صحت مندانہ زندگی کیلئے مسکرانے ،ہنسنے ، خوش رہنے کی اہمیت سے کسے انکار ہے۔مگرکیاکریں؟یہاں دوسروں پر ہنسنا تو آسان ہے لیکن ہنسانا مشقت طلب۔یہی وجہ ہے کہ ادب میں مزاح نگاری ایک سنجیدہ اور مشکل بلکہ مشکل ترین صنف تصور کیا جاتاہے ۔ ذہانت اور فطانت لکھاری سنجیدہ تحریر کیلئے صرف کرنے کو تو تیار ہے مگر بڑی سنجیدگی کیساتھ طنزومزاح کیلئے نہیں ۔تو ایسے میں وہ شخصیات یقینا قابل قدر بھی ہیں اور خراج ِ تحسین کی مستحق بھی جنہوں نے اِس صنف میں اپنی تمام ترقلمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے نام کا لوہا منوایا ۔
دنیا ادب کی قدآور شخصیت عطا ء الحق قاسمی نے بھی جس انداز میں طنزومزاح یا شوخی ظرافت میں اپنے قلمی جوہر دیکھائے، قبولیت بھی ملی اور مقبولیت بھی ۔ ۔جس محفل میں بھی شریک ہوئے مرکز نگاہ بن گئے،خوش مزاجی، لطائف، طنزومزاح سے حاضرین کے دل جیت لئے ۔ اپنی اسی روایت کو عطاء الحق قاسمی نے ادبی و ثقافتی روایات کی امین تنظیم پاکستان رائیٹر کونسل کے زیراہتمام اپنی صحت یابی کے اعزاز میں سجائی محفل میں بھی بڑی خوش اسلوبی سے قائم رکھا ۔
یہ تقریب اِس بات کا عملی اظہار بھی تھاکہ ہماراتعلق اُس زندہ قوم سے ہے جو اپنے لیجنڈز اور ہیروز کی عزت و تکریم کرنا خوب جانتے ہیں ۔ ہال وقت سے پہلے ہی قاسمی صاحب کے چاہنے والوں اور اِن کے خاص لگائو رکھنے والی معروف قلمی شخصیات کی کثیر تعداد سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی پہلا حصہ ”محفل مزاح” جس میں یاسر پیرزادہ ،گل نوخیز اختر،ضیہ رحمان،ناصر محمود ملک،قمر بخاری اورعلی رضا اپنے گدگدانے والے، ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ کردینے والے مضامین پیش کئے جبکہ دوسرے حصے میں پاکستان رائیٹرکونسل کی حلف برداری عمل میں لائی گئی ۔ حسین احمدشیرازی کی زیرصدارت اِس تقریب میں نوید چوہدری ،صدیق الفاروق نے بھی خصوصی طورپر شرکت کی
تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا توفرحان علی کوکب نے تلاوت قرآن پاک اور شفاعت علی مرزا نے نعت رسول مقبولۖ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی اور فضا کومعطر اور حاضرین محفل کے قلب و روح کو خوب منور کیا۔نظامت کے فرائض پاکستان رائیٹر کونسل کے صدر الطاف احمد نے بڑی ہی خوش ااسلوبی سے ادا کئے ،نہایت ہی دلکش انداز میں وہ منتخب الفاظ اور جملوں کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے ملاتے رہے اور مقررین کو ڈائس پر مدوح کرتے رہے،اِس منفر د انداز کے سبھی حاضرین معترف ہوئے۔مہمان خصوصی کے حوالے سے تعارفی مضمون پیش کرتے ہوئے کہا کہ عطاء الحق قاسمی تعارف محتاج نہیں مگر تقریب و ترتیب کا تقاضے کا خیال رکھنا مجبوری ہے ۔ پاکستان رائیٹر کونسل کے چیئرمین اِس تقریب کے منتظم اعلیٰ مرزا یسین بیگ نے اپنے ابتدائیہ کلمات پیش کرتے ہوئے مہمانان اور تمام شرکاء سے اظہار تشکر کیا کہ اُن کی شرکت نے محفل کو کامیاب بنا دیا ۔دلچسپ انداز میں محترمہ رضیہ رحمان نے اپنی مزاحیہ تحریر نذرِ سماعت کی اور انہوں نے عطاء الحق قاسمی کی ادب میں گراں قدر خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔۔۔ علی رضا احمد نے بھی اپنا مضمون پیش کر تے ہوئے حاضرین محفل کو لطف اندوز کیا ۔ اَس دوران تقریب کا یہ منظرقابل دید تھا جب قاسمی صاحب اپنے سیل فون سے علی رضا کی ویڈیو بنانے میں مشغول رہے ، ناصر محمود ملک بھی کسی سے پیچھے نہ رہے ۔انہوں نے اپنے مضمون میں شامل ایک اہم کردار” وہمی انکل” کو لفظوں میں کیا خوب رگڑا کہ سماں ہی باندھ دیا ۔قمر بخاری نے عہد حاضر کا عہد قدیم کیساتھ ایک طنزو مزاح پر مبنی موازنہ پیش کیا اب باری آئی یاسر پیرزادہ کی ، جنہوں نے تو کمال سا کردیا ”لڑکیاں اور خلائی مخلوق” کے عنوان سے مضمون کی لطافت اپنی جگہ۔آغاز ایک لطیفے سے کیا جس نے سامعین کے قہقوں کی صورت میں خوب پسندیدگی کی سند حاصل کی۔مزاح نگاری کا معتبر نام ،گل نوخیز اختر نے اپنے خیالات کے اظہار میں پاکستان رائیڑ کونسل کی کاوش کوسرہاتے ہوئے کہا کہ آج کہ اِس دور میں جب ہر طرف افراتفری ہے، غم و رنج ہے اور عوام ہنسنا بھول چُکے ہیں ایسے میں اِس محفل کا انعقاد قابل تحسین ہے ۔ گُل نوخیز اختر نے دلچسپ حکیم اور عجیب حکمت کے حوالے سے ایک جی بھر کر ہنسنے والا مضمون سُنا کر حاضرین کی دن بھر کی تھکاوٹ اور غموں کو خوب رفوچکر کیا ۔۔نوید چوہدری نے عطاء الحق قاسمی سے وابستہ کچھ حسین یادوں کو سماعتوں کی نذر کرکے حاضرین کی بھرپور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے پر اپنے سنجیدہ تاثرات کا اظہار بھی کیا ۔ صدر محفل حسین احمد شیرازی نے بھی اپنے صدارتی کلمات میں عطاء الحق قاسمی کی صحت یابی کی خوشی میں والہانہ تقریب کے انعقاد پر منتظمین کو سراہا ۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ،سابق چیئرمین متروکہ وقف بورڈ صدیق الفاروق نے اِس موقع پر دبے الفاظ میں موجودہ سیاسی بحران کے ذمہ داران کو کڑے ہاتھوں بھی لیا ۔
صاحب محفل، مہمان خصوصی عطا ء الحق قاسمی نے کہ میں بہت سی محافل میں شرکت کرچکا ہوں اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کبھی مقررین اچھے نہیں ہوتے اور کبھی سامعین مگر یہاں دونوں ہی اچھے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں مشاعرے بھی ہوتے ہیں، ادبی محافل میں ہوتیں ہیں ، تنقیدی نشستیں بھی ہوتی مگر مزاح جو ہماری زندگی کا اہم جز ہے مگر افسوس یہ کم لکھا جا رہا ہے، اور میری خواہش ہے کہ اِسے ایک تحریک کی صورت میں آگے لے کر چلنا چاہیے ،اور ایسی محافل کا زیادہ سے زیادہ انعقاد کرنا چاہیے ، میں پاکستان رائیٹرکونسل، مرزا یسین بیگ، الطاف احمد، گل نوخیزاختر، اخترشمار، علی اصغر عباس ،شاہد نذیر چوہدری اور حسیب اعجاز اور تنظیم کے دیگر عہدیداران کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اِس شاندار محفل کا انعقاد کیا،حاضرین محفل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اِن احباب کی اِس کاوش پر حوصلہ افزائی کیلئے تالیاں ضروری ہیں ۔ اِس موقع پر اِن کے مزاحیہ مضمون بعنوان ” استاد خارش لوھیانوی ” نے ہر سامع کو قہقے لگانے اور دل کھول کر داد دینے پر خوب اُکسایا۔مسلسل شرکاء کے رخسار کھلکھلاتے، آنکھیں مسکراتی رہیں اور لبوں پر تبسم محو رقص رہا اور کبھی قہقوں اور تالیوں کے حسین امتزاج سے ہال گونجتا رہا۔
Ata Ul Haq Qasmi
تقریب کے دوسرے سیشن میں حلف برداری پاکستان رائیٹر کونسل عمل میں لائی گئی ۔عطاالحق قاسمی نے ممبران جن میںمرزا یسین بیگ، الطاف احمد، راقم الحروف، سعید بھٹہ، احسان مغل ،شوکت علی، اکبر علی، شفاعت علی مرزا، کاشف نیئر، سعدیہ شامل تھے ،سے تنظیم کے قواعد و ضوابط کے مطابق حلف لیا۔ اِس موقع پر پاکستان رائیٹر کونسل کی جانب سے تنظیم کے چیئرمین مرزا یسین بیگ نے عطاء الحق قاسمی کو یادگاری شیلڈ بھی پیش کی ۔ جبکہ تاریخ انٹرنیشنل فرانس کی جانب سے منتخب شخصیات میں ایوارڈ ز کی تقسیم بھی کی گئی ۔ شرکاء کے چہروں پر یہ تشنگی عیاں تھی کہ وہ عطاء الحق قاسمی کی شگفتہ تحریروں سے مزید محظوظ ہونے کے دلی خواہاں تھے ۔ مگر کیا کریں وقت کا دامن ہاتھ سے نکل چکا تھا ۔ ایک یادگار تقریب اختتام پذیر ہوچکی تھی اور شرکاء اپنے اپنے غم سے بے پروا چہروںپر تبسم سجائے حسین یادیں دامن میں سمیٹے شام گئے گھروں کو ہو لئے ۔ہنستے مسکراتے چہرے دیکھ کر تقریب میں موجود لکھاریوں میں اِس بات کا احساس ضرور جاگا ہوگا کہ کشاد دلی اور کشادہ نظری کا مظاہر کرتے ہوئے آج کے اِس دور میں مزاح نگاری کو ہنسی مذاق میں اُڑانے کے بجائے ہنسنے ،ہنسانے، ہنسی پھیلانے اور اِس کی اہمیت پر سنجیدگی سے کام کرنا بہت اہم ہوچکاہے ۔ تاکہ افراتفری، کشمکش،بے راہ روی، اضطراب،بے سکونی کے عالم میں سماجی رویوں میں مسرت اور انبساط عام ہوسکے اور دائمی سکھ چین کیلئے انسان کو اُس کی کھوئی ہوئی ہنسی لٹائی جا سکے۔