آج سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ آج کے چند پیشہ ور مذہبی پیشوائوں نے مذہب ”اسلام” کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہوا ہے۔ اسی بات کا سب سے زیادہ فائدہ ملت کفر کو ہوا ہے ۔وہ ہمیشہ، ابتدائے اسلام سے ”اسلام ”کا اصل چہرہ بیگاڑ کر اس کو قیدوقیود کا مذہب ثابت کرنا چاہتے تھے ۔مگر وہ چند محافظاِن دین(علماء حق) کی وجہ سے ہر بار ناکام ہوجاتے ۔پھر انہوں نے یہ کام ”اسلام”کے لبادے میں چھپے ہوئے ان غداروں کے سپرد کر دیا ۔دور حاضر کے حسن بن صباحوں نے مذہب کا غلاف اوڑھ کر سب سے زیادہ مذہب اسلام کو نقصان پہنچایا ہے ۔آج سے چودہ سوسال پہلے مکمل ہونے والے دین میں آج مذہب کے یہ بیوپاری اصلاحات کررہے ہیں ۔نعوذباللہ کیا یہ محسن انسانیت،معراج انسانیت ،رہبر انسانیت جناب محمدۖ سے زیادہ علم وعقل ودانش رکھتے ہیں؟تاریخ اسلام کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان (غدار مسلمانوں) کے ہاتھوں پہنچا ہے۔
ان چند نام نہاد مولویوں نے عام لوگوں کو اسلام سے بالکل ویسے ہی اور اتنا ہی دور کردیا ہے جتنا کہ حضرت موسی کے سات سو برس بعد ہیکل سلیمانی کے سجادہ نشین اور یروشلم کے یہودی فرمان روا تک کو معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں تورات نامی کوئی کتاب موجود ہے ۔علمائے یہود کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں نے کتاب اللہ کے علم کی اشاعت کرنے کی بجائے اس کو ربیوں اور مذہبی پیشہ وروں کے ایک محدود طبقے میں مقید کردیا تھا۔خلائق عامہ تو درکنار خود یہودی عوام تک کو اس کی ہوا نہ لگنے دیتے تھے پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان کے اندر گمرائیاں پھیلیں تو علماء نے نہ صرف یہ کہ انکی اصلاح کی کوشش نہ کی بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے ہر اس گمراہی اور بدعت کو جس کا رواج عام ہو جاتا اسے اپنے قول وعمل سے سند جواز عطا کرنے لگے۔یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ۔اکثر علماء کا کردار ایسا ہی ہے دین فروشی ۔ان لوگوں نے عام لوگوں تک دین اسلام کو اس قدر مشکل بنا کر پیش کیا ہے کہ عام انسان ان کے چنگل سے نکل نہ پائے ۔جس طرح سود حرام ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھلی جنگ ہے اللہ اور اس کے حبیب ۖکے واضح احکامات موجود ہیں پھر کیا ضرورت پڑی ہے سود میں گنجائشیں نکالیں کی دلیلیںاور تفصیلیںدینے کی؟سچ تو یہ ہے کہ آج اسلام کا تمسخرہ اڑایا جارہا ہے اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کیا جارہا ہے ۔دینا میں آج تک کسی بھی مذہب اور کسی بھی نبی کی شان میںشاید اتنی گستاخیاں نہیں کی گیں جتنی مذہب اسلام اور رحمت عالم ۖکی شان اقدس میںہوئی ہیں ۔اسی لیے آدھی دنیا کا فاتح مسلمان آج دہشت گرد کہلوارہا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے نبی رحمت ۖکی تعلیمات کو یکسر فراموش کردیا ہوا ہے۔
مذہب اسلام کو چند جاہلوں نے اپنی تاویل میں لے لیا ہوا ہے۔سیکولر،ملحد اور دین بے زار لوگ اسلام کو جبر اور زبردستی کا دین کہہ کر آخرت اور جنت وجہنم کا مذاق بناکر اللہ اور اس کے رسول ۖکیساتھ کھلی جنگ کر رہے ہیں ۔کوئی خدا کو سائیکل پر گھوماتا ہے تو کوئی شہد کو بکواس چیز کہتا ہے ،کوئی جنت کو شراب کے پیاسوں اور سیکس کی بھوکوں کی آماجگاہ کہتا ہے۔آج کم بچے خوشحال گھرانہ کادرس دیا جاتا،آج بھی قبل اسلام کی طرح الٹراسائونڈ کے ذریعے بیٹی کا پتہ چلنے پر اسے دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔آج ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے مداری اسلام کو تنگ نظر مذہب کہتے ہیں بدنام زمانہ طوائفیں ہم جنس پرستی کے حق میں آواز اٹھاتی ہیں آج میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے ۔مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہیں ۔دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام نسل کشی کی جارہی ہے،ہتک آمیز سلوک کیا جاتا ہے آخر کیوں ؟کیونکہ مسلمان نے سمجھا ہی نہیں مسلمان ہونا فرمان مصطفی ۖ ہے” ایسا وقت آنے والا ہے کہ کافر قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو بلائیں گی جیسے کھانے والے اپنے پیالے پر ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ،حالانکہ تم ان دنوں بہت زیادہ ہوگئے لیکن جھاگ ہوگے جس طرح کہ سیلاب کا جھاگ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں دھن ڈال دے گا ،دھن دنیا کی محبت اور موت سے کراہت (نفرت )ہے” (سنن ابودائود 4297)اس سارے بیگاڑ کے پیچھے ان علمائے سو کا قصور ہے جنہوں نے اپنے مفادات،ترجیحات اور خواہشات کی خاطر اسلام کو فرقوں میں بانٹ دیا اور یہ تو ہونا ہی تھا فرمان نبی رحمت دوعالم ۖجو تھا ایک عام انسان کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو کافر سمجھتا ہے اور ہر فرقہ جنت کی ٹکٹ لیے پھر رہا ہے۔توہین نبیۖ،توہین صحابہ،توہین احادیث تو عام سی بات ہے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا قتل کرنا جہاد اور جہادکرنا کو دہشت گردی سمجھ رہا ہے ۔شرک ،بدعت اور خرافات کو اسلام کا نام دیا جارہا ہے ۔اسلامی قوانین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں سید کائنات جناب محمدۖکے فرامین کامذاق اڑایا جارہا ہے ۔ہر فرقہ اپنی دوکان داری سجا کر بیٹھا ہے آج ہرمقدس ہستی کو بیچا جا رہا ہے فتوئوںمیں روز شریعت کا کاروبار کیا جاتا ہے۔مسلمان ذلت آمیز غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اس کی وجہ کہ مسلمانوں نے یہود ونصاریٰ کی پیروی شروع کردی ہے انکی عادات واطوار کو اپنا لیا ہوا ہے اور کفار نے اسلامی قوانین کو ،امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں ”جب تم کفار کو عروج پر دیکھو تو جان لو کہ انہوں نے ضرور مسلمانوں والی صفات اپنا لیں ہیں اور جب مسلمانوں کو ذلت وپستی میں دیکھو تو جان لو کہ ضرورانہوں نے کفار کی بری خصلتوں کو اپنا لیا ہے”آج ہم شریعت کو پس پشت ڈال کر ان جاہل پیشوائوں کی پیروی کر رہے ہیں ،آج ہم خود قرآن واحادیث کو فراموش کرکے انکی اتباع کر رہے ہیں انکے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن میں فر ماتا ہے (سورة الاحزاب66-68 )”جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش !ہم نے اللہ اور رسولۖ کی اطاعت کی ہوتی ،اور کہیں گے :اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہ راست سے بہکا دیا ،اے ہمارے رب !ان کو دوہراعذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر”آئیے ذرہ اپنا احاطہ کرتے ہیں کہ ہم پستیوں کا شکار کیونکر ہیں؟اور ہم نے اللہ اور اس حبیب ۖکے فرامین کوکیسے جھٹلادیا ہوا ہے؟
(1)اللہ اور اس کے رسول محبوبۖنے صاحب ثروت افرادکوزکوة دینے کا حکم دیتے ہیں اس طرح مال پاک ہوجاتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی حفاظت اور برکت میں آجاتا ہے ، غریب کی مدد ہوجاتی ہے ۔آج چند صاحب مال افراد یا تو دکھاوے کے لیے ان افراد کو زکوة دیتے ہیں جو مستحق نہیں ہوتے اور چندصاحب مال افراد نے زکوة دینے سے قارون کی طرح انکار کر دیا ہوا ہے ۔جس سے یہودی نظام کو بھر پور فائدہ حاصل ہوا ہے جس سے سود جیسی لعنت میں ناقابل یقین حد اضافہ ہوا ،غربت میں اضافہ ہوا امیر ،امیر تر ہو گیا اور غریب ،غریب سے غریب تر جس سے روٹی کے چور پیدا ہوئے معاشرتی برائیوں اضافہ ہوا ،انسان ایک روٹی کے لیے قتل وغارت گری کرنے لگا ۔یقین جانیے اگر پاکستان میں زکوة کا درست اور صحیح ترسیل کا سلسلہ شروع ہوجائے تو پاکستان کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہو اور عہد خلافت دوبارہ آجائے کہ کوئی زکوة لینے والا نہ ہو۔(2)انصاف میں تاخیر اللہ اور اس کے حبیب ۖکا فرمان ہے کہ عدل کرو اور تاخیر مت کرو ۔فرمان الہی ہے ایمان والوں :اللہ کی خاطر انصاف کی گواہی دینے کے لیے ڈٹ جایا کرو”مظلوم کو فوری اور فری انصاف دو اس حوالے سے کئی آیات اور احادیث موجود ہیں ۔مگر اس کے باوجود مملکت خداداد میں انصاف ناپید ہوچکا ہے دوہرا معیار ہے قانون امیر کے لیے کچھ اور ہے اور غریب کے لیے کچھ اور آقا کریم ۖ کا فرمان مقدس ہے کہ وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے کہ جس میں قانون امیر کے لیے کچھ اور ہوتا ہو اور غریب کے لیے کچھ اور یہاں مظلوم کو انصاف نہیں ملتا سالوں عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ اکثر تو انصاف کی امید دل میں اس جہاں فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور کچھ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں جس سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے ۔مساوات اور عدل وانصاف کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ معاشرے میں قانون کو برتری حاصل ہو،تاکہ ہر شخص اس اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکے کہ قانون اسکی پشت پر ہے اس لیے اس کے ساتھ کوئی ناانصافی یا اس کی حق تلفی نہ ہوگی اسلام نے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ کہی کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں ۔اس کے مقابلے میں کسی کو دم مارنے کی اجازت نہ ہو گی۔
مشہور واقعہ ہے جوصحیح بخاری اور احادیث کی دوسری کتب میں موجود ہے کہ ایک بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو نبیۖ سے درخواست کی گئی کہ اس عورت نے چوری کی ہے ،لیکن شریف گھرانے کی ہے ،اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے ،کوئی اور سزا دے دی جائے نبیۖ کو یہ بات سخت ناگوار گزری آپۖ نے فرمایا کہ قومیں اسی طرح تباہ ہوئی ہیں کہ ان میں جو بااقتدار اور شریف سمجھے جاتے تھے انہوں نے اگر کوئی غلط کام کیا تو ان کو سزاء نہیں دی گئی اور جو کمزور تھے ان کو سزاء دی گئی ۔پھر وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو شاید پیغمبر ہی کی زبان مبارک سے نکل سکتا ہے ۔آپۖ نے فرمایا کہ محمدۖ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو آج میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا (متفق علیہ)(3)اسلامی سزائوں پر اہل یورپ اور انکی تعلیم وتہذیب سے متاثر لوگوں کا یہ عام اعتراض ہے کہ یہ سزائیں سخت ہیں اور بعض ناعاقبت اندیش لوگ تو یہ کہنے سے بھی باز نہیں آتے کہ یہ سزائیں وحشیانہ اور شرافت انسانی کے خلاف ہیں ۔اس پروپیگنڈے کے جواب سے قبل یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ یہ اعتراض ان لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جو تہذیب انسانی اور حقوق انسانی کے دعویدار ہیں اور اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگوں پر تو رحم کھاتے ہیں مگر پوری عالم انسانیت پر رحم نہیں کھاتے ،جن کی زندگیوں کو ان جرائم پیشہ لوگوں نے اجیرن بنا رکھا ہے ،حالانکہ یہ روش سراسرعقل کے خلاف اور انصاف سے متصادم ہے ،کیونکہ ایک مجرم پر ترس کھانا پوری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے ،جب کہ امن عامہ کو مختل کرنے کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے جبکہ جرائم کا انسداد حدود اللہ کے نفاذ کے بغیر ممکن ہی نہیںاب جو لوگ ان حدود پر اعتراض کرتے ہیں ،معلوم ہوا کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ جرائم کا انسداد ہو ،ورنہ جہاں تک رحمت وشفقت کا معاملہ ہے وہ شریعت اسلامیہ سے زیادہ کوئی نہیں سکھا سکتا ،جس نے عین میدان جنگ میں اپنے قاتل دشمنوں کا حق پہچانا اور حکم دیا کہ عورت اگر سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو،بچہ بوڑھا سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو ۔سچ تو یہ ہے کہ اگر آج پاکستان کے اندر اسلامی سزائوں کا عملی نفاذ کر دیا جائے تو مجرم اپنے انجام کا سوچ کر جرم کرنا چھوڑ دے ۔شہنشاہ امن جناب محمدۖ کے بے شمار فرامین میں سے ابھی تین (زکوة)(انصاف )(اسلامی سزائیں)کا سرسری ذکر کیا ہے انکی وضاحت پر بے شمار کتب لکھی جاچکی ہیں اور بے شمار لکھی جاسکتی ہیں وجہ انسانیت کامل انسانیت جناب محمدۖ کے متعلق دنیا کفر کے بڑے بڑے لیڈوں کی رائے۔
سر تھامس کارلائل)کہتا ہے ”ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے جو کہتے ہیں کہ اسلام جھوٹ ہے اور محمد ۖایک دھوکے باز تھے سچ تو یہ ہے کہ محمدۖوہ شخص ہے جو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عزم اور استقامت سے لڑا ۔میں نے محمدۖسے بڑھ کر دوسروں پر مہربان،غریبوں کے لیے سخی اور معاشرے میں قابل اعتبارشخص کسی کو نہیں پایا”(ہینری ہینڈ مین)کہتا ہے”محمدۖایسے لیڈر تھے کہ جن کے نزدیک ان کااور ایک عام آدمی کا Statusایک تھا ۔انہوں نے کبھی خود اپنی ذات کو مالی مفاد سے نہیں نوازا ،یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے ان کا تب بھی ساتھ دیا کہ جب محمدۖ غربت کی زندگی گزاررہے تھے اور تب بھی ان کے اعتماد کا پیمانہ وہی تھا کہ جب محمدۖ ایک عظیم سلطنت کے شہنشاہ تھے”(فرانسیی ہیرو،نپولین بونا پارٹ )کہتا ہے ”سب سے بہترین مذہب محمدۖبن عبداللہ کا مذہب ہے”(سرباسورتھ سمتھ)کہتا ہے”کائنات میں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے منصفانہ طور پر ایمانداری سے حکومت کی ہے تو وہ صرف ”محمدۖ”کی ذات ہے”(سررچرڈبیل) کہتا ہے ”یورپ شدید اضمحلال کی دہلیز پر ہے شاندار ماتھے کے پیچھے شدید ذہنی دبائو،دیوانگی ،روحانی امراض ،جنسی بے راہ روی ،زنا بالجبر اور بڑھتے ہوئے جنسی امراض پوشیدہ ہیں باہمی پیار اور ایک دوسرے پر اعتبار ہوا ہو چکے ۔یورپ کے سامنے ایک ہی انتخاب ہے۔نجات کا واحد راستہ اور یہ راستہ ”محمدۖ”کا دین ہے دوسرا انتخاب ہے ہی نہیں ”(ایڈولف ہٹلر)کہتا ہے”صرف ایک ہی مذہب ہے جس کی دل سے عزت کرتا ہوں اور وہ اسلام ہے ۔صرف ایک ہی نبیۖ ہیں جس کی شان کا میں قائل ہوں اور وہ محمدۖہیں ۔آج اگر ہم نبی رحمتۖ کی فرامین پر عمل کرنا شروع کردیں تو کامیاب ترین زندگی گزار سکتے ہیں۔