تحریر : عنایت کابلگرامی گرمی کی شدت میں اضافے کے بعد کراچی میں لو لگنے سے کئی افراد جاں بحق ہوئے ہیں، مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی رپورٹ کے مطابق ہیٹ اسٹروک سے کراچی کے مختلف علاقوں میں تین دنوں میں ساٹھ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ سمندری ہوا ئیں بند ہونے کی وجہ سے کراچی میں قیامت خیز گرمی پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے 65 افراد جان کی بازی ہارگئیں،ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق کورنگی اور لانڈھی سے تھا ، ایدھی فاونڈیشن کے مطابق تین دن میں ہمارے پاس ایسی 65 افراد کی لاشیں لائی گئی جو ہیٹ اسٹروک سے ہلاک ہوئے تھے، جبکہ شہری اور صوبائی حکومت اس سے صاف انکاری نظر آتی ہے۔
سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے ایدھی فاونڈیشن کے اس دعوے کو یکسر مسترد کر دیا ہے جس میں کہاں گیا کہ ایدھی سرد خانوں میں ہیٹ اسٹروک سے مرنے والے 65افراد کی لاشیں منتقل کی گئی ہیں۔ دوسرے جانب ایدھی فاونڈیشن نے کئی افراد کی تصاویر اور نام جاری کیئے جو گرمی کی شدت سے جاں بحق ہوئے ہیں، ایدھی فاونڈیشن کے ترجمان انور کاظمی کے بیان کے مطابق ان کے سرد خانوں میں ہفتہ کی شام سے لیکر منگل کی سبح تک 65 افراد کی ایسی لاشیں لائی گئی جو ہیٹ اسٹروک کے شکار ہوئے تھے، کچھ افراد کی لاشیں مختلف اسپتالوں سے منتقل کی گئی ،کچھ گھروں میں ہلاک ہوئیں ۔ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق ہیٹ اسٹروک سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہیں ، کیوں کہ کراچی کے زیادہ تر شہری اپنے پیاروں کی لاشوں کو خد غسل و کفن دے کر دفنادیتے ہیں اور ان کے ہلاکت کی سرکاری ریجسٹر یشن بھی نہیں کراتیں۔
ایک طرف حکومت سندھ اور کراچی کی شہری حکومت اس بات کوماننے کو تیار ہی نہیں کہ کراچی میں اس رمضان ہیٹ اسٹروک سے کوئی ہلاکت ہوئی ہو ، کیوںکہ دوسال قبل جب کراچی میں رمضان المبارک کے مہینے میں ہیٹ اسٹروک نیکم و بیش پچیس سوا فراد کو موت کی وادی میں پہنچایا تھا (یہ وہ افراد ہے جو سرکاری طور پر ریجسٹرڈ ہے ورنہ اموات تو اس سے کئی گنا زیادہ تھی)اس سے حکومت سندھ کی ساکھ بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی۔ اس لیے اس بار الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے حکومت اپنی ساکھ کوبچانے کی کوشش میں مصروف عمل لگ رہی ہے ۔ تو دوسری طرف پراوئٹ این جی اوز مسلسل کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے بچائو کا مہم چلارہی ہیں۔جو حکومت کی زمہ داری ہے۔
ہیٹ اسٹروک کیا ہے اور رمضان المبارک میں ہی زیادہ کیوں اسرانداز ہوتا ہے؟ عام طور پر لوگ اس شدید گرمی میں لُو یا ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوجاتے ہیں، شدید گرمی میں جب تیز بخار کا ہوجانا، سر درد ہو جانا بے ہوش ہوجانامتلی کا محسوس ہونا الٹیاں لگنا اور چکرکا آجانا ہی ہیٹ اسٹروک کی علامات کہلاتی ہیں۔ یہ رمضان المبارک میں زیادہ اس لیے اسرانداز ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں لوگ روزہ رکھتے ہے سبح صادق سے کھانا پینا چوڑ دیتے ہیں،دن بھر گرمی اور جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی ہی وہ وجہ ہے کہ جس سے روزہ دار جلد ہی ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوجاتا ہے ۔واضح رہے دوسال قبل اور اس سال ہیٹ اسٹروک سے مرنے والے زیادہ تر روزہ دار ہی تھے۔
ہر سال دوسرے سال سے گرم آتا جارہاہے۔ ایساکیوں ؟ اس سال موسم گرما کے آغاز میں ہی جو گرمی امنڈ آئی ہے وہ قابل تشویش ہے اور ہر ایک انسان کی زبان پر یہ شکوہ ہے کہ گرمی روزبروز کیوں بڑھ رہی ہے؟ ہر سال گرمی کی وجہ سے نئے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں اور ہم افسوس ہی کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی بات کی جارہی ہے ۔
گلوبل وارمنگ سے مراد انسانی تجربات کے باعث قدرتی ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کوئلے کو توانائی حاصل کرنے کے لئے جلایا جاتا ہے اور یہ گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے۔کوئلے اور تیل سے بجلی پیدا کرنے کے باعث بھی گرین ہائوس گیسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق کوئلہ جلنے کے بعد کاربن گیس کا اخراج کرتا ہے جو ماحول میں حد درجہ آلودگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فضا میں کاربن کی مقدار بڑھا دیتا ہے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث کرہ ارض پرقائم حفاظتی غلاف جسے اوزون لیئر کا نام دیا جاتا ہے اس میں سوراخ پیدا ہوگیا ہے جس کے باعث سورج کی مضر شعائیں زمین کی سطح تک پہنچ کر درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے باعث انسان کو مختلف مسائل کا سامنا ہے مثلاً زمین کے درجہ حرارت کے باعث برفانی تودوں کا تیزی سے پگھلنے سیلاب کے خطرات پیدا ہورہے ہیں۔ زیر زمین ایٹمی تجربات کے باعث زلزلے آرہے ہیں۔
انسان اپنے مفادات کی خاطر جب انسان کو ہی نہیں بخش رہاہے تو زمین، پانی، جنگلات کو کیسے بخشیں گا۔ دنیا بھر میں مختلف مقامات پر ترقی کے نام پر مسلسل جنگلات کا صفایا کیا جارہاہے، جو جنگلات انسانوں کے مددگار تھے انہیں جنگلات کو آج انسان خود اپنے ہاتھوں سے صاف کررہاہے۔ زمین، ہوا، پانی اور جنگلات کی حفاظت کرنے کے لئے جہاں سائنس باقاعدہ انسانوں کو ہدایت دیتا ہے اسی طرح سے دین اسلام بھی قدرتی ماحولیات کی حفاظت کرنے کا حکم دیتاہے۔ ہم مسلمانوں میں ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی وسائل کی بقاء کے لئے فکر کرنے کا مادہ کچھ کم ہی ہے۔ حالانکہ نبی محترم ۖ نے مسلمانوں کو باقاعدہ ماحول کے حفاظت کرنے، زمین پر سبزہ اگانے کی ہدایت دی ہے۔ پیغمبر اسلام رسول مکرم ۖ کے احکامات پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور انکی ہر ادا پر عمل کرنا باعث ثواب ہے۔ رسول خدا ۖ نے جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیاہے اگر ان پر عمل کرلیا جاتاہے تو یہ ہمارے لئے باعث رحمت ہے۔
موجودہ دور میں انسان دولت و آرائش کے نام پر ماحول کو تباہ کرتاجارہاہے اور یہ تباہی خود اپنے ہاتھوں سے انجام دینے کے باوجود قدرت کو ذمہ دار ٹہرا رہاہے۔ جب کثر ت سے بارش ہوتی ہے تب بھی انسان برداشت نہیں کرسکتا،جب گرمی کا پارہ بڑھتا ہے اس وقت بھی قدرت کو ہی مورد الزام ٹہراتاہے مگر ماحول کی حفاظت کے لئے خود کیا کررہاہے ؟یہ کبھی نہیں سوچتاانسان۔ ہم اپنے گھر کے سامنے کسی درخت کو پھیلتا ہوا دیکھتے ہیں تو اسے کاٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسکی وجہ سے کچرا زیادہ ہورہاہے۔ اپنے محلوں میں موجود تناور درختوں کو صرف اس وجہ سے کاٹ دیاجاتاہے کیونکہ وہاں چڑیوں کا چن چیناہٹ زیادہ ہے اور صبح کی نیندیں خراب ہوجاتی ہیں۔ لیکن ہم اپنے مستقبل کے تعلق سے نہیں سوچ رہے ہیں، اپنی عارضی آسائشوں و آرام کے لیے مستقل نقصان کو اٹھایا جارہاہے۔
ہمارے پیارے نبی ۖ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کہیں پر پودا لگاتاہے یا بیج بوتا ہے، اس سے کوئی پرندہ یا انسان یا پھر جانور فائدہ اٹھاتاہے تو وہ عمل بیج بونے والے مسلمان کے لئے ثواب جاریہ اور صدقے کا سبب بن جاتاہے۔ اسی طرح سے اور ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے جس کا مفہوم میں مبارک ہے کہ حضرت انس سے روایت ہے کہ نبیمحترم ۖ نے فرمایا کہ اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا پودا ہو، اگر وہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے اسے گاڑھ سکتے ہو تو اسے گاڑھ دینا چاہئے۔ ان تمام باتوں کو شاید ہم میں سے کچھ لوگ نہیں جانتے لیکن جو علماء اوراکابرین جانتے ہیں مگر وہ دوسروں تک پہنچانے میں سستی و کاہلی کا مظاہرا کرہے ہیں۔ آج ہمارے پاس خدمت خلق کے لئے مخصوص طریقے ہیں جس میں غریبوں کے لئے کھانا کھلانا، غریبوں کے لئے وظیفے تقسیم کرنا، سنت ابراہیمی کروانا، شادی بیاہ کے لئے رقومات فراہم کرنا اور چند ایک مستحق افراد کی بیماریوں کے علاج کے لئے مالی امداد کرنا۔ جب کے پیڑ پودے لگانا بھی باعث ثواب ہے، اس سے ثواب تو ملتاہی ہے ساتھ میں انسانوں کو دنیامیں بھی فائدہ ملتا ہے۔
ہمارے مسجدوں و مدرسوں کالجوں اواسپتالوں کے اطراف و اکناف کئی ایکڑ زمینیں پائی جاتی ہیں اگر ان جگہوں پر سایہ دار درخت لگوائے جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف ٹھنڈی ہوا مل سکتی ہے بلکہ ان سے خوبصورتی بھی آئی گی، ہمارے ملک کے حکمرانوں بلالخصوص سندھ کے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ ہنگامی بنیاد پر درخت اور پودے لگا کر گلوبل وارمنگ کی پلائو میںروکاورٹ بننے اور کراچی میں رمضان المبارک کے دنوں ہیٹ اسٹروک کو مدے نظر رکھتے ہوئے لوڈشیڈنگ پر قابوں پائیں تاکہ مزید جانوں کا ضیاع نہ ہو ۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)