پاکستان میں عام انتخابات 2018ء میں کامیابی کس سیاسی جماعت کامقدر بن گئی یعنی ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز،پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ یا پاکستان تحریک انصاف ‘‘ کامیاب ہو گی ، اس حوالے سے تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست برطانوی سیاست پر مبنی ہے اور جمہوری پارلیمانی نظام کے ویسٹ منسٹر ماڈل کی پیروی کرتی ہے۔ عالمگیر بالغ متادکار کے تحت اراکین کو ووٹوں کی اکثریت پر منتخب کیا جاتا ہے جہاں ہر نمائندہ ایک انتخابی ضلع کی نمائندگی کرتا ہے ۔اِن انتخابی اضلاع کو پارلیمانی حلقے بھی کہا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لیے 70 نشستیں مخصوص کی جاتی ہیں۔ اِن نشستیں کو سیاسی جماعتوں کے لیے اِن کی متناسب نمائندگی کے مطابق مختص کیا جاتا ہے۔پاکستان میں انتخابات کی دوران کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اکثریت کے لیے کسی ایک جماعت کو قومی اسمبلی میں 172 نشستیں (یعنی کل نشستیں کا 51 فیصد) حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو پارلیمان کا موازنہ متردد ہو جاتا ہے اور سیاسی نمائندگان کو اتحادوں کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔ ایسی پارلیمان کو ہنگ پارلیمان کہا جاتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی بنیاد 2002ء میں مخدوم امین فہیم نے ڈالی۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے یہ جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ تھی اور اکثریت کی بنیاد پر وفاق میں سب سے بڑی جماعت بھی تھی۔ ان انتخابات میں پہلے کی طرح اس جماعت کا سیاسی نعرہ اور مینڈیٹ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ ہی رہا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کے سربراہ میاں نواز شریف تھے اوراب ان کے بھائی شہباز شریف ہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے ۔دیگر مخالف جماعتوں نے ن لیگ کی قیادت پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزام بھی لگائے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف سابق قومی کرکٹر عمران خان کی سربراہی میں 25 اپریل 1996ء کو قائم ہوئی۔ 31 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں ایک عظیم جلسہ کرنے کے بعدیہ جماعت ملکی سیاست میں ایک تیسری طاقت بن کر سامنے ابھر آئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں اس جماعت کا نعرہ ’’تبدیلی‘‘ کا رہا اور عمران خان اس تبدیلی کو ’’سونامی‘‘ سے تشبیہ دیتے رہے۔
پاکستان میں25جولائی2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں فتح یقینی ہے مگر 2013ء کے عام انتخابات کی نسبت اس بار مقابلہ سخت ترین ہوگا ۔بہرحال پنجاب جو تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ یہ ناقا بل تصور ہے کہ مسلم لیگ (ن) ہرایا جا سکتا ہے،ایک اور چیز جو مسلم لیگ ن کے خلاف جا سکتی ہے، وہ نیب ٹرائل کورٹ کی جانب سے ان پر جعلسازی کے الزامات ہیں۔ جن میں شریف خاندان کے خلاف ’’سانحہ ماڈل ٹاؤن ،عائشہ احد کیس ،پنجاب میں متعدد منصوبوں میں کرپشن ، ہاؤسنگ سکیموں وغیرہ میں نیب کی کاروائیاں اور گرفتاریاں ‘‘ کے مقدمات شامل ہیں ۔جن کی بناء پرمیاں محمد شہبازشریف ،مریم نوازشریف اور حمزہ شہبازشریف بھی نااہل ہوسکتے ہیں۔لیکن پھر بھی الیکشن میں کامیاب مسلم لیگ ن ہی ہوگی ۔کیونکہ یہ تمام مقدمات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں اور ان مقدمات کے فیصلے آنے میں کافی وقت درکار ہے ۔دوسری جانب مسلم لیگ ن کے عام انتخابات میں مدمقابلہ سیاسی جماعتوں میں پہلا نمبر پاکستان تحریک انصاف ،دوسرا نمبرپاکستان پیپلزپارٹی اور تیسرانمبرپاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کاہے ۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں کی ہی سیاست نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے کے گرد گھومتی ہے ۔جہاں مسلم لیگ ن نے نوازشریف کے خلاف عدالتی فیصلے کو نامنظورقرار دیا، تو وہیں پی ٹی آئی نے اسے اپنی اخلاقی فتح قرار دیا۔ دونوں ہی جماعتوں کا مؤقف درست نہیں ۔کیونکہ جس جرم کی سزانوازشریف کا ملی ہے ان میں (یعنی جھوٹ ، تکبر اور مفاد پرست مشیروں کے مشورے وغیرہ وغیرہ ) شامل ہیں۔جس بات پر پاکستان تحریک انصاف اپنی فتح کا جشن منارہی ہے وہی اس کی ناکامی ہے باعث بنے گے ۔ کیونکہ جن سیاست دانوں پرنوازشر یف کی سیاست خاتمہ کرنے اور نااہلی تک لے جانے کے ا الزامات ہیں اب وہی مہربان سیاستدانوں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سیاسی کشتی میں سوار ہورہے ہیں۔ جو عمران خان کشتی کو ڈوبو سکتے ہیں ، کامیابی کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینزکی قیادت بھی پرامید ہے ۔
اس حوالے تاریخ گواہ ہے کہ بینظیر کی شہادت کے بعد پاکستان مسلم لیگ ’’ق‘‘ انتخابات میں اقتدارکی دوڑ سے باہر ہوگئی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز برسراقتدار آگئی ، بجلی بحران پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی حکومت کو لے ڈوبا اور پاکستان مسلم لیگ ن برسراقتدارآگئی یہ نظام کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے ۔ماہر ین ،مبصرین اور نجومیوں کی پیشنگوئیاں ہیں کہ مسلم لیگ ن کی ساری قیادت عام انتخابات میں مقدمات کے باوجودمتحدہ ہے جس کی بناء پر مسلم لیگ ن کو کامیابی حاصل ہوگی اور تحریک انصاف میں ہزاروں مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے باغی اراکین شمولیت اختیار کرچکے ہیں جس سے تحریک انصاف کا پارٹی منشوربھی بری طرح متاثرہوگا اور عمران خان کے جلد بازی میں کئے گئے فیصلے تحریک انصاف کی ناکامی کا باعث بنے گے۔