اپنے اقتدار کے آخری چند گھنٹوں میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی شہباز شریف جو بلا مبالغہ دس برس تک پنجاب پر کنٹی نیو حکومت کر چکے ہیں فرما رہے تھے کہ آج ہماری حکومت ختم ہو رہی ہے اگر کل لوڈ شیڈنگ ہو اور آپ کو بجلی نہ ملے تو ہماری زمہ داری نہیں میرا خیال ہے دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ پانچ سال اپنی ٹرم پوری کر کے جانے والا صوبے کے سیاہ و سفید کا حاکم جس نے اسی روز اخباروں میں گز بھر لمبا اشتہار چھپوایا ہو کہ نہ کے پی کے میں عمران نے کچھ کیا زیرو بجلی بنائی نہ سندھ میں زرداری نے کچھ کیا جبکہ ہم نے پنجاب میں پانچ ہزار تین سو تریپن میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی اور شام کو وہی وزیر اعلی یہ کہہ کر چلتا بنے کہ اب بجلی گئی تو ہم زمہ دار نہیں غضب کیاتیرے وعدے پہ اعتبار کیا ،یعنی آپ دس سال ایک صوبے کو لوٹ کر پورے ملک کو قرض کی دلدل میں دھکیل کر ہاتھ جھاڑ کر چل دیئے کہ ہم کسی چیز کے زمہ دار نہیں تو پھر کیوں نہ قوم ایک ایسے شخص کو آپ پر ترجیع دے جس کو ابھی اس نے آزمایا نہیں دھوکہ ہی کھانا ہے تو بار بار ایک ہی سوراخ سے کیوں ڈسے جائیں؟لوٹ مار تو کوئی بھی کر سکتا ہے ستر سالوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے ہم لوگ آنکھیں بند کیے لٹتے رہتے ہیں لیکن ہر چیز کی ایک حد تو ہوتی ہے نا ملائشیا کو بھی ایک نواز شریف نجیب رزاق کی صورت میں چمٹ گیا تھا۔
ملائشیا کی نیب نے بھی نجیب رزاق کو پاک صاف قرار دے دیا تھا لیکن عوام نے معاف نہیں کیا حتی کہ وہ ان علاقوں سے بھی الیکشن ہار گئے جہاں ترقی کے نام پر پیسوں کی بارش کی گئی تھی شریفوں کی طرح اس نے بھی اپنا گروہ بنایا ایک مراعات یافتہ طبقہ جو باقی سب کی ترقی پر سانپ بن کے بیٹھ جاتا ہے یوں چند لوگ تو امیر ہو جاتے ہیں مگر سارے ملک کی ترقی رک جاتی ہے دشمن زور پکڑ لیتے ہیں دھوکہ بازیاں عام ہو جاتی ہیں ملک کی خیر مانگنے والے اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کچھ پس پردہ جدو جہد کرتے ہں کچھ بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں ملائشیا کے مہاتیر محمد سے بھی یہ سب دیکھا نہ گیا کہ ان کی دی ہوئی ترقی اور محنت یوں ایک شخص لوٹ کر چلتا بنے بانوے سال کی عمر میں وہ پھر میدان میں آ گئے اور انتخاب جیت گئے نجیب رزاق اور انکی اہلیہ نے الیکشن ہارنے کے چند دن بعد اپنے بچوں سے ملنے کے بہانے بھاگنے کی کوشش کی لیکن ایرپورٹ سے واپس کر دیے گئے واپس آکر انہوں نے بھی مریم نواز کی طرح ٹویٹ کیا ”ہم بھاگنے والے نہیں ”اور اب کوالالمپورکی پولیس نے بدھ کی شام سے نجیب رزاق کے گھروں کی تلاشی کا کام شروع کر دیا ہے۔
چھ گھروں پر چھاپے کے دوران پولیس کو ڈیزائنرز ہینڈ بیگبیگز کے 284ڈبے اور کرنسی سے بھرے 72تھیلے ملے ہیں نجیب رزاق کی بیگم کو ھینڈ بیگز کا کریز تھا پولیس کے مطابق ان بیگوں کو کھولا نہیں گیا کیونکہ ان کے اندر قیمتی زیورات اور جواہرات سے بھرے بیگ بھی ہیں پولیس کو ان سب کو تھانے پہنچانے کے لیے پانچ پولیس ٹرکوں کی ضرورت پڑی اگر یہ پاکستانی پولیس ہوتی تو اب تک پانچ میں سے تین ٹرک غائب ہو چکے ہوتے لیکن نجیب رزاق کی بد قسمتی کہ ان کا وکیل نواز شریف کے وکیل جیسا ہے نہ اس کو رانا ثنا جیسا حواری میسر ہے جو کہے کہ یہ سب نجیب رزاق کو بدنام کرنے کے لیے مال برامد کیا گیا ہے بھلا 284بیگ کی خبر کو اتنا اچھالنا گھٹیا حرکت ہے یہاں تو اربوں روپے روز کی منی لانڈرنگ کو بھی جام شیریں سمجھ کر پی گئے ہیں لیکن نجیب اللہ رزاق حیرت انگیز طور پر خاموش ہیں اب تک انہوں نے ”مجھے کیوں نکالا ” بھی نہیں گایا شائد انہیں اپنی عوام کا اعتبار نہیں کہ میرا بیانیہ اس عوام میں مقبول ہو گا بلکہ وہ سوچ رہے ہونگے کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں یوسف رضا گیلانی کی بیگم کی طرح انکی بیگم بھی ایک ہار پہ قبضہ کیئے بیٹھی تھیں جسکی قیمت پونے تین کروڑ امریکی ڈالر ہے نجیب رزاق پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک فنڈ میں موجود اربوں ڈالر غائب کر دیئے اس رقم میں سے 68کروڑ ڈالر نجیب رزاق کے ذاتی اکائونٹ میں جمع ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں باقی رقم کے استعمال کی تحقیق جاری ہے اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک میں موجود نجیب رزاق کی جائیدادیں ،پکاسو کی قیمتی پینٹنگز ،تفریحی کشتیوں اور دیگر اثاثوں کا حساب کتاب کیا جا رہا ہے نجیب رزاق کو عیاشی کا موقع ملا خوب عیاشی کی پھنس گیا تو اب سکون سے نتائج کا انتظار کر رہا ہے الطاف لطفی لکھتے ہیں ادھر اپنے نواز شریف کے لچھن دیکھو تو حیرت ہوتی ہے ریاست کو منہ کے بل گرانے کی ہر کوشش کر چکا ہے اور کر رہا ہے ساتھ میں شتونگڑوں کا لشکر بھی ہے۔
ہر ایک نے سیاسی انتقام کا سیاپا ڈالا ہوا ہے کیا ان کے اندر نجیب رزاق جتنا ظرف بھی نہیں ہمیں سوچنا چاہیے کہ انہوں نے ہمارے لیے کیا کیا خود کو مقبولیت کے نصف النہار پر رکھنے کا دعوی کرنے والے ہمارے سیاستدان اپنے دریا نہ بچا سکے آج تک کالا باغ ڈیم نہ بنا سکے جنگلات کا صفایا ہو گیا مزید درخت نہ لگا سکے جو چیز عوام اور معشیت کے لیے ضروری تھی وہ ان کی ترجیع تھی ہی نہیں موٹر وے بنائی کمیشن کھایا اب وہ بھی گروی پڑی ہے دوسو سات ارب میں ایک اورنج لائن ٹرین بنائی جو صرف لاہور کے ایک روٹ پر چلے گی جبکہ لاہور میں ایسے اسی روٹ اور موجود ہیں یعنی یہ عوام کے لیے ایک کھلونا تو ہو سکتا ہے جس کو دیکھ کے کبھی کبھی دل خوش کر لیا کہ واہ بھئی ہم بھی ایک عدد ٹرین رکھتے ہیں لیکن نہ یہ ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دبائو کو کم کرنے کا حل ہے نہ اس سے ملک کو ترقی کی پٹڑی پہ چڑھنا نصیب ہوا ہے ہمارا بنیادی مسلہ ہے پانی ،جس سے ہماری ذراعت ترقی کرے ،سستی بجلی ملے،پینے کو صاف پانی ملے صاف پانی ملے تو بیماریاں نہ ہوں لوگ اچھی صاف ستھری خوراک کھائیں تو ہسپتالوں کی بھی ضرورت نہیں لیکن ان بد بختوں نے صرف وہی کام کرنا ہے جس میں ان کی جیبیں بھری جائیں کمیشن کھا لیں کہتے ہیں۔
شہباز شریف نے دوسو سات ارب میں ایک اورنج لائن ٹرین بنائی ہے اور نریندر مودی نے صرف سات ارب میں ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک لیا ہے اپنے ملک سے مخلص تو مودی ہوا نا ؟وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کر دے گا بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے گیارہ ڈیم مکمل کر چکا ہے دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے دریائے چناب پر مزید چوبیس ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اس طرح آگے چل کر مزید 190ڈیموں کی فزیبلٹی رپورٹس لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے قوم کی ناک تو انہوں نے عالمی عدالت میں پانی کے لیے کمزور مقدمہ لڑ کر کٹوا دی ہے پتہ نہیں یہ قوم کو کس ترقی کی نوید دیتے رہتے ہیں مجھے تو اس دن سے خوف آتا ہے جب ہم پانی کے لیے ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے یہ سب تو بھاگ جائیں گے ان کی اولادیں ان کی جائیدادیں سب باہر ہیں قوم اب سوچے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے حقائق نہیں بدلتے۔