ہمارے ملک کا تعلیمی نظام مسلسل تبدیلی اور جدیدیت کے عمل سے گزرتا ہی چلا جا رہا ہے اور بچے ہر بار نئی آزمائشوں کیلئے تیار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں میں ہمیشہ بہتر سے بہتر کارگردگی دیکھانے کی جستجو بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔پاکستان اپنے کسی بھی معاملے میں غیر مستحکم واقع ہوا ہے اور اس غیر مستحکم نے پاکستانی عوام کی سوچ بھی غیر مستحکم کر کے رکھ دی ہے۔ دنیا میں موجود ممالک مختلف وجوہات یا خصوصیات کی بناء ہے مشہور ہیں یا ہر خاص و عام ان ممالک کے ناموں سے واقف ہیں۔
دنیا کے تقریباً سارے ہی مشہور ممالک اپنی شہرت کی کوئی نا کوئی خاص وجہ ضرور رکھتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک سے زیادہ وجوہات کی بناء پر دنیا کو یاد رہتے ہیں۔ ہمارا پیارا وطن عزیز بھی ان میں سے ایک ہے جو ایک سے زیادہ وجہ سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ ہم نے اس بات پر زور نہیں دے رہے کہ شہرت کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان بھی اس مختصر ممالک کی فہرست میں ہے جنکی وجہ شہرت ایک سے کئی زیادہ ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ، پاکستان دنیا کی ان آٹھ ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جو باقاعدہ طور پر ایٹمی طاقت ہیں، پاکستان دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ میں بھی ہر اول دستے کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبہاتا رہا ہے ، سیاسی و عسکری بحران بھی ہماری پہچان و خاصہ ہیں، حنیف محمد، وسیم وقار کی جوڑی، مشہور زمانہ شاہد خان آفریدی، جہانگیر خان اور جان شیر خان، حسین شاہ، عارفہ کریم، وغیرہ وغیرہ یہ ایک طویل فہرست ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ پیش کیا ہے اور پاکستان کے مسخ ہوتے ہوئے چہرے پر کسی خوش نمانوید کا باعث بنے ہیں اور ان جیسے نام پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنتے جا رہے ہیں۔ پہلے ایک بات سمجھ لیں کہ پاکستان ایک غیر مستحکم مملکت ہے اور یہاں کچھ بھی ہونے والا غیر متوقع تصور کیا جاتا ہے، یہاں لوگوں کی سوچ متززل رہتی ہے ، قسطوں میں فیصلے کرتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں بدلتے ہیں۔یعنی پاکستان ایک غیر متوازن مزاج کی حامل مملکت کا نام ہے۔
پاکستان نے کرکٹ کی دنیا میں بڑا نام بنایا ہے اور بڑے بڑے نام کرکٹ کو دئیے ہیں۔ گوکہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے ہاکی تاریخ کی بد ترین سطح پر آچکی ہے ۔کرکٹ کا حال بھی کچھ اس زبوں حال ہاکی سے کم نہیں ہونا تھا مگر قسمت نے اس قوم میں چھوٹی عمروں میں ہی بڑے بڑے نام پیدا کردئیے جنہوں نے نا صرف ملک کی ساکھ کو سنبھالا بلکہ اونچائیوں کی جانب اٹھنا شروع کردیا۔ پہلے ٹیموں میں کوئی ایک سپر اسٹار ہوا کرتا تھا جس پر پوری ٹیم کا نحصار ہوتا تھا مگر اب کرکٹ کی تیز رفتاری ، بدلتے ہوئے طرز، رنگ برنگے کپڑے ، برقی قمقمے اور موسیقی نے ٹیم میں شامل ہر کھلاڑی کے اندر سپراسٹار پیدا کررکھا ہے اور ہر کھلاڑی موقع کی تلاش میں دیکھائی دیتا ہے ۔ جیسے ہی موقع میسر آتا ہے وہ اپنے آپ کو ثابت کر کے دیکھا دیتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے گزشتہ سالوں میں کرکٹ پر بھرپور توجہ دی ہے جن میں داخلی امور کیساتھ ساتھ خارجی امور پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔کرکٹ کی ترقی اور بحالی کے لئے بورڈ سے منسلک ہر ادارہ اپنا کام احسن و بحوبی انجام دیتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انتخابی کمیٹی ہے جس کی ذمہ داری بورڈ نے پاکستان کے ناموربلے باز انضمام الحق کے کاندھوں پر رکھی ۔ انضمام الحق کیلئے مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ ایک مسلۂ ثابت ہوسکتی تھی لیکن انہوں نے نئے کھلاڑیوں پر اعتماد کرنے کو ترجیح دی جو کہ دومیسٹک کرکٹ میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے دیکھائی دیئے۔ انضمام الحق اور انکی کمیٹی کا فواد عالم کو نا چنا ایک سوال بن کر سامنے آیا ہے کیونکہ فواد عالم کیلئے اس سے بہتر وقت اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا جبکہ دیگر چنے گئے کھلاڑیوں کے پاس ابھی بہت وقت باقی ہے اور مصباح اور یونس کی ریٹارئیرمنٹ کے بعد کو فواد کے چناؤ کو یقینی سمجھا جا رہا تھاجسے انضمام الحق نے یکسر نظر انداز کردیا، اب اس کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں اس کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ انضمام الحق کی اس ٹیم نے جسکی قیادت سرفرازاحمد کے ناتواں کاندھوں پر رکھی گئی جس نے دنیا کی آٹھ بہترین ٹیموں کے مابین کھیلی جانی والی چیمپئین ٹرافی میں انگلینڈ میں شرکت کی اور مختصراً یہ کہ بھارت اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کو شکست سے درکنار کیا اور پاکستان کے کیلئے چیمپئین ٹرافی جیتی۔ یہ ایک واقعی بہت بڑی کامیابی تھی جس سے کھلاڑیوں میں نا صرف اعتماد پیدا ہوا بلکہ کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی جستجو پیدا ہوئی۔
پاکستان کی شاندار جیت میں ہر کھلاڑی نے اپنا حصہ ڈالا جن نئے کھلاڑیوں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنی اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھائیں ان میں فخرزمان ، شاداب خان، فہیم اشرف ، حسن علی اور بابر اعظم کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد سے ٹیم کے حوصلے بلند ہوئے اور کسی حد تک غیر متوقع ٹیم کے لقب سے جانی جانے والی ٹیم نے توقعات پر پورا اترنا شروع کیا۔ پاکستان کی ٹیم جوکہ تقریباً نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے ایک انتہائی مشکل اور اپنے دور کے اہم ترین دورے پر ہے۔ مشکل اس لئے ہے کہ کھیلنے کیلئے میسر جو موسم دستیاب ہے وہ اپنے ملک سے قطعی مختلف ہے۔ ایسے موسم میں گیند بازوں کو تو بہت حد تک مدد ملتی ہے لیکن بلے بازوں کا کڑا امتحان ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ موسم کے سرد ہونے کی وجہ سے فیلڈنگ کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ محنت اور لگن سے لبریز یہ کم عمر دستہ آئرلینڈ کی ٹیم کو زیر کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے ، گوکہ آئرلینڈ کی ٹیم نے اپنا تاریخی پہلاٹیسٹ کھیلا ہے لیکن موسم کا ہتھیار انکے ساتھ تھا جس سے پاکستان کی ٹیم نے بڑی ہوشمندی سے سامنا کیااور کامیابی نے انکے قدم چومے۔ ٹیم اب اسی عزم اور حوصلے کو لے کر انگلینڈ کی سرزمین پر پہنچ چکی ہے اور لارڈز کے تاریخی میدان میں اپنے پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن ہی پاکستان کے گیند بازوں نے انگلینڈ کی ٹیم کو اپنے ارادوں کا پتہ بتا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے بلے باز انگریزی بلے بازوں کا مقابلہ کسطرح سے کرینگے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دوٹیسٹ میچوں کی سیریز پاکستان اپنے نام کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ اس کے بعد ایک معرکہ اسکاٹ لینڈ کی ٹیم سے بھی سر کرنا ہے ۔ اس طویل دورے میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیل کہیں زیادہ موسموں سے لڑائی کرنی پڑے گی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارگردگی کا ذکر بغیر پاکستان سپرلیگ کا تذکرہ کئے بغیر نامکمل ہوگا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور اسکے اعلی حکام پی ایس ایل کو تقریبا پاکستان لے ہی آئے ہیں جو سفر دیارے غیر سے شروع ہوا تھا اب طے ہوتا ہوا اپنی دائمی منزل کی جانب تقریباً پہنچ چکا ہے ۔ اللہ نے چاہا تو بہت پاکستان میں بغیر کسی اضافی حفاظتی انتظامات کہ بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گااور دشمن اپنا منہ لے کر رہ جائیگا۔ جہاں ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کی انتخابی کمیٹی کی خدمات کا اعتراف کیا ہے تواگر ہم تربیتی عملے کا تذکرہ نا کریں تو یہ انکے ساتھ زیادتی ہوگی۔ تربیتی عملے نے اپنی خدمات بھرپور طریقے سے نبھائی ہیں اور اب تک کسی قسم کے اسکینڈل کی بھی خبر نہیں ہے ،جوکہ اس بات کی گواہی ہے کہ ڈریسنگ روم کا ماحول اچھا ہی نہیں بہترین ہے۔ سرفراز کی خداداد صلاحتیں اور مکی آرتھر کی تربیتی مشقیں پاکستان کی ٹیم کو بلندیوں کی جانب گامزن کئے ہوئے ہے۔ آج ہر کھلاڑی اپنی ذمہ داری محسوس کرتا اور اس کو پورا کرتا دیکھائی دے رہا ہے۔
ٹیم میں اب اعتماد بھی ہے اور کچھ کر دیکھانے کا جذبہ بھی ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو اعتماد دیا جائے انکی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے اور ان کے اندر حب الوطنی کا جذبہ اجاگر کیا جائے۔ ٹیم میں تبدلیوں کے عمل کو کم سے کم رکھا جائے بلکہ انہیں کھلاڑیوں کو اگلے سال ہونے والے کرکٹ کے عالمی مقابلوں تک یکجا رکھا جائے ۔ اب اسے خوش قسمتی کہیں یا کچھ اور کہ عالمی کپ ۲۰۱۹ بھی انگلینڈ میں ہی منعقد کیا جارہا ہے اور انگلینڈ کی سرزمین پر پاکستانی ٹیم اچھا کھیل پیش کرتی دیکھائی دے رہی ہے۔