کچھ تجزیہ کارو صحافی حضرات جن کے بارے میں ٹی وی کھولتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اب انہوںنے کیا بولنا ہے ،آجکل تو ریٹائرڈ جنرلز،بیورکریٹس اور سفارتکاروں نے بھی اپنے کام کاج چھوڑ کر تجزیہ نگاری کی دکان کھول رکھی ہے، جنھوں نے آئے روز ملکی سا لمیت پر پاکستان کو تختہ مشق بنارکھاہوتاہے جن کی نظروں میں جب دیکھو حکومت بس چند گھنٹوں کی ہی مہمان نظر آتی ہے جن کے سنسنی خیز تجزیئے اور اندر کی خبروں کو سن سن کر محلے کی لڑائیوں میں خواتین نے بھی اپنایہ ہی رویہ اپنا لیا ہے ،موجودہ وقتوں میں جب ہم مختلف نیوز چینلوں پر چند ایک ایسے صحافیوں کو دیکھتے ہیں جن کے لفظو ں سے زیادہ آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوتے ہیں جن کی گفتگو سن کر یہ احساس ضرور ہوتاہے کہ کیایہ مزکورہ چینل کا مالک ہے اگر نہیں تو کیا اس چینل کے مالک کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے چینل میں بیٹھ کر من گھڑت اور جگ بیتی کہانیاں سنائی جارہی ہوتی ہیں یقیناً ان نیوز چینلوں کے مالکان کے اپنے مفادات جڑے ہوتے ہیں یہ ہی وجہ ہے ان چینلوں میں بیٹھے خودکار صحافیوں کی ایک فوج اپنے ناپسندیدہ حکمرانوں پر طنز کے نشتر برسارہے ہوتے ہیں ، کیونکہ ایسے صحافی حضرات کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت سے مکمل طورپر منسلک ہوچکے ہوتے ہیں لہذا وہ ہمیشہ ایک ہی قسم کی ڈفلی بجارہے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ اپنی گفتگو میں کوئی تجزیہ پیش نہیں کرتے بلکہ اپنے قائد یا جماعت کی مداح سرائی کرتے ہیں یا پھر اس کے مخالفین کی مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،کیونکہ کسی بھی تبصرہ نگاریا تجزیہ نگار کا صحافی ہونا ضروری نہیں ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھایا جارہاہے ،معاشرے کی تیسری آنکھ اور جمہوریت کا چوتھا ستون آج جس مشکل میں گرفتار ہے اسے ان میڈیاہائوسسزکے مالکان اپنی ناکامی کی بجائے کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا مقصد اب صحافت نہیں بلکہ بزنس بن چکاہے جو دن رات ترقی کررہاہے ،آج پیسوں کی خاطر اور تعلق داری پر تعریفیں کرنے کا نام صحافت بن چکا ہے۔
آج کی صحافت سیاستدانوں کی انتخابی مہم کا زریعہ بن چکی ہے ، صحافت کا اہم مقصد دنیا بھر کی تازہ ترین صورتحال سے واقف کرواناہے مگر آج کا صحافی دلیل دینے کی بجائے فیصلہ کرنے لگا ہے آج کی صحافت نے اپنی ایک عدالت قائم کرلی جہاں وہ اچھے اوربرے سیاستدانوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں ،کیونکہ آج مولانا ظفر علی خان ،حمید نظامی ،مجید نظامی ، میر خلیل الرحمان اور دیگر عظیم صحافیوں کی صحافت کا باب بند ہوچکاہے ان کا قلم تھم چکاہے کوئی بھی آدمی جو خود کو صحافی کہتا ہے وہ ان مرحوم صحافیواں کے نقش قدم پر چلنے کو تیار نظرنہیں آتا اور جو چلنا چاہتے ہیں ان کا مذاق بنایا جاتا ہے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تو نے صحافت کے شعبے سے کیا کمایا وہ دیکھ فلاح صحافی کے پاس لینڈ کروز رہے اور تیرے پاس تو ابھی تک یہ ہی پھٹیچر موٹرسائیکل ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ یہ ہی صحافی نہایت سخت جان ہوا کرتھا وہ اے سی میں بیٹھنے والا صحافی نہیں تھاکیسی ہی مشکل سر پر کیوں نہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں نہ تو جھکتا تھااور نہ ہی کوئی مجبوری اس کی قلم کو خریدسکتی تھی ،اس زمانے میں صرف چند روزنامے ہی نکلا کرتے تھے جن میں کام کرنے والے صحافی نایاب انسانوں کی طرح مانے جاتے تھے جن کی تحریروں اور روزناموںکو پڑھنے کے لیے آخبارصبح سویرے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتے تھے ،طویل عرصہ ہوچلا ہے گھر کے ٹی وی میں لندن فلیٹ پکتے ہوئے اور منی لانڈرنگ کا شور سنتے ہوئے ، ایسا لگتا ہے کہ ان صحافیوں کی ڈیوٹی ہے کہ وہ عام انسا نوں سے جڑی تمام خبروں کو ایک طرف رکھتے ہوئے بس شریف خاندان کی چمڑی ادھیڑتے رہے اور یہ ہی چھترول وہ مختلف موضوع بدل بدل کرتے رہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد آج کل اخبارات کا پڑھنا یا نیوز چینلوں کا دیکھنا وقت کا ضیاع سمجھنے لگی ہے آج بھی میرے سامنے بہت سے ایسے صحافی حضرات موجود ہے جن کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہوگی ان میں سے بہت سے صحافی میرے دوست بھی ہیں اور کچھ ایسے صحافی ہیں جن کو دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے مگر افسوس ان بے کردار صحافیوں نے اچھے اور باکردار صحافیوں کی صحافت کو بھی مشکل میں ڈال رکھاہے ،یعنی یوں کہا جائے کہ وہ صحافی جو باکردار ہوتے ہیں ان کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی کو مشکل بنادیاگیاہے ۔کیونکہ اس ملک میں سرمایہ دار صحافی اور صحافی سرمایہ دار بن چکے ہیں ۔ اچھے صحافی کے لیے لازم ہے کہ وہ معاملات کا جامع تجزپیش کرتا رہے اور ایسا آروگومنٹ عوام کے سامنے رکھے جو حقیقت پسندانہ ہواور جس کی بنیاد دلائلوں سے وابستہ ہواور اس کی خبر میں کسی بھی قسم کا زاتی یا جزباتی لگائو ہرگز نہیں ہونا چاہیے علامہ اقبال بابائے صحافت مولاناظفر علی خان کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ ظفر علی خان کا قلم دین کے بڑے بڑے مجاہدین سے کم نہیں ہے ۔ ہماری حکومتیں بھی اپنے اپنے وقتوں میں کچھ معزز صحافیوں کو نوازتی رہی ہیں یہ ہی نہیں سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ بھی دو ایک صحافی حضرات بطور مشیر کے ان کے ہمراہ رہے جو بعد میں وفاقی وزیروں کے درجے پر بھی فائز کردیئے گئے ان ہی من پسند صحافیوں کی مداح سراہیوں کے بدلے میں بعض کو ایم ڈی پی ٹی وی تو کسی کو اطلاعات ونشریات سے وابسطہ قومی اداروں پر لاکر بٹھادیاجاتاہے یہ ٹرینڈ جب چل نکلاہے تو ہمارے موجودہ صحافی حضرات اب پھر کیوں کسی سے پیچھے رہنے لگے ،ان نیوز چینلوں پر مختلف موضوعات پر پروگرام کرنے کے لیے واضح شرط تو کوئی رکھی نہیں گئی ہے بس بندے کا چرب زبان ہونا لازم ہے اس کے لیے کچھ سیاستدان بھی صحافیوں کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں جن کی بے جادیدہ دلیریوں نے یہ بھی ثابت کردیاہے کہ اس قسم کے نام نہاد نیوز اینکر اپنے ہی پروگراموں میں زلیل ہونے کے فن سے بھی آشنا ہیں۔
ان حرکتوں سے اس قسم کے صحافی حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لیڈر اگر حکومت میں آگیا جس کی اس نے دن رات مداح سرائی کی ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ یقینااسے کوئی فائدہ حاصل ہوگامگر ایسے کسی لیڈر کی اگر حکومت آجائے جس کی اس نے دن رات چمڑی ادھیڑی ہوتی ہے تو پھر وہ ہی صحافی آزادی صحافت کا شور مچاکر اپنی جان بچاتاپھرتاہے ۔اسلامی معاشرہ ہمیںدوسرے شعبوں کی طرح صحافت میں بھی اخلاقی اقدار اور اصولوں کی پابندی کرنے کا حکم دیتاہے صحافت کے پیچھے ریاست کی طاقت نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے کسی عدالت کاڈر ہوتاہے مگر اس کا مطب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کہ کوئی بھی صحافی قوم کی بیٹیوں کے متعلق اس طرح کی گفتگو منہ سے نکالے کہ جسے سن کر ہم یہ محسوس کریں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چلنے والے اس پروگرام کو ہم اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر سن سکتے ہیں یا پھر دیکھ سکتے ہیں۔
معلوم نہیں کہ وہ صحافی ہے بھی یا نہیں مگر اس نے اپنے ایک پروگرام میںنوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز سے متعلق اس قسم کی گفتگو کی کہ یقینا اگر میری فیملی میرے ساتھ بیٹھی ہوتی تو میںاس پروگرام کو میں اپنے سامنے ہٹا دیتاکیونکہ کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی بھی طبقے سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتاہو وہ کسی بیٹی کا باپ کسی بہن کا بھائی یا کسی بیوی کا شوہر ضرور ہوتا ہے مریم نوازکے متعلق جب اس صحافی نے مختلف زایوں سے ان کی زاتی زندگی پر روشنی ڈالی اور جس انداز میں مریم نواز کی پسند کی شادی کے لیے خود سے بنائے گئے جملوں کو بار بار دھرایا گیا اسے دیکھ کر یہ لگتاتھا یا تو یہ شخص موقع پر موجود ساری گفتگو سن رہا تھا یا پھر یہ آدمی انتہا کا بے پرکیاں اڑانے والا آدمی ہے ، جس کو کسی کی بھی بہن بیٹی کا کوئی پاس نہیں ہوسکتامیں اس پروگرام کے سارے جملے اگر یہاں لکھ ڈال دو تو یقینا ایک بار پھر سے خواتین کی تزلیل کے مترادف ہوگا اس لیے میرے اشارے سے وہ تمام لوگ سمجھ چکے ہونگے جو اس وقت مجھے پڑھ رہے ہونگے ،خیر اسلام میں بھی ایسی نازیباں گفتگو سے گریز کرنے کا ہی حکم دیا گیاہے جس میں کسی کی زاتیات پر حملے کیے جائیں خاص طورپر عورت کی عصمت کو اچھالا جائے ،جہاں تک ہماری سیاسی جماعتوں کے لیڈران کا زکر کیا جائے تو ان کے لیے بھی یہ ہی پیغام ہے کہ جس انداز میں وہ اس قسم کے صحافیوں کا سہارا لیکر ملک میں گمراہی کا سامان پیدا کررہے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہوسکتا ہے بہتر یہ کہ صحافت کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور آپ اپنا کام کریں کیونکہ جو صحافی اقتدار کا شوقین ہوگا وہ صحافی ہوہی نہیں سکتا کیونکہ صحافی تو خود کنگ میکر ہوتاہے بھلااسے بادشاہت سے کیا لینا دینا۔