پاکستان نے 5 جولائی 2013 کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے تاریخی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ۔دونوں ممالک کے وزراء اعظم کی موجودگی میں اقتصادی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہواجو کہ چین اور پاکستان کے خطوں بھر میں تبدیلی اورمشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیائ، وسطی ایشیاء اور چین کے تقریباً تین ارب افراد کی زندگیوں میں ترقی و خوشحالی لائے گا۔چین کی بے لوث اورہمہ جہت امداد اورتعاون نے ثابت کیاہے کہ چین پاکستان کو خطے میںیا ایشیاء میں اکنامک ٹائیگر کی حیثیت میں دیکھناچاہتا ہے۔گزشتہ روز اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں چائنا ایمبیسی کے اشتراک سے C- PEC and Media Role سیمینار منعقد کیا گیا ۔ جسمیں سینئر صحافی و ایڈیٹرز کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز CPNE اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے سینئر کالمسٹس خصسوصی طور پر مدعو تھے، ماہر اقتصادیات سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ، سینئر صحافی و ایڈیٹر عارف نظامی ، سیکورٹی ایکسپرٹ ماہر دانشور اکرام سہگل ، مسٹر ظفر علی وزیرِ انفارمیشن ، مسٹر لی جان زاہو ایکٹنگ چائنی ایمبسٹڈر، حمیرا اویس شاہد اورPFC کے مرکزی صدر ملک سلمان نے سی پیک کے حوالے سے منفی پروپوگنڈہ کو مسترد کرتے ہوئے اس کو چائنا اور پاکستان کے لئے ایک نعمت قرار دیا جیسا کہ اقتصادی راہداری مغربی چین کے علاقہ کا شغر کوعالمی سطح کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ، ایئرپورٹ، کمرشل سمندری راستوں، ریلویز، فائبر آپٹیکل اورگیس پائپ لائنز کے وسیع و عریض نیٹ ورک کے ذریعے گوادربندر گاہ سے ملائے گا۔ چین کے لیے اقتصادی راہداری وسیع وعریض مغربی علاقہ کی ترقی کیلئے ایک روڈ، ایک پٹی بنانے کی حکمت عملی کا ایک حصہ اور 21 ویں صدی کی ترقیاتی ضروریات کو پوراکرنے کیلئے شاہراہ ریشم کواہم راہداری کی حیثیت رکھتاہے۔ پاکستان کیلئے اقتصادی راہداری وژن 2025 کے سات ستونوں میں سے ایک ستون کو عملی جامہ پہنانے کی حیثیت رکھتی ہے جس کاتعلق آئندہ ایشیائی ٹائیگر بننے کیلئے علاقائی روابط قائم کرنا ہے۔
اقتصادی شراکت داری کی ایک حکمت عملی ہے جس سے پاکستان چین جنوبی ایشیائ، مشرق وسطیٰ ایشیاء کو آپس میں ملانے والا جغرافیائی اقتصادی سرگرمیوں کا گڑھ بن جائے گا اور پاکستان دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کیلئے سرمایہ کاری کے بڑے مواقع پیش کرنے والا ملک ہوگا۔ ہم ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ پاک چین دوستی ایک کھلی کتاب ہے ۔پاکستان اور چین کی دوستی اتنی پائیدار ہے کہ اسکو سمندروں سے گہری، ہمالیہ سے بلند اورشہد سے میٹھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دوستی عارضی خودغرضیوں ، عارضی قرارداتوں یا وقتی اتحاد سے جنم نہیں لیا۔ہرقسم کے اُتار چڑھاؤکے باوجود نہ تو کسی دشمن کے منفی پراپیگنڈے نے اس رشتے کو نقصان پہنچایا ہے اور نہ ہی کوئی سازش دونوں دوستوں کے درمیان دیوار کھڑی کر سکی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی کا رشتہ کبھی بھی کمزور نہیں پڑ۔ چین اورپاکستان کے عوام ایک دوسرے کیلئے محبت اور احترام کاباہمی جذبہ رکھتے ہیں۔پاکستان اورچین کے درمیان باقاعدہ تعلقات کا آغاز 1950 میں ہوا تھا۔ پاکستان اسلامی دنیاکا پہلاملک تھا جس نے عالمی برادری کے دیگرچند ممالک کے ساتھ 1950 کے تائیوان، چین تنازع کے فوری بعد چین کو آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا تھا تاہم دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات 31 مئی 1951 میں قائم ہوئے۔ پاکستان نے چین کو اقوام متحدہ اوردیگرعالمی فورمز کارکن بننے میں مدد فراہم کی اور اس کے اسلامی دنیا کے ساتھ روابط اورتعلقات کے فروغ کیلئے اہم خدمات انجام دیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں گرم جوشی 1962 کی چین بھارت سرحدی جنگ کے بعد پیدا ہوئی۔
1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران چین نے پاکستان کو بھرپور مدد کی، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور اقتصادت رابطوں میں گہرائی پیدا ہوئی۔ 1970 میں پاکستان نے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر کے خفیہ دورہ بیجنگ کے انتظامات کیے اور چین اورمغربی دنیا کے درمیان براہِ راست رابطوں کو ممکن بنایا جس کے نتیجے میں 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن چین کا سرکاری دورہ کرنے والے پہلے مغربی رہنما بنے۔ 1978 میں چین اور پاکستان کے درمیان پہلے اوراب تک کے واحد زمینی راستے قراقرم ہائی وے کا باقاعدہ افتتاح ہوا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور رابطوں میں اضافہ ہو گیا۔1980 کی دہائی میں افغانستان میں روسی افواج کے داخل ہونے کے بعد چین نے پاکستانی موقف کی حمایت کرتے ہوئے خطے سے روسی انخلا کا مطالبہ کیا اورافغان جنگ کے پورے دورانیے میں چین بظاہر غیرجانبدار رہا۔چین اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کے اہم منصوبوں میں2001 میں الخالد ٹینک، 2007 میں لڑاکا طیارہ جے ایف 17 تھنڈر، 2008 میں ایف 22 پی فریگیٹ اورکے 8قرارقرم ایڈوانسڈ تربیتی طیاروں کی تیاری اور دفاعی میزائل پروگرام میں قریبی اشتراک شامل رہا۔۔دفاعی تعاون کے سمجھوتوں کی بدولت 2007 میں چین پاکستان کوہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ پاکستان اور چین کے درمیان جوہر ی توانائی کے میدان میں تعاون کے سمجھوتے پر 1984 میں دستخط کئے گئے تھے جس کے بعد سے دونوں ممالک اس معاملے پرایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کرتے آرہے ہیں۔ 1999 میں چین کے تعاون سے چشمہ میں 300 میگا واٹ کا جوہری بجلی کاپلانٹ پایہ تکمیل کو پہنچا، تاریخ میں درج ہے کہ امریکا نے پاکستان کے ساتھ بھارت کی طرز پرسویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کامعاہدہ کرنے سے انکار کر دیاتھا، جس کے بعد چین نے جوہری توانائی کیلئے دو پلانٹس کی تعمیر میں پاکستان کومدد فراہم کرنے پر آمادگی ظاہرکی، جس پر کام شروع ہوچکا ہے۔ پاکستان کے خلائی پروگرام میں چینی ٹیکنالوجی اورتعاون کا بڑاعمل دخل ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی، دفاعی اورمعاشی لحاظ سے اہم ترین بندرگاہ گوادر بھی چینی تعاون سے ہی تعمیر کی گئی۔ اس کا آغاز 2002 میں ہوا تھا اوراس پر 248 ملین ڈالر خرچ ہوئے، جس میں چین نے 198 ملین ڈالرفراہم کئے، تعمیرکے تمام مراحل میں چین کی تکنیکی اورافرادی مدد شامل رہی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کا طویل مدتی منصوبہ موجودہ دور سے لے کر 2030تک کیلئے اقتصادی تعاون، اغراض، مقاصد، اہداف اورمجموعی سمت کا تعین کرتا ہے جس سے تحقیق، منصوبوں کے قابل عمل ہونے کے مطالعاتی جائزہ،درمیانی اورطویل مدتی اہداف کے پورے ہونے کا سلسلہ شروع ہو گا۔۔ پاک چین، اقتصادی راہداری توانائی کے شعبہ میں ریلوے اور سڑکوں کے نیٹ ورک کے ذریعے وفاقی اکائیوں کی ضروریات پوری کرے گی۔راہداری منصوبہ ٹرانسپورٹیشن نظام پرمشتمل ہے جوکہ مغربی چین کے علاقہ کا شغر کو شمال میں خنجراب کو کراچی اور جنوبی پاکستان میں کئی راستوں کے ذریعے گوادر کو آپس میں ملائے گا۔پاکستان کی تیزتر ترقی اورشرح نمو میں اضافہ کیلئے توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے توانائی کے شعبے کو پہلی ترجیح پہ رکھا گیا ہے۔اقتصادی راہداری میں توانائی کے منصوبوں میں ابتدائی طور پر34 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہو گئی اورانفراسٹرکچر کے شعبہ میں تقریباً 11 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔الغرض سی پیک چائنا اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہیں اور وہ ممالک جو پاک چین دوستی کو برداشت نہیں کرتے جو پاکستان اور چین کے دشمن ہیں ۔ ان کے لئے سی پیک منصوبے نے بدہضمی پیدا کر دی ہے اور وہ ہر وہ منفی ہربہ استعمال کر رہے ہیں جس سے سی پیک منصوبہ اور پاک چین دوستی کو ذوال ہو مگر وہ نہیں جانتے کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہیں جائے گا ۔۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے۔