جس علاقے سے میرا تعلق ہے کسی زمانے میں وہاں پر ایک بہت بڑی عید گاہ ہوا کرتی تھی جوکہ اس بات کی غماز تھی کہ یہ علاقہ زمانہ قدیم سے ہی ترقی یافتہ تھا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عید گاہ کی حالت خستہ ہو تی چلی گئی لہذا ہر عید کی نماز پر اس کی تعمیرو ترقی اور تزئین و آرائش کی خاطر چندہ جمع کرنے کی اپیل کی جاتی ۔سب لوگ وعدے وعید کرتے لیکن نہ کہیں سے کوئی چندہ جمع ہو تا اور نہ ہی اس عید گاہ کی حالت بدلتی ۔ ہمارے ہاں ایک استادِ محترم ماسٹر سجاول دین قریشی ہوا کرتے تھے جو کہ انتہائی زیرک اور معاملہ فہم انسان تھے۔ انھیں اس طرح کے نمائشی وعدوں سے سخت رنج ہو تا تھا کیونکہ خالی اعلانات عید گاہ کی تعمیر میں کوئی پیش رفت کرنے میں ممدو معاون نہیں ہو رہے تھے ۔ایک دن ان کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا لہذا عید کی نماز کے بعد جب اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا تو ماسٹر سجاول اپنی جگہ پر کھڑے ہو گے اور ایک لاکھ اینٹوں کا اعلان کردیا۔ایک تو اعلان بڑا بھاری تھا دوسرے ماسٹر سجاول کی مالی حالت بھی اتنی مضبوط نہیں تھی کہ وہ ایک لاکھ اینٹوں کے وعدے کو پورا کر سکتے لہذا چہ مگو ئیاں شروع ہو گئیں۔آخر معززینِ علاقہ نے ان سے پو چھ لیا کہ ماسٹر صاحب اس اعلان پر عمل در آمد کب ہو گا؟ماسٹر سجاول نے بر جستہ کہا کہ جب اینٹیں دینی ہی نہیں ہیں تو پھر عمل در آمد چہ معنی دارد؟یہ ایک اعلان ہے جسے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سالہا سال سے میں یہی منظر دیکھ رہا ہوں لہذا ان لوگوں کو شرم د لانے کا میرے پاس یہی ایک راستہ تھا کہ میں خود ایک لاکھ اینٹوں کا اعلان کر دوں تا کہ وہ نادم ہو کر راہِ راست پر آجا ئیں اور کھوکھلے اعلانات سے اجتناب کر لیں۔ما سٹرسجا ول اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی فراست نے کھوکھلے نعرے لگانے والوں کو جس طرح بے نقاب کیا تھا اس کی مثال اآج بھی دی جاتی ہے۔،۔
سیاسی میدان میں نعرے لگانے،وعدے کرنے اور لوگوںکو بے وقوف بنانے کی رسم بڑی قدیم ہے۔ہر جماعت ایسے ایسے دعوے کرتی ہے کہ انسان ورطہِ حیرت میں غوطہ ن ہو جاتا ہے۔زمینی حقائق ان کے نعروں سے بالکل تال میل نہیں کھاتے۔جماعتوں کے جیالے اپنے قائدین کے اس طرح کے اوٹ پٹانگ وعدوں کو سچ سمجھ کر ان کی تشہیر شر وع کر دیتے ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد جب انھیں منہ کی کھانی پڑتی ہے تو انھیں چھپنے کیلئے جاہِ پناہ نہیں ملتی ۔آج کل پی ٹی آئی کے وعدوں اور اعلانات کی خوب تشہیر ہو رہی ہے۔ہر سیاسی جماعت کو وعدے وعید کرنے کی مکمل آزادی ہو تی ہے لیکن بہتر معلوم ہو تا ہے کہ پی ٹی آئی کے حالیہ وعدوں کو ان کے ٢١٠١٣ کے وعدوں کی روشنی میں پر کھ لیا جائے تا کہ ہمیں یہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے کہ پی ٹی آئی اپنے وعدوں میں کتنی سنجیدہ ہے ۔مئی ٢٠١٣ کے انتخابات کے وقت پی ٹی آئی کا سب سے بڑا نعرہ ٣٥٠ ڈیم بنانے کا تھا۔ غیر جانبدار مبصرین کی متفقہ رائے ہے کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں کوئی ایک ڈیم بھی نہیں بنایا جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے دس ہزار میگا واٹ بجلی کا سسٹم میں اضافہ کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میںلوڈ شیڈنگ بہت کم ہے۔ کراچی کا لوڈ شیڈنگ سے جو برا حال دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے ہر کوئی کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہے۔
دس دس گھنٹے کی لگا تار لوڈ شیڈنگ سے شہری جس طرح بلبلا رہے ہیں وہ بیان سے باہر ہے ۔کراچی جیسا شہر جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا اکثر اندھیروں میں ڈو با رہتا ہے کیونکہ بجلی کے نئے منصوبے نہ تو حکومتِ سندھ نے شروع کئے اور نہ ہی کے پی کے حکومت کو ئی بڑے منصوبے شروع کر سکی جن سے ان کے شہریوں کی مشکلات کم ہوجاتیں ۔صحت اور تعلیم کا پول چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیانات نے کھول کر رکھ دیا ہے جبکہ ٣٠٠ ارب کے قرضے کشکول توڑ دینے کے دعووں کا مذاق اڑانے کیلئے کافی ہیں ۔ محض اعتراضات اٹھانے ،برا بھلا کہنے اور گالی گلوچ سے ترقی کا دعوی سراب کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔پولیس کی تنظیمِ نو کے پی کے حکومت کا مستحسن فعل ہے جس کی تعریف کی جانی ضروری ہے ۔ اصولا تو ہر اچھے کام کی تعریف ہونی چائیے اور ہر برے کام کی مذمت ہونی چائیے لیکن پاکستانی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں پر الزامات کے سوا کوئی دوسرا دھندا نہیں ہے۔جو خود کرپٹ ہیں وہ دوسروں کو کرپٹ قرار دیتے ہیں اور جو کرپٹ نہیں ہیں انھیں بھی کرپٹ قرار دے دیا جاتا ہے ۔پرفارمنس کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگنے کا کلچر ہمارے ملک میں پروان نہیں چڑھ سکا لیکن عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں ۔ان کی نظر میں حکمرانوں کی کارکردگی انتہائی اہم ہے۔اس دفعہ جس لیڈر نے ڈلیور کیا ہو گا عوام اسے ہی ووٹ سے نوازیں گے ۔٢٠١٣ کے انتخابات کا بھی یہی پیغام تھا۔جسے شک ہو وہ پی پی پی کا حشر یاد کرلے لیکن افسوس ہم عوام کی رائے کو نظر انداز کر کے خالی نعروں اور الزمامات سے کامیابی سمیٹنا چاہتے ہیں۔بقولِ فراز کا دلکش انداز دیکھئے ۔،۔
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا ۔۔۔۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے پی ٹی آئی کا دوسرا بڑا نعرہ جس پر اس جماعت کی پوری عمارت استورا ہے وہ کرپشن سے پاک سوسائٹی کا قیام ہے ۔کے پی کے میں کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگانے والے اپنے صوبے میں احتساب ادارے سے محروم ہیں۔یعنی ہر ایک کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ جو جی چاہے کرتا پھرے اس سے پوچھ گچھ نہیں ہو گی ۔سینیٹ الیکشن میں سب سے زیادہ بکنے والوں کا تعلق کرپشن مکائو جماعت سے ہی تھا ۔احتساب کے ادارے کوتا لا لگا ہوا ہے اور کے پی کے کے وزیرِ اعلی پر اقربا پروری اور کرپشن کے جس طرح الزمات ان کی جماعت کے اپنے ممبران نے لگائے ہیں ان کی شنوائی کسی بھی جگہ نہیں ہو رہی ۔آفتاب احمد شیر پائو کی پارٹی کو پہلے کرپشن پر حکومت سے فارغ کیا گیا پھر اسی کی منت سماجت کر کے اسے دوبارہ مخلوط حکومت کا حصہ بنا لیا گیا۔خیبر بینک کا کیا حال ہوا ؟ کیا کوئی مقدمہ دائر ہوا؟کیا کسی کو کوئی سزا ہوئی ؟ جبکہ سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف پر سڑک کو ٢٤ فٹ کی بجائے ٢٩ فٹ بنانے پر بھی ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔کوئی حد ہوتی ہے ۔کیا کسی وزیرِ اعظم کو سڑک چھوٹی یا بڑی کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر سارے موٹر ویز اور ساری قومی شاہرائوں کی تعمیر پر بھی ریفرنس بننے چائیں۔
بعض لوگ ذاتی دشمنی میں ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ پورے پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کی فیملی ہی کرپٹ ہے باقی تو ہر جماعت میں فرشتوں کا راج ہے۔احتساب پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن نام نہاد فرشتوں کا احتساب بھی تو ہونا چائیے محض مخالفین کی گردن دبوچنے سے کام نہیں چلے گا ۔یک طرفہ تماشہ دیکھئے کہ کر پٹ، بد دیانت اور خائن جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی ممبران پی ٹی آئی کا رخ کر رہے ہیں۔کیا پی ٹی آئی میں ہجرت کرنے والے سارے فر شتہ خصلت ہیں ؟کیا وہ سب دودھ سے دھلے ہوئے ہیں ؟ یہ بات ہر کسی کے علم میں ہے کہ پی ٹی آئی میں جانے والوں کو کون ہانک رہا ہے؟ کون انھیں پی ٹی آئی کی راہ دکھا رہا ہے؟انھیں کیوں ہانکا جا رہا ہے کوئی سر بستہ راز نہیں ہے؟ہر بات کھلی کتاب کی مانند ہے اور عوام یہ تماشہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔راتوں رات پارٹیاں بد لنے والے مہرے کیا مطلوبہ نتائج دے سکیں گے ؟ کیا ہر بار ایک ہی فارمولا ایک طرح کے نتائج دے سکتا ہے ؟کیا عوام کو سدا بیوقوف بنایا جا سکتا ہے؟ کیا کھوکھلے نعروں سے کامیابی سمیٹی جا سکتی ہے؟ کیا دوسروں کی آنکھوں میں سدادھول جھونکی جا سکتی ہے؟کیا ہر بار ایک ہی دوا سے مرض سے نجات مل جاتی ہے؟ انسان اپنی دانست میں بہت چالاک بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی ساری چالاکیاں ایک دن بے اثر ہو جاتی ہیں کیونکہ ا س کے دعووں کی بنیاد جھوٹ پر ہو تی ہے ۔حقیقی جمہوریت کا نعرہ لگانے والے ہی آخر کار سر خرو ہوتے ہیں کیونکہ جمہوریت ہی پاکستان کی بنیاد اور پہچان ہے اور جس نے بھی اس کے تخلیقی جوہر سے بے وفائی کی وہ ذلیل و خوار ہوا ۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال