تحریر : انجینئر افتخار چودھری آپ ہمیشہ یاد آئیں گی میری بیگم میری بیٹی میرا بیٹا پوری فیملی بشمول شکیل سب دکھی ہیں۔لیکن ہم نے تہیہ کر لیا ہے اب جب کے انتحابات سر پر ہیں ہم عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔قائد تحریک انصاف نے کہا تھا کہ نظریاتی کون ہے ٹکٹیں بانٹنے کے بعد دیکھیں گے۔عمران خان صاحب یہ تو صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ ہے نہیں دینی نہ دیں پہلے بھی اعلان کے باوجود نہیں ملی کیا بھاگے تھے؟ہم آپ کو منزل پر پہنچاکے لوٹیں گے۔یہی میرا اور میری دو نسلوں کا خواب بھی ہے اور عہد بھی ہے اور انشاء اللہ اس پاکستان کو ایک بنائیں گے آپ کو وزیر اعظم بنائیں گے ہم وہ نہیں جو سر عام کہتے ہیں کہ ہم دھڑے جنبے کی سیاست کرتے ہیں۔ہمیں تین ٹکٹیں دے دو۔ ٹکٹاں نہ ہوئیاں ریوڑیاں ہو گئیں فوزیہ بہن کیا آپ صرف ٹکٹ کے لئے چلی گئیں بڑے دکھ کی بات ہے۔یہ پی ٹی آئی ہے اتنا پیار کہاں ملے گا ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہے انتہائی حلیم اور شفیق فوزیہ قصوری پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ پاک سر زمین پارٹی میں چلی گئیں۔ایک چھتر چھایا شخصیت جسے پی ٹی آئی کے جوان ماں کہتے تھے ہو انہیں روتا بلکتاچھوڑ گئی ایے موقعوں پر الفاظ کے چناؤ میں دقت ہوتی ہے۔
عمران خان کے فلسفے اور اس کی سوچ کو نگر نگر گلی گلی لے جانے والی فوزیہ قصوری کا جانا عہد بہار کا جانا ہے۔سوچتا ہوں وہ کیوں گئیں اس سے پہلے کہ میں موضوع کو آگے بڑھاؤں کچھ ان سے جڑی یادیں ضرور لکھنا چاہوں گا۔ چند سطریں ان کی زندگی کے بارے میں تا کہ میرے قارئین جان سکیں کہ میڈم ہیں کون۔آٹھ ستمبر انیس سو باون میں کراچی میں پیدا ہوئیں وہیں کراچی امریکن اسکول اور سینٹ جوزیف میں ابتدائی تعلیم حاصل کی بعد میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعدمیں ایم بی اے پروگرام یونیورسٹی آف نارتھ کیرو لینا امریکہ میں شماریات اور اکنامکس میں کیا۔ ان کے خوند کا نام دانیال قصوری ہے پیپلز پارٹی کے وائس چیئرمن میاں محمود علی قصوری ان کے تایا ہیں خورشید قصوری کزن۔بیکنز اسکول کی مالک ہیں۔فوزیہ ایک اپنی ذات میں انجمن نہیں یونیورسٹی ہیں۔کارکنوں کو یاد رکھنا ان کے غم اور خوشی میں شریک ہونا۔سچ پوچھیں وہ واقعی وہ ماں تھیں جو شفیق اور محبت کرنے والی تھیں افضال اکرم کی شادی میں گوئیندکی ڈسکہ پہنچ گئیں۔اسے دل جیتنا آتاتھا۔۷۰۰۲ میں جب پارٹی میں شامل ہوا کی تو ایک دن دفتر آئیں تو میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔انہیں ایک ٹاک شو میں جانے کو کہا کہنے لگیں مجھے پنجابی نہیں آتی معروف صحافی مظہر برلاس ان دنوں اپنا چینیل میں ٹاکرا کیا کرتے تھے وہ گئیں اور شستہ اردو میں پنجابی سوالوں کے جواب دیے جسے سراہا گیا۔پھر اس کے بعد وہ ٹی وی چینیلز پر اکثر آنے لگیں۔ان سے کوئی سخت بات بھی کرتا تو ٹال جاتیں۔
ایک باہر کسی معروفف شخص نے جو اب پی ٹی آئی کی اگلی صفوں میں ہوتے ہیں انہوں نے عمران خان کے بارے سخت الفاظ کہے تو اینکر کو کہنے لگیں مجھے ان سے نفرت کی گھن آتی ہے انہیں سنبھالئے۔کیا لکھنوی انداز تھا۔ اللہ ان کی عمر دراز کرے میں فوزیہ بہن کے بارے میں میں کچھ یوں لکھ رہا ہوں کہ جیسے خاکم بدہن وہ اب نہیں رہیں۔ لیکن میرے لئے تو چلی گئیں۔مارچ کے دوسرے ہفتے میں دلدار اور ہدایا کی شادی تھی۔ اس تقرب میں مہمانوں کو ایسے سنبھال رہی تھیں جیسے میری بڑی بہن ممتاز اختر۔ میری بیگم سعیدہ سے ان کی کئی ملاقاتیں تھیں۔کہہ رہی تھیں کڑھی پکوڑہ کھاؤں گی۔کھائے بغیر چلی گئیں۔ایک خاتون ثمینہ گنڈا پور تھیں جن کے میاں سلیم نواز گنڈہ پور سابق سفیر تھے بہن رابعہ یاسمین آپا فوزیہ قصوری فرح آغا جب بھی ملتیں بیگم کے حال احوال پوچھتیں۔فوزیہ قصوری بہترین مقرر ہیں لوگوں کے دل جیتنا جانتی ہیں۔پارٹی کے لئے ان کی خدمات دو عشروں پر محیط رہیں۔
انہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ۲۱۰۲ میں جب پارٹی نے ممبر شپ کیمپس لگانے کو کہا تو نوید افتخار نے میری سعودی عرب موجودگی کے باوجود بھرپور کیمپس لگائے۔پہلے کیمپ میں زمانہ طالب علمی کے دور کے سینئر ساتھی جناب جاوید ہاشمی شریک ہوئے ائر پورٹ سوسائٹی میں لگایا گیا کیمپ ایک یاد گار کیمپ تھا باغی باغی کے نعروں میں فرخ حبیب کی موجودگی میں نوید نے لوگوں کو پی ٹی کا ممبر بنایا بارہواں آخری کیمپ رحمت آباد میں لگا جہاں مہمان خصوصی فوزیہ بہن تھیں۔نوید کو تو بیٹا سمجھتی تھیں جو انصاف یوتھ ونگ راولپنڈی کا تین بار صدر بنا۔اس میں کوئی شک نہیں اسے عامر کیانی عطاء اللہ شادی خیل اور ملک محسن کی سر پرستی رہی لیکن خواتین میں فوزیہ قصوری اور فرح آغا کا نام لکھنا ضروری ہے فوزیہ قصوری نے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ شوکت خانم،عمران خان فاؤنڈیشن کے لئے خطیر رقوم جمع کیں لوگ عمران خان کے بعد فوزیہ قصوری پر اعتبار کرتے ہیں انہیں مادر پی ٹی آئی کہا جاتا ہے۔وہ سترہ سال خواتین ونگز کی صدر رہیں۔یوتھ ونگز کی سر پرستی کرتی رہیں غربت کے خاتمے کے لئے ان کی کوششیں تا دیر یاد رکھی جائیں گی۔پی ٹی آئی میں آپا یاسمین فاروقی اور فوزیہ قصوری کمال کی خواتین تھی۔
ہماری آخری ملاقات دلدار کے ولیمے میں ہوئی وہ جب ہال میں آئیں تو لوگوں کا جم غفیر ان کی پزیرائی کے لئے بڑھا۔وہ ہر میز پر گئیں اور کارکنوں بلکہ لیڈرا ن کو کہتی رہیں کہ زیادتی کے خلاف کھڑے ہوں۔وہ خواتین لیڈران نرگس نوشابہ منان عنبرین ترک فرح آغاکے نرغے میں مردوں کے ایک ایک ٹیبل پر گئیں سچ پوچھیں اس ولیمے میں جو رونق ان کے ارد گرد تھی وہ فرزند پنڈی کے علاوہ کسی کو نصیب نہ ہوئی۔
فوزیہ قصوری کے ساتھ پارٹی کے اندر سالوں سے معاملات چل رہے تھے ۳۱۰۲ میں ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دئے گئے اس کے لئے وہ حامد خان سے شاکی رہیں۔بعد میں بھی وہ الگ الگ سی رہیں۔لودھراں الیکشن جو ترین صاحب نے جیتا اس کی خوشی بڑے دھوم دھام انداز سے منائی۔مجھے وہ دن یاد ہے جب مرحوم احسن رشید جن کی وجہ سے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ان کے استقبال کے لئے سید پور روڈ کے ایک جلسے میں شرکت کی اور وہ شرکت بھرپور شرکت تھی۔وہاں بڑی خوش دکھائی دیں سٹیج پر نوید کو بلا کر پیار کیا۔اور میری کوشش کو سراہا اس جلسے میں زاہد کاظمی اظہر میر فہیم صدیقی رانا سہیل فیاض چوہان شریک تھے پھر ہوا یوں جو جو اس جلسے میں گئے پارٹی کی نظروں سے گر گئے اور سب کے سب ٹکٹوں سے محروم ہو گئے احسن رشید پارٹی الیکشن کیا ہارے جان کی بازی بھی ہار گئے اس وقت اعجاز چودھری احسن رشید کو ہرانے میں کامیاب ہو گئے۔پچھلے کالم میں انہیں گورنمنٹ کالج لاہور کا حافظ اعجاز چودھری سمجھ کر لکھ دیا پی ٹی آئی کے سو دن پروگرام میں انہوں نے تصیح کر دی۔نہیں میں سیدھا انجینئرنگ یونیورسٹی گیا۔میں اس عظیم خاتون کی ان خوبیوں کے ساتھ ایک بات لکھنا ضرور چاہوں گا کہ ۳۱۰۲ میں بھی انہی دنوں وہ پارٹی سے اڑان بھرنے لگی تھیں۔لیکن میں نے سعودی عرب سے کوئی پون گھنٹہ بات کی ادھر عمران خان صاحب سے کہا کہ ان سے ضرور ملیں۔فوزیہ بہن ایئر پورٹ سے بنی گالہ روڈ چڑھنے تک فون آن رہا اور اللہ نے کیا کہ فوزیہ قصوری پارٹی میں ہی رہیں۔وہ منیر نیازی کا شعر یاد آ گیا ہے
عادت سی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا فوزیہ کو کسی بھی پارٹی میں رہنا ہو گا پارٹی چیف کو یہ یاد رکھنا ہو گا کہ یہ اتنی آساں نہیں ہیں فوزیہ لیڈر ہے فالور نہیں ہے۔میں مصطفی کمال کو دیکھتا ہوں تو اس مسکین کے چہرے پر جو حیرت ہے وہ شائد غالب کو ہوئی تھی کہ
کبھی ہم ان کو کبھی گھر کو دیکھتے ہیں
میں ایک بار انہیں ائر پورٹ سوسائٹی میں جلسے میں لے آیا یو سی چیئرمین کا جلسہ تھا لوگوں کے دلوں کو خوب گرمایا لیکن یہ نتیجہ نکلا کہ کدو کریلے قسم کے لوگ ابھی تک زمین پر پاؤں نہیں رکھتے کہ ہم وہ ہیں جس کی کمپین فوزیہ قصوری اور علی محمد خان نے کی۔فوزیہ نے وہاں بھی اپنی تقریر میں ہماری کوششوں کو سراہا۔
اب آئیے آگے بڑھتے ہیں جب عمران خان نے دھرنے میں سپریم کورٹ اور وزیر اعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے کا پر امن اعلان کیا تو میرے کالج زمانے کے ساتھی جناب جاوید ہاشمی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر باغی ہو گئے۔میرا ان سے بھی یہی سوال تھا کہ ہاشمی صاحب میدان اسلام آباد ڈی چوک میں لگا ہے آپ ملتان کیوں جا بیٹھے ہو۔وہ امتحان کا وقت تھا ہاشمی کو میں جانتا تھا ۳۱۰۲ کے انتحابات ہونے جا رہے تھے چار اپریل کو میریٹ میں ایک جلسہ تھا وہاں بھی کہا تھا کہ ہاشمی گورباچوف ثابت ہوں گے اور وہ ہوئے۔یہاں میں اپنی انتہائی محترم بہن سے سوال پوچھوں گا کہ آپ کی ناراضگی کے اوپر میں نے تین کالم لکھے بس ایک سوال یہ ہے کہ آپ اس وقت ہی کیوں ناراض ہوتی ہے جب الیکشن کا طبل بج چکا ہوتا ہے۔۳۱۰۲ میں بھی مریم بی بی کے ساتھ آپ کے معاملے فائینل تھے اور آپ نون لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے جا رہی تھیں جس کا سد باب بروقت ہوا اور آپ کی ملاقات عمران خان سے ہو گئی اور آپ رک گئیں۔اب پھر الیکشن کی آمد آمد ہے میں نے آپ کے شکوے تو سن رکھے تھے مگر یہ نہیں پتہ تھا کہ اس بار نقب پی ایس پی کی جانب سے لگی ہے۔آپ کو یہاں سے جانا مبارک ہو لیکن یہ ضرور یاد رکھئے گا کہ آپ بہت سے لوگوں کی امید تھیں جو یہ سمجھتے تھے کہ پارٹی چیئرمین سے آپ کے توسط سے بات کریں گے۔پارٹیوں کے اندر گروپ بندی ہوتی ہے یہ جمہوریت کا حسن کہلاتی ہے مگر پارٹیوں سے جمپ لگا کر نکل جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
مان لیا کہ ٹکٹ آپ کو نہیں ملا اور یہ ہے بھی سچ کے آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ کسی اور پارٹی میں چلی جائیں اور ان کے ٹکٹ پر اسلام آباد یا کراچی سے الیکشن لڑیں۔یہ کون سی گڈ وش برائے عمران ہے کہ اس کو ہرانے کے لئے آپ میدان عمل میں آ گئی ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ آپ جتنی دیر میں پارٹی میں رہیں اکتائی ہوئی رہیں۔ٹی وی پر آئیں تو وہاں بھی رو دیں۔اس وقت تبدیلی کے سفر کی منزل آنے والی تھی آپ نے ایک دم سے چھلانگ لگا دی۔اس کا پی ٹی آئی کو نقصان ہو گا۔جو یہ کہتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ احمقوں کی جنت کا باسی ہے۔یہ تو فوزیہ قصوری ہیں میں تو اب بھی ثمینہ گنڈا پور،ایڈمرل جاوید اقبال،اویس احمد اور بے شمار کارکنوں کو یاد کرتا ہوں۔سلیم نواز گنڈہ پور سابق سفیر تھے اپنی بیگم اور بیٹی کے ساتھ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کیا کرتے تھے ایڈ مرل ایک دھبنگ فرد تھے اویس احمد نے اسلام آباد تنظیم کو مثالی بنایا تھا۔سب چلے گئے وہ خود خاموش ہو گئے ان کی آواز کسی اڑتے کرلاتے پنچھی کی آواز کی طرح چپ ہو گئی۔میں اور طرح کا آدمی ہوں شیریں مزاری ناراض ہوئیں تو میں منانے والوں میں سے تھا پتہ نہیں کرنل یونس رضا کہاں ہیں،سیف اللہ نیازی کیوں خاموش ہے مجھے ان گروہ بندیوں سے کیا لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں کہ ہر پرانا ٹھیک ہے اور نیا آنے والا خراب ہے۔کام میں فرق کریں ایسے پرانے بھی ہیں جنہوں نے کنٹینر کے پیچھے خان کے بھانجے کو مارا کارکنوں کے منہ پر تھپڑ مارے رٹیں واپس لے کر مال پانی بنایا اور پھر بھی نعرہ زن ہیں کہ ہم پرانے سب سے اچھے ہیں۔پرانے ورکر نہ ہوئے پرانے چاول ہو گئے۔
فوزیہ بہن وقت نازک تھا آپ اس سمے نہ جاتیں۔یقین کیجئے میں آپ کی جگہ ہوتا تو عمران خان کو جتوا کر وزیر اعظم ہاؤس پہنچا کر اللہ حافظ کہتا۔یہی تو دکھ ہے کہ ہم اپنے ذاتی دکھوں کو سامنے رکھ کر اگلے کا سوا ستیا ناس کر دیتے ہیں۔آپ کے جانے سے آپ کے پیار کرنے والوں کی کمر ٹوٹی ہے۔
آپ ہمیشہ یاد آئیں گی میری بیگم میری بیٹی میرا بیٹا پوری فیملی بشمول شکیل سب دکھی ہیں۔لیکن ہم نے تہیہ کر لیا ہے کہ عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑنا۔عمران خان نے کہا تھا کہ نظریاتی ٹکٹیں بانٹنے کے بعد دیکھیں گے کون کون کیا ہے۔عمران خان یہ تو صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ ہے نہیں دینی نہ دے۔ہم آپ کو منزل پر پہنچاکے لوٹیں گے۔ا یہی میرا اور میری دو نسلوں کا خواب ہے اور انشاء اللہ اس پاکستان کو ایک بنائیں گے ہم وہ نہیں جو سر عام کہتے ہیں کہ ہم دھڑے جنبے کی سیاست کرتے ہیں۔ہمیں تین ٹکٹیں دے دو۔ ٹکٹاں نہ ہوئیاں ریوڑیاں ہو گئیں فوزیہ بہن کیا آپ صرف ٹکٹ کے لئے چلی گئیں بڑے دکھ کی بات ہے۔یہ پی ٹی آئی ہے اتنا پیار کہاں ملے گا۔