نگراں وزیراعلی ٰ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی صحافت میں ایک قدآور صحافی کے طورپر جانے پہچانے جاتے ہیں میں نے ایسے بہت ہی کم صحافیوں کو دیکھا ہے کہ جنھیں پاکستان سمیت بین الاقوامی سیاست اور ان کے مسائل کا اس قدر ادراک ہو،میرے لیے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں ہے کہ صحافت سے وابستگی کے باعث میں گزشتہ دس سالوں سے ان سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر محو گفتگو رہاہوں ،ملکی صحافت میں انہیںیوں تو دفاعی تجزیہ نگا ر کے طور پر لکھا جاتاہے مگر اس بات کو سب ہی جانتے ہیں کہ ا ن کی مختلف موضوعات بلخصوص عوام کے لیے صاف پانی ،بجلی ،صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پر بھی بہت گہری نظر ہے ،مجھے ایک طویل عرصے تک فون پر ان سے سیاسی وصحافتی مسائل پر بات کرنے کا موقع ملاڈاکٹر حسن عسکری میرے صحافتی استادوں میںسب سے آگے ہیں ،میرے کالموں کی جو حوصلہ افزائی انہوںنے کی ہے اس کا میں ہمیشہ مشکو ررہونگا اور آج میںجو کچھ بھی ہو ان کی خصوصی شفقت کا ہی نتیجہ ہے ،اس قربت کے باعث میںنے ان کی گفتگو میں کوئی ایسا جزبہ نہیں دیکھا کہ جس سے اندازہ ہو کہ انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بننا اچھا لگتا ہے یا پھر وہ پاکستان کے وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے ہیں وہ صرف اپنے کام سے محبت رکھنے والے انسان ہیں اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے ان کے نام کا اعلان کیا تواس سے کچھ لمحے قبل ان کی مجھ سے فون پر بات ہوئی تھی جو کہہ رہے تھے مجھے ا”گر اس قسم کی ذمہ داریاں ملی تو کوشش کرونگا کہ شفاف انتخابات کروانے میں اپنا کرداراداکرسکوں مگر فی الحال تو میں اپنا آرٹیکل لکھ رہا ہوں”۔
لہذا میں سمجھتا ہو ں کہ وہ کسی بھی لحاظ سے ایک جانبدار وزیراعلیٰ نہیں ہوسکتے بلکہ آنے والا وقت یہ بات ثابت کردیگا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے بہترین نگراں وزیراعلیٰ پنجاب تھے جنھوں نے اپنی ذمہ دارویوں کوایمانداری کے ساتھ نبھایا۔گفتگو کو آگے بڑھاتاہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں آزاد اور غیر جانبدار انہ انتخابات کے انعقاد کے لیے سب سے زیادہ زمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے دل کھول کرالیکشن کمیشن پر مسلم لیگ نواز کو کامیاب کروانے کے الزامات لگائے آج اس بات کو پانچ سال کا عرصہ مکمل ہوچکاہے نہ تو خاطرخواہ الیکشن کمیشن کی ترجیحات بدلی اور نہ ہی اس قسم کی کوئی خاص تبدیلیوں کا سامنا رہا وہ ہی الیکشن کمیشن اور وہی روایتی سیاسی جماعتیں اگر کچھ تبدیلی ہے تو بس اتنی کہ ہے الیکشن کمیشن پر الزامات لگانے والی پارٹیاں بدل چکی ہیں۔
اس بار2013کے انتخابات میں الزامات لگانے والی جماعتیں خاموش ہیں اور جس جماعت پر الیکشن کمیشن کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات تھے وہ جماعت آج الیکشن کمیشن کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ پنجاب پر اعتراضات اٹھارہے ہیں۔الیکشن سے قبل اگر نوازشریف کے خلاف فیصلہ آجاتا ہے تو الیکشن 2018کے انعقاد میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا ، پہلے وزرات عظمیٰ پھر ن لیگ کی صدارت سے ہاتھ دھونا اور ساتھ ہی تاحیات نااہلی کی چھاپ لگواکر آنے والے نوازشریف کے لیے 25 جولائی سے قبل اگر کوئی فیصلہ آگیا تو نوازشریف کی جانب سے چلائی گئی تحریک میں مزید تلخی آسکتی ہے ، اس صورت میں مسلم لیگ ن اپنے لیے ہمدری کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کریگی اور ممکن ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ان کی احتجاجی تحریک میں ایسا موڑ بھی آجائے کہ ایسے حالات میں انتخابات کرانا ہی ممکن نہ رہے ۔نوازشریف کے خلاف فیصلے کے ساتھ سانحہ ماڈل ٹائون کا المناک واقعہ بھی عدالت میں زیر بحث ہے جس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میں شہباز شریف اور ان کے چند قریبی وزرا کا نام براہ راست لیا جارہاہے اس طرح شریف برادران کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد پنجاب میں ہے لہذا ان تمام تر کیسوں کی وجہ سے اس قسم کی تلخی کے باعث زیادہ پریشانی کا سامنا الیکشن کمیشن کے ساتھ نگراں حکومت پنجاب کو اٹھانا پڑیگا کیونکہ اس قلیل مدت میں پر امن انتخابات کا انعقاد کوزے میں دریا بند کردینے کے مترادف ہوگا۔اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے پنجاب کی نگراں حکومت کو ہر وہ کام کرنا ہوگا جس سے لوگوں میں یہ تاثر نہ رہے کہ موجودہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے یا کروائی گئی ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بہت اہم ہے کہ کسی بھی صوبے میں موجودبیوروکریسیز کاوہاں کی حکومتوں کو بنانے اور گرانے میں سب سے بڑا ہاتھ مانا جاتا ہے یہ بہت اندر کھاتے سے سیاستدنوں کا ساتھ نبھاتے ہیں یا پھر انہیں کترتے ہیں، کسی کو معلوم ہی نہیں ہونے پاتا کہ کیا کام کہاں سے اور کیسے ہوگیا،اس کے لیے کراچی کی ایک چھوٹی سی مثال دی جاسکتی ہے کراچی اور حیدرآباد میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو قیام پاکستان کے بعد ہندوستانی علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں آکر آباد ہوئے شہید ملت خان لیاقت علی خان بھی انہیں مہاجروں میں سے تھے جن کی بدولت ہندوستان سے ہجرت کرکے آ نے والے مہاجروں کو ایک ایسی نمائندگی مل گئی جس کے باعث انہوںنے اپنی علمی قابلیت کے بل بوتے پر پاکستان سمیت کراچی اور حیدرآ باد کی بیوروکریسی میں اپنے پنجے گارڈ دیئے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کے سیاسی و ثقافتی نظام کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس عمل کے بعد جب بھی یہاں انتخابات ہوئے یہاں سے اردوبولنے والوں کی ایک بڑی اکثریت کامیاب ہوتی رہی اور ان کامیابیوں کے تسلسل کو اب کئی عشرے گزرچکے ہیں۔
اس واقعے کو درج کرنے کا مقصد بیوروکریسی کی طاقت کو گنوانا تھا یعنی پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی صاحب کوانتخابات میں شفافیت کے لیے بیوروکریسی کے کردار پر خصوصی طورپر نگاہ رکھنی ہوگی، جس طرح کے میں اوپر بیان کرچکاہوں کہ کراچی میں اردو بولنے والی بیوروکریسی نے کس کس طرح سے یہاں اردو بولنے والوں کی کامیابیوں میں ساتھ دیا ہے بلکل اسی طرح پنجاب میں شریف خاندان کا بہت بڑا ہولڈ مانا جاتاہے یہاں پر موجود آئی جی پنجاب سے لیکر ایک ایس ایچ تک اور چیف سیکرٹری سے لیکر ان کے پی آر او تک سب کے سب شریف خاندان یا ان کے حواریوں کے سفارشی اور من پسند لوگ ہیں جو اپنے اپنے کاموں کے ساتھ پنجاب حکومت کے قیام میں شریف خاندان کے سب سے بڑے حامیوں میں شمارکئے جاتے ہیں اور جس انداز میں یہ لوگ ماضی میں ریاستی مشینری کے زریعے اپنی وفاداریوں کو نبھاتے رہے ہیں اس پر اس بار بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے لہذا یقینی طور پر ان شکوک سے نکلنے کے لیے انہیںیہ پورا انتظامی ڈھانچہ ہی تبدیل کرنا پڑسکتاہے جو یقینا نگراں وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری کے لیے ایک بڑا چینلج ثابت ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاکٹر حسن عسکری صاحب ایک غیر جانبداروزیراعلیٰ ہیں، وہ بارہاںبار اپنے بیانات میں یہ کہہ بھی چکے ہیں کہ ان کا نہ تو کوئی پہلے سیاسی ایجنڈا تھا اور نہ بعد میں ہوگا،عوام جانتی ہے کہ انہوںنے ہمیشہ عوامی مسائل کی بات کی اوراس ملک کی تمام جماعتوں کو ایک ہی لائن میں کھڑا کرکے ان کی غلطیوں کا احساس دلایا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی اپنے تجزیوں سے پیش کرتے رہے ہیںاب خود ان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی علمی قابلیت سے پنجاب میں شفاف ترین انتخابات کے انعقاد کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائیں تاکہ گزشتہ اداوار میں وسیع پیمانے پر ہونے والی دھاندلیوں کا تدارک ہوسکے اور شفاف انتخابات کی بدولت عوام کو اپنی من پسند قیادت کو چننے کا موقع مل سکے اس کے علاوہ اس کے ساتھ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شریف خاندان نے پنجاب اور اس ملک کے عوام کی خدمت کی ہوگی مگر اس کا سہی فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے۔ ختم شد