فرد واحد کی خطا سے ہونے والے نقصانات سے وہ شخص خود یا اس کے حلقہ احباب میں موجود افراد متاثر ہوتے ہیں کیونکہ اسکا دائرہ اختیار اور اس کے اثرات محدود ہوتے ہیں لیکن کسی سربراہ، سیاستدان یا لیڈر کی غلطی کا خمیازہ پوری قوم اور آنے والوں نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے. لیڈر اپنی صلاحیتوں سے ناممکن کو ممکن بناتا ہے. علامہ محمد اقبال جیسے دور اندیش، صاحب بصیرت اور قدر شناس نے محمد علی جناح میں موجود قائدانہ صلاحیت پہچان لی اور محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے خواب، پاکستان کو شرمندہ تعبیر کر کے قائد اعظم کہلانے کا حق ادا کردیا.
ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی با صلاحیت، دور اندیش، تعلیم یافتہ اور نڈر قیادت نہیں ملی، پاکستان بننے سے پہلے کی خاندانی سیاست، حادثاتی لیڈروں اور فوجی جرنیلوں نے ہم پر حکمرانی کی، جن کا قائدانہ صلاحیتوں سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا. ذوالفقار علی بھٹو خاندانی سیاست سے ابھرنے والے اچھے سیاستدان تھے لیکن اندرونی و بیرونی سازشوں اور انکی غلطیوں کا خمیازہ انہیں تختہ دار کی صورت میں بھگتنا پڑا.
قیادت کے اسی فقدان کے باعث ادارے اور بیرونی عناصر اپنا کھیل کھیلتے ہیں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر حادثاتی سیاستدان ہیں یا اداروں کے پروان چڑھائے ہوئے ہیں یا پھر زاتی کشش(گلیمر) کی وجہ سے سیاست میں وارد ہوئے، تینوں جماعتوں کے لیڈران میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ کسی نا کسی مرحلے پر اداروں کے چھیتے رہے ہیں. جن میں لیڈر والا ویژن، تعلیم، نظریہ، شعور و آگاہی، دوراندیشی، تدبر، فہم و فراست، برد باری، فیصلہ سازی، رائے عامہ کو ہموار کرنے اور انتظامی صلاحیتوں کا فقدان ہے. لیڈر تو وہ ہے جو عوام کی رائے پر نہیں صحیح و غلط کی بنیاد پر فیصلہ کرے اور پھر اس فیصلے پر رائے عامہ ہموار کرے اور مقاصد کے حصول کو اپنی صلاحیتوں سے ممکن بنائے لیکن پاکستان میں مقبول سیاست کی جاتی ہے چاہے یہ ریاست اور عوام کے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔
پاکستان میں اقتدار چند خاندانوں کے گرد گھوم رہا ہے سیاست یہاں سب سے منافع بخش کاروبار ہے جس میں مڈل کلاس، تعلیم یافتہ افراد کے داخلے کے تمام راستے بند کردیئے گئے ہیں کوئی اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر سیاست میں وارد نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں کنٹرول ماحول میں کاشت کاری کی جاتی ہے جب کہ ہمارے یہاں کنٹرول جمہوریت رائج ہے مخصوص گروہ آپس میں اقتدار کا کھیل کھیلتے ہیں ضرورت کے تحت کنگ پارٹی کا انتخاب کیا جاتا ہے اور جب عوام میں کچھ بیزاری پیدا ہونے لگتی ہے تو اقتدار کا ہما کسی اور کے سر سجا دیا جاتا ہے اور اس پارٹی میں جیتنے والے سیاستدانوں کی شمولیت کی دوڑ لگ جاتی ہے عوام کی امیدیں اس پارٹی سے وابستہ کروا دی جاتی ہیں اور پھر ہوتا وہی ہے جو کہ عوام کئی عشروں سے دیکھ رہی ہے
پاکستان ایک بار پھر تاریخ کے دو راہے پر کھڑا ہے ایک غلط فیصلہ اگلے پانچ سال یا پھر اس سے کئی زیادہ عوام کو کرب میں مبتلا کرسکتا ہے جیسا کہ 2013 میں ہوا. اگر اس وقت اٹھنے والے لوگوں کی بات کو عمران خان صاحب مان لیتے تو عوام کو پانچ سال غربت و ظلم میں نہ گزارنے پڑتے اور اس کا اقرار خان صاحب نے بارہا کیا بھی کہ اگر وہ 2013 میں طاہرالقادری صاحب کی بات مان لیتے تو ٹھیک ہوتا.
موجودہ کرپٹ سسٹم کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی جماعتوں کا کٹھ جوڑ اور ان ہی گھسے پٹے اسٹیٹس کو کے علمبردار افراد کا پارٹی میں ہولڈ، مستقبل کے منظرنامے کا نقشہ کھینچ رہا ہے، پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جن کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ اسی اسٹیٹس کو کو جماعتیں ہیں اور تحریک انصاف اس پر بہت شور و واویلا کرتی تھی وہ بھی آج ان سے کسی طور کم جیتنے والے لوٹوں کی جماعت نہیں ہے. ہمارا المیہ ہے کہ چند خاندان پارٹیاں بدل بدل کے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور عوام، خوشحال سے مزید دور ہوتی جارہی ہے جس کے لیے ہمارے آباو اجداد نے قربانیاں دیں تھیں. اقتدار کا حصول اصل مقصد نہیں بلکہ یہ ریاست و عوام کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے اگر راستہ ہی مقصد بن جائے اور تمام اصول و نظریات پس پشت چلے جائیں تو ایسے اقتدار سے کرپشن، لوٹ مار ، قتل و غارت اور تباہی کا بازار ہی گرم ہوتا ہے جس کا پاکستان طویل عرصے سے شکار ہے۔