شاید یہ آٹھویں بار ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے گورنر راج قائم کیا ہے۔یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ۔ بلکہ روز روز کی بات ہے۔بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے والے کشمیر کے قوم پرست سیاست دان اور بھارت نواز سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات پورے ہو جانے پر مقبوضہ کشمیر اسمبلی سے مستعفی ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت کی اکثریت ختم ہوتی ہے اور بھارت کے آئین کے مطابق گورنر راج لکھتے رہتے ہیں۔ نئے مہرے سامنے آتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ستر سال سے جاری ہے۔اس سے پہلے بھی کشمیریوں کے حالت درست نہیں ہوئے، نہ اب ہونگے نہ ہی آئندہ ہونے کی امید ہے۔ یہ کٹپتلیوں کا تماشہ ہے۔ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو تا چلتا رہے گا۔
پاکستان بنتے وقت کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اب بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دے رہے ہیں۔انہیں کشمیری کی اسمبلیاں بار بار ٹوٹنے سے کوئی سروکار نہیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت ، بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تقسیم کے فارمولے کے مطابق کشمیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے الحاق پاکستان کی قراداد پاس کی تھی۔ جس کے تحت جموں و کشمیر کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق ان کو پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ بھارت نے ڈوگرہ مہارجاہ کی جعلی الحاق کی سازش کے تحت کشمیر میں فوجیں داخل کر کے کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا۔کشمیریوں نے اس کے خلاف مزاہمت کی۔ پاکستان کے غیور قبائل نے ان کی مدد کی۔ کشمیری مجائدین نے موجودہ تین میل چوڑا اور تین سو میل لمبا علاقہ بھارتی فوجوں سے لڑ کر آزاد کر لیا۔کشمیر کے علاقے گلگت بلتستان میں ڈوگرہ فوج کو مقامی مجائدین نے ریاست کے اس علاقے سے بے دخل کر کے پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا۔ اِدھر مجائدین سری نگر کے قریب پہنچ گئے ۔چند ہی دنوں میں جموں و کشمیر کے دالخلافہ سری نگر پر بھی مجائدین قبضہ کرنے ہی والے تھے کہ بھارت کے مکار وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نیرو، اپنی سیاسی پنڈت ، چانکیہ کوٹیلا کی مکانارانہ سیاسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اقوام متحدہ پہنچ گئے۔وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نیرو کشمیر پر بھارتی ناجائز قبضہ ختم ہوتے دیکھتے ہوئے عالمی دنیا کے سامنے جنگ بندی کی درخواست کی اور سفید جھوٹ بولا کہ بھارت جنگ ختم ہونے پرجموں کشمیر کے لوگوں کو ان کا بنیادی جمہوری حق دے گا۔کشمیری خود طے کریں گے کہ ان کو بھارت کے ساتھ رہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کو دھوکا دینا تھا۔یہ سفید چھوٹ تھا جو آج تک پورا نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ نے مختلف وقتوں میں کشمیر میں رائے شماری کرانے کے لیے قرادردادیں منظور کیں۔جنگ بندی لائن پر اپنی فوجی مبصر لگائے جو آج بھی موجود ہیں۔بھارت کے مکار سیاست دانوں نے ستر سال سے اس علاقے کو جنگ کی آگ میں دکھیل رکھا ہے جو کسی بھی وقت ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت پاکستان کی کشمیر پر پہلے بھی کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔بھارت پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔کشمیر کی طرف سے قدرتی طور پر بہہ کر آنے والے پانیوں کو روک رہا ہے۔کشمیر کے دریائوں پر کئی غیر قانونی ڈیم بنا لیے ہیں۔ بھارت ڈکٹیٹر ایوب خاں کے دور میں ہونے والے سند ھ تاس آبی معاہدے پر عمل نہیں کر رہا۔ نہ ہی رائے شماری کے اپنے وعدے پر آج تک عمل نہیں کیا۔ بلکہ مختلف حربوں سے رفتہ رفتہ جموں و کشمیر پر اپناناجائز اقتدار مضبوط کرتا گیا۔
قوم پرستی میں مبتلا اقتدار کے بھوکے غدار ِکشمیر شیخ عبداللہ کو اپنی مکارانہ سیاسی جال میں پھنسایا۔ اس کی قوم پرست پارٹی کو مختلف طریقوں سے رام کر کے نام نہاد، جعلی، خود ساختہ،اور اور انتہائی کم شرکت والے ٹھونگ انتخابات کراتے رہے۔یہ ایسے ہی انتخابات ہیں جیسے عرب دنیا میں زبردستی قابض حکمران، برسوں سے کراتے رہے ہیں اور بھاری اکثریت سے جیتتے رہے ہیں۔ اور ابھی بھی مصر کی منتخب حکومت کو امریکا نواز مصری فوج کے قبضے اور مارشل لاء کے بعد کرا ئے گئے ہیں۔ جس میں ڈکٹیٹر سیسی کو مصر کانام نہاد حکمران بنا دیا گیا۔ کشمیریوں نے ایسے ہی جعلی نتخابات سے تنگ آ کر بھارت کے خلاف مسلح جد و جہد شروع کی۔ بھارت نے ان کے خلاف اپنی آٹھ لاکھ فوج جھونک دی۔ سفاک فوج نے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوڑ ڈالے اور توڑ رہی ہے۔ مغرب کی لونڈی اور اس پر کنٹرول کرنے والے یہود و نصارا نے مسلم دشمنی میں بھارت کی طرف داری کی۔اب تو شیطان کبیر امریکا نے بھارت سے ہر قسم کی امداددی اورفوجی اور جوہری سپلائی کے معاہدے بھی کر لیے ہیں۔ وہ امریکا ہے جو پاکستان بننے کے بعد سے پاکستان کا دوست تھا۔ پاکستان نے امریکا کے نظریاتی دشمن روس کو شکست دینے میں اس کا مکمل ساتھ دیا اور اسے دنیا میںورلڈ آڈر یعنی واحد لیڈر بننے میں میں مدد کی۔مگر اس نے کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونے کی تحریک کی مدد نہیں۔ دوسری طرف پاکستان دشمن اقوام متحدہ نے آج تک اپنی قراردادوں پر عمل نہیں کرایا۔ان حالات میں پاکستان کی زندگی اور موت کے مسئلہ کشمیر کو کیسے حل کرنا چاہیے؟
صاحبو! الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا ایمان اللہ رسولۖ پر پختہ ہے۔ مسلمانوں نے اللہ اور رسولۖ اللہ کی تعلیمات اور حکم پر عمل کر کے، رسول ۖ اللہ کی قیادت میں مدینہ میں ایک نظریاتی فلاحی اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ اس کے بعد ٩٩ سال میں مسلمانوں نے اس وقت کی معلوم دنیا کے تہائی حصہ پر اسلام کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ پھر ہم نے اللہ اور رسولۖ کے احکامات کو ایک طرف رکھ دیا اوردنیا داری میں پڑھ گئے۔ پھر وہ جن پرہم نے غلبہ حاصل کیا تھا اب ہم پر غالب آ گئے ہیں۔ مسلمانوںآئو! ہم پھر اللہ اور رسولۖ کی تعلیمات جو قرآن اور سنت میں اب بھی موجود ہیں ان پر عمل کریں۔ اس طرح ہمارا کھویا ہوا مقام پھر سے ہمیں مل سکتا ہے۔اس کی عملی صورت اس وقت اللہ نے پیدا کر دی ہے۔ سب سے پہلے الیکشن میں اسلامی جماعتوں کے اتحاد، متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو کامیاب کرائیں۔ یہ ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے ملک میں بابرکت اسلامی نظام حکومت کا بل پاس کرائیں۔ ہمارے ملک کے اسلامی آئین میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کی ساری شقیں پہلے سے موجود ہیں۔ پھر اقوام متحدہ میں پونے دو ارب کی مسلمان آبادی کے اپنے ویٹو پاور حاصل کرنے کی بات کریں۔
اگر اس میں کامیاب جائیں تو بہتر ہے۔ نہیںہوتے تو مسلمان ملکوں کی اپنی اقوام متحدہ قائم کریں۔میں آپ کو اپنے مطالعے کی بنیاد پرعرض کرتا ہوں کہ دنیا میں جب مسلمان برابری کی حیثیت اختیار کر لیں گے۔ (یہ ایسا ہی ہو گاجیسے چین نے ترقی اور اپنے ملک کو مضبوط کر کے دنیا میں برابری کی حیثیت حاصل کر کے ویٹو پاور حاصل کیا)۔ پھر مسلمانوں کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ پھر کشمیر بھی آزاد ہو گا پاکستان بھی مکمل ہو جائے گا۔ پاکستان مسلم دنیا کی لیڈر شپ کرے گا۔کیا ایٹمی طاقت اور میزائل طاقت کے پاکستان کو کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کر سکے گا۔؟ اسلام امن و سلامتی والا پر امن دین ہے۔مسلمان ایک پر امن قوم ہے۔ اس کا حکومت کرنے کا ایک ہزار سالہ کامیاب اور شاندار ماضی ہے۔ مسلمان اب بھی اپنا بہتر حال اور بہتر مستقل بنا سکتے ہے۔کشمیر کے مسئلہ کا بھی یہ ہی حقیقی حال ہے۔ پھر کشمیر کشمیریوں کا ہو گا۔ظلم کی چکی جو کشمیریوں پر سالوں سے چل رہی انشاء اللہ رُک جائے گی ۔ بھارت جموں و کشمیر میں نہ رہے گا نہ روز روز کا گورنر رائج لگنے کی باتیں ہوں گی۔اے اللہ ایسا ہی ہو۔ ہمارے کشمیری بھائیوں کو ظلم سے نجات ملے۔ آمین۔