تحریک انصاف پچھلے پانچ سال سے اقتدار میں آنے کے لیے کافی پر تول رہی ہے۔ 2013 کے الیکشن سے لیکر آج تک اس نے ان الیکشن کو تسلیم نہیں کیا۔ بے شک بعد میں ضمنی الیکشن میں بڑے اہم حلقوں سے منہ کی کھانا پڑی پھر بھی میں نا مانوں ہار کے مترادف اقتدار کے کافی ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ عمران خان کی انتھک محنت کی وجہ سے ن لیگ اس مقام پر آگئی ہے کہ وہ اپنی سیاسی کیرئیر میں پہلی بار پانچ سال پورے کررہی ہے۔ عمران خان کوایک کریڈٹ اور جاتا ہے کہ اس نے تمام جماعتوں سے لوٹوں کو اکٹھا کرنا شروع کردیا ہے۔ خان صاحب کی سوچ کو وہ جانتے ہیں یا ان کا خدا مگر جس طرح سے وہ ہر بندے کو انصافی بنائے جا رہے ہیں ان سے ان کی پارٹی مضبوط نہیں بلکہ کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔
میں کسی اور کی بات نہیں کرتا مگر میں اپنے حلقے کی مثال سامنے رکھتا ہوں کہ جب خانصاحب نے لاہور میں پہلا جلسہ کیا تھا تو اس وقت ہمارے حلقے سے ایک انصافی امیدوار نہ صرف کئی گاڑیوں کا قافلہ لاہور اپنی ذاتی خرچے پرلے کر گیا بلکہ تحریک انصاف کو اپنے حلقے میں اچھے انداز سے متعارف بھی کرایا مگر جب 2013میں جنرل الیکشن کا وقت آیا تا اس کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہرپھینکا اور چڑھدے سورج کو پوجنے والوں کو ٹکٹ دے دیا۔ خانصاحب کے مشیر مجھے نہیں لگتا کہ وہ ان کو اقتدار تک لے جانا چاہتے ہیں بلکہ ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انہیں رسوائی کی طرف لے جارہے ہیں۔
ویسے تو اللہ بہتر جانتا ہے الیکشن میں اقتدارکا تاج کس کے سر پرسجتا ہے مگر خواب دیکھنا تو ہرپارٹی کا حق ہے۔ کل ہی خان صاحب نے2013 کے الیکشن کی طرح اس بار بھی اقتدار میں آنا کا خواب دیکھتے ہوے پہلے سو دن کا پلان جاری کردیا ۔ خانصاحب کو یاد ہوگا پچھلے الیکشن میں بھی انہوں نے نوے دن کا منصوبہ پیش کیا تھا اور اب وہ خود بتائیں کے پی کے میں حکومت لینے کے بعد نوے دن میں انہوں نے اس پلان پر کتنا عمل کیا؟
خانصاحب نے 100دن کا پلان پیش کرتے ہوے کہا کہ نوازشریف جہاں جاتے ہیں وہاں موٹر وے بنانے کا اعلان کردیتے ہیں۔ موٹروے بنانے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں حالانکہ موٹروے تو کسی کو بھی پیسے دے کر بنوائی جاسکتی ہے۔ اس لیے موٹر وے نہیں قوم بنانا مشکل کام ہے۔ یہاں ایک سوال خانصاحب سے پوچھنا بنتا ہے کہ آپ بھی تو 92کاورلڈکپ اور شوکت خانم ہسپتال کا چرچا کرتے ہو تو اس وقت92میں جو بھی کپتان ہوتا تو کامیابی اسی کے قدم چومتی کیونکہ اللہ نے وہ جیت ہمارے مقدر میں لکھ دی تھی اور رہا سوال ہسپتال کا تو عوامی چندے پر کوئی بھی یہ نیک کام کرسکتا تھا اور بہت سے لوگ اب بھی یہ خیراتی کام کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی نے ممکنہ اقتدار کے بعد شروع کے 100 دن کا منصوبہ پیش کیا جس میں شاہ محمودقریشی نے داخلہ پالیسی جب کہ شیریں مزاری نے خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کیے۔ جہانگیر ترین نے زرعی اصلاحات پربات کی جب کہ اسد عمر نے معیشت کے خدوخال واضح کئے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنیکے بعد بلوچستان کو احساس محرومی سے نکالیں گے اور ناراض لوگوں کو منا کرقومی دھارے میں لائیں گے، فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کریں گے اور فاٹا کے لوگوں کو کے پی کے اسمبلی میں نمائندگی دی جائیگی۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنا کر پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ احتساب پی ٹی آئی کی حکومت کا اہم ستون ہو گا اور ہماری حکومت نیب کو مکمل خود مختاری دے گی۔ جرائم کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ لوگوں کو سستے گھر دیئے جائیں گے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ سسٹم بہتر کیا جائیگا جب کہ شہر اقتدار میں گورننس کو بہتر بنائیں گے۔
معیشت کے حوالے سے اسد عمر کا کہنا تھا کہ جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں ہم نے سب سے پہلے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔ اپنے نوجوانوں کو روزگار دینا ہے اور منصوبے کے مطابق 5 سال میں ایک کروڑ نئی نوکریاں پیدا کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤسنگ اسکیم پروگرام لانچ کیا جائے گا جس کے تحت 50 لاکھ فلیٹس بنائے جائیں گے۔ قومی ادارہ اسٹیل مل 2 سال سے بند پڑی ہے ہم ان کارخانوں کی اصلاحات کرائیں گے۔
زراعت کے حوالے سے جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ حکومت میں آتے ہی زرعی ایمرجنسی کا اعلان کریں گے۔ ہمیں تحقیق پر پیسے خرچ کرنا ہوں گے۔ زرعی تحقیق میں ہم دنیا سے 40 سال پیچھے ہیں۔ تاہم امید ہے کہ ہم یہ فرق ایک سال میں پورا کرلیں گے۔ پورے پاکستان میں ویئر ہاؤسز کا جال بچھا دیں گے۔ دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے۔
عمران خان کی پارٹی نے سہانے خواب اچھے دکھائے مگر 100دن کا نام دیکر ان خوابوں کی تعبیر پر سوالیہ نشان لگادیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی حلیف اور حریف جماعت پیپلزپارٹی نے اس 100 دن کے پروگرام کو خالی خواہشات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا سو دن کا پلان ایک خواہشات کی فہرست کے سوا کچھ کچھ نہیں،یہ سو دن کا پلان بھی گزشتہ انتخابات کے نوے دن کے پلان جیسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنما نفیسہ شاہ نے کہاکہ پانچ سال قبل عمران خان نے نوے دن میں سب تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا،عمران خان نے ایوان وزیر اعلی اور گورنر ہاوس کو لائبریریوں میں تبدیل کرنے کا عزم کیا تھا،صحت، تعلیم اور انصاف کے شعبے میں کرپشن ختم کرنے کے وعدے کا کیا ہوا ؟
پیپلز پارٹی کیطرح دوسری سیاسی جماعتوں نے اس شعبدے بازی کا نام دیاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام شکاریوں کی طرف سے پھینکے جارہے جالوں میں سے کس کے جال میں پھنستی ہے ۔ اگرموجودہ حکومتی کارکردگی کی بات کروں تو کل ہی ایک رپورٹ میں پنجاب کو ترقیاتی کاموں میں اول پوزیشن کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ کے پی کے کو تو جنوبی پنجاب سے بھی پیچھے رکھا گیا جہاں کے لیڈران یہ کہہ کر ن لیگ چھوڑ گئے کہ ہمارا حق نہیں ملا ۔ کوئی ان سے پوچھے کہ حق نہ ملنے کے باوجود تم کس پوزیشن پر ہو اور جس پارٹی میں گئے ہو ان کی اپنی حکومت ہونے کے باوجود وہ کس پوزیشن پرہیں؟ عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ بظاہرالیکشن کی تیاری عروج پر ہیں اور الیکشن روز بروز نزدیک تر آتا جارہے اب دیکھنا ہے کہ پاکستان کی غیور عوام کس پارٹی کو اپنے سر کا تاج بناتی ہے۔ اپنی ذہانت سے ووٹ دیتی ہے کہ کسی کے اشاروں پر؟فیصلہ عوام کا ہے جسے سب کو ماننا چاہیے تاکہ ہمارا ملک ترقی کر سکے۔