طلسم کوتوڑ کر جائیں خادم کی با ت سن کر شہنشاہِ چشت نے آسمان کی طرف دیکھا اور بو لے اے مالکِ دوجہاں مشرق مغرب آگ اورسمندر کے مالک میں نے بہت کو شش کی لیکن اِن آتش پر ستوں نے مجھے مجبور کر دیا آپ آگے بڑھے آگ کے قریب جا کر اپنے جو تے اتار دیئے خادم کو حکم دیا مجھ فقیر کے جو تے اٹھا کر آگ میں پھینک دو اور بو لے مجھے میرے خدا نے کبھی بھی تنہا نہیں چھو ڑا ‘ خادم نے آپ کے جو تے اٹھاکرآگ میں پھینک دئیے آتش پر ست پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے بھڑکتی ہو ئی آگ کے شعلے جوتوں کو نہیں جلا رہے تھے آگ بھڑک رہی تھی لیکن پیکر نو ری درویش کے جو تے بھی نو ری ہو چکے تھے اُن کا ایک دھا گا بھی نہیں جل رہا تھا ‘ آتش پرست پتھر کے مجسمے بن چکے تھے اب شہنشاہِ چشت نے اپنے خادم کو حکم دیا جائو آگ سے جو تے نکال لا ئو ‘خا دم آگے بڑھا آگ کے شعلوں میںداخل ہو گیا آرام سے مر شد کے جو تے اٹھائے انہیں چومااورلے کر باہر آگیا’ خادم کا ایک بال بھی آگ نے نہیں جلایاآتش پرستوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے درویش خدا مست کے جوتوں اور خادم کی یہ شان کہ آگ نے انہیں چھو ا تک نہیں تو اِس درویش کی شان کیا ہوگی آتش پرست آگے بڑھے اور شاہ ِ چشت کے قدموں سے لپٹ گئے شہنشاہ جس خدا کو آپ مانتے ہیں ہمیں بھی اُس کی غلامی میںدے دیں ‘ ولیوں کے سرتاج جناب خوا جہ معین الدین نے آتش پرستوں کو اٹھایا اور نو ر اسلام سے نواز دیا نو ری پیکر کی کرنیں جس پر بھی پڑی وہ ایمان حق سے سرشار ہوا۔