نگران سیٹ اپ کے بعد خیال کیاجا رہا تھا کہ انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہونگے مگر چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کے بیان نے سیاسی صفوں میں کھلبلی مچا دی ہے کہ” عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونگے کہ اس میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوگی ،2یا 3ماہ کے لیے تاخیر کی بات ذہنوں سے نکال دی جائے ،الیکشن کے معاملات جنگی بنیادوں پر چلنے ہیں ،الیکشن کمیشن بے بس ہو جائے تو اور بات ہے ”۔اس بیان کے بعد وہ تما م فواہیں دم توڑ گئی ہیں جن کے مطابق کہا جا رہا تھا کہ اسٹیبلیشمینٹ ملکی سیاست پر اثر انداز ہو رہی ہے اور موجودہ سیاسی منظر نامہ کسی سازش کا حصہ ہے ،مخالفین میاں صاحب کی عوامی طاقت سے خوفزدہ ہیں اورلاڈلے کی ہار کا خوف ہے ۔مگر ۔۔بقول سراج الحق کہ چہرے اور پینترے بدل کر عوام کو ڈسنے والے اژدھوں کا دور گزر چکا ہے۔
۔یقینا عوام باشعور ہوچکے ہیں حالانکہ سیاسی شعبدہ بازوں کی شعبدہ بازیاں عروج پر ہیں چونکہ انتخابات کا شور ہے توہر کوئی خود کو عاجز ،فقیر اور عوام کا خادم ظاہر کر رہا ہے اور وعدوں کی مالا ئیںپکڑے دعووں کی دستاریں پہنے مذہبی اور مسلکی جماعتیں بھی اپنے امیدواران میدان میں اتار چکی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے احتساب عدالت کو حکم دیا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف ریفرینسز کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر سنایا جائے کیونکہ ملزمان پریشان ہیں اور قوم بھی ذہنی اذیت کا شکار ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یقینا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جائے گا کہ میاں نواز شریف اور مریم بی بی اپنی جارحانہ پالیسی کیوجہ سے سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر غائب ہو سکتے ہیں۔ ویسے جذباتی تو میاں شہباز شریف بھی بہت ہیں مگر حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں کہ نگران وزیر اعلیٰ کے بیان پر ڈاکٹر بابر اعوان کو کہنا پڑا ہے کہ نگران وزیر نے جیسے بجلی کے بحران کا دفاع کیا ہے ایسا لگ رہا تھا کہ شہباز شریف بول رہے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ نگران سیٹ اپ انتخابات کروائے ،حکمرانی ،پارٹی بازی اور سیاست نہ کرے ۔ 56کمپنیز کرپشن کیس میں بھی شہباز شریف جلال میں آئے تھے کہ ”مجھے کسی کتے نے تو نہیں کاٹا کہ میں نے 9ہسپتال بنا دئیے ہیں” مگر پھرساتھ ہی کہا کہ آپ جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا اورہمیشہ سے کہتے بھی آرہے ہیں کہ نیب آئینی ادارہ ہے اور قانون کے سامنے سر جھکانا ہوگا اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف کی پوزیشن تاحال مضبوط ہے ۔
اگر سیاسی منظر نامے پر نگاہ دوڑا ئیں تو ن لیگ کا ڈوبتا جہاز ،جان بچا کر بھاگتے موقع پرست سیاسی شعبدہ باز اور تحریک انصاف کو ملتا ہوا سیاسی عروج ہی نمایاں نظر آرہا ہے ۔اس انتشارو افراتفری میں تحریک انصاف کو پچھاڑنے کے لیے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اوچھے ہتھکنڈے بھی قابل ذکر ہیں جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کی ساکھ اور استحکام کونا قابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں مگر دور اندیشی مفادات کی نذر ہوچکی کہ جیسے لوٹ سیل لگی تھی جس کو لوٹتے لوٹتے حب الوطنی ، ایمانداری اور خوف الہی پر لفافوں کی ایسی مہر لگی کہ پاکستان کو لاحق خطرات چھپے ہوئے نہیں تھے بلکہ آج گھنٹیاں بج رہی ہیں مگر سبھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں اور جو تھوڑا بہت احساس زیاں کروانے کی کوشش کرتے ہیں انھیں ملک و قوم کا دشمن ثابت کرنے کے لیے میڈیا سیلز کو سپاری دے دی جاتی ہے ۔گلا لئی کا الزام ،ریحام کتابی کا ابہام یا جسٹس افتخار چوہدری کا کپتان کے خلاف ا علان جنگ یا کوئی فحش کلام ہو ۔۔
تمام بلاوجہ اور بے فائدہ ہیں اور مسلسل ثابت بھی ہو رہا ہے کہ کسی کو اس فحش گردی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا البتہ دوسری سیاسی جماعتوں کا عمران خان کی برائیاں بے نقاب ہونے سے ووٹ بینک بڑھ سکتا ہے جو کہ گمان کی حد تو ٹھیک ہے کیونکہ تحریک انصاف کی صفوں میں بھی حق تلفیوں کا شور سنائی دے رہا ہے۔مگر ا لیکشن 2018 میں عمران خان ایک روایتی قسم کے سیاستدان کے طور پر سامنے آرہاہے بدیں وجہ دوسری پارٹیوں کے وفادار دھڑا دھڑ کپتان کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں اور یہی مفاد پرست اور دور اندیش پارٹی بدل وفادار ہی تحریک انصاف کے ٹکٹوں کے حقدار ٹھہرے ہیں جبکہ نظریاتی پرانے کارکنان کو فراموش کر دیا گیا ہے چونکہ وفاداری اور جانثاری ہوس اقتدار پر غالب آچکی ہے اسی لیے احتجاجی آوازیں دب جائیں گی ۔جہاں تک خان صاحب کی ذاتی زندگی کی بات ہے تو عوام الناس کے سامنے کھلی کتاب کی طرح پڑی ہے بہ الفاظ دیگر وہ خود بھی مختلف فورمز اور ٹاک شوز میں سر عام اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ خود بھی فرشتے نہیں تھے اور نہ ہی وہ اپنی صفوں میں فرشتے ڈھونڈ کے لا سکتے ہیں لیکن یہ وعدہ ضرور کرتے ہیں کہ وہ سب کو انسان بننے پر مجبور کر دیں گے ۔اس پر مبصرین اور صحافیوں کو بہت سے تحفظات ہیں ۔یاد رکھیئے کہ توبہ کرنا آسان ہے مگر گناہ چھوڑنا مشکل ہے ۔
دانشوران کے مطابق کردار کشی سیاستدانوں کا ہمیشہ سے آخری اور کامیاب حربہ رہا ہے ۔مولانا سمیع الحق کے لیے میڈم طاہرہ کا استعمال ہو یا شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی قابل اعتراض تصاویر ہوں ، محترمہ فاطمہ جناح کے لیے تحقیر ی حربہ ہو یا عمران خان کے لیے گلا لئی، ریحام گردی یا جسٹس افتخار چوہدری کا اعلان جنگ ہو سب میں مماثلت پائی جاتی ہے کہ کامیابی کے حصول کے لیے یہ سیاستدان کس حد تک جا سکتے ہیں بس دعا ہے کہ غریب کارکنان کی جانیں اور عزتیں سلامت رہیں کہ آنے والے انتخابات گھیرائو اورجلائوکا عندیہ دے رہے ہیں جو کہ لیگی قائدین اور نوازشی معصوم عوام کو اکسا رہے ہیں ۔ مریم بی بی سمیت دیگر سیاستدان بھی اپنے اثاثوں کا خود اعتراف کر چکے ہیں اور احتساب کو سازش قرار دینے والے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ہیں مگر پھر بھی نت نئے الزامات تراشتے رہتے ہیں بد قستمی سے ہر مسئلے اور فتنے کا ذمہ دار اسٹیبلیشمنٹ کو قرار دینے والے یہ چند سیاستدان اورنوازشی اینکر صحافی ملک دشمن ایجنڈے پر روز اول سے عمل پیرا ہیں کہ پاکستان کو زیر کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ عوام کے دلوں میں فوج کے خلاف نفرت پھیلا دو اور وہ یہی ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ افواج پاکستان اندرون خانہ شب خون مارنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اداروں کی ٹوٹ پھوٹ اور کمزور سیاستدانوں کی نا عاقبت اندیشیوں اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ہمیشہ فوج کو آگے لایا جاتا ہے مگر یاد رہے کہ سول انتظامیہ کے طور پر فوج کا کردار ہمیشہ مثبت اور غیر جانبدار رہا ہے اور اس بات میں بھی شک نہیں کہ ملکی اقتدار میں فوج کی شمولیت سیاست کے لیے مناسب نہیں سمجھی جاتی کیونکہ وطن عزیز کے لیے جان ہتھیلی پر لیے پھرنے والے سپوت لوٹ مار پسند نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ان جمہوری مسخروںکے پاس اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے سوائے اس کے کہ جمہوریت میں ہی پاکستان کی بقا ہے حالانکہ سیاستدانوں نے جمہوریت کو آمریت کی وہ بد ترین شکل بنا دیاہے جس میں جمہور تو کہیں نہیں ہوتا البتہ آمریت اور بر بریت کا بول بالا ہوتا ہے۔
اشرافیہ کو ملکی وسائل کو لوٹ کھانے کیلئے یہ طرز حکمرانی زیادہ محفوظ لگتا ہے جیسا کہ صاحب الرائے بھی حیران ہیں کہ 35 سال پاکستان میں حکومت کرنے والے خیبر پختونخواہ کے 5 برسوں سے مقابلہ کر رہے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ انھوں نے 35 برسوں میں کوئی ایسا ہسپتال کیوں نہیں بنایا جہاں بیگم کلثوم نواز اور دیگر پاکستان کے وزرا کا علاج ہوسکتا ؟ پاکستان کا معیار تعلیم مسلسل گر رہا ہے کہ ایشیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی کیوں شامل نہیں ہوسکی ؟ تعلیم اور صحت حکومتی ترجیحات میں کیوں شامل نہیں رہی ؟ پانی (ڈیموں )کا مسئلہ جو کہ بنیادی مسئلہ تھا اس پر کیوں کام نہیں کیا گیا ؟ لکھاریوں نے لکھ لکھ کر صفحے سیاہ کر دئیے کہ پانی خرید کر پینا پڑ رہا ہے مگر پانی کی صفائی بارے کوئی قابل قدر کام کیوں نہیں کیا گیا ؟مون سون بارشوں میں پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور لاہور (پیرس) بھی ڈوب جاتا ہے اس پر کوئی کام کیوں نہیں کیا گیا ؟ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اسموگ نے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا مگر اس سے بچائو کا کوئی حل تلاش کیوں نہیں کیا گیا ؟لوڈ شیڈنگ اورگیس کی عدم فراہمی پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا ؟مہنگائی اور ٹیکسزمیں روز بروز اضافہ ہوتا رہا اور اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا جبکہ وزیر خزانہ بھی اشتہاری ٹھہرے ہیں ؟ موبائیل کارڈز پر بھی اتنے ٹیکسسز لگا دئیے گئے (جو غریب ادا کرتا تھا)۔وہ تو اللہ بھلا کرے جناب چیف جسٹس صاحب کا جنھوں نے سو پر سو دیکر عوام کو نا حق بھتہ دینے سے بچا لیا ۔اس پر بھی لیگی کاسہ لیس لکھاری الٹا اپنے کالمز اور سوشل میڈیائی سٹیٹس میں تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں کہ بابے رحمے کو کیاحق حاصل ہے کہ وہ عوامی مسائل کے لیے ایکشن لے جبکہ حکومت تاریخی کام کر رہی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو وہی بندہ بھاتا ہے جو ان کے گیت گاتا ہے ۔اب ڈاکٹر حسن عسکری کو ہی لے لیں کہ جب سے وہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بنے ہیں ڈاکٹر صاحب کے خلاف لیگی وزرا اور نوازشی لکھاریوں نے محاذ بنا رکھا ہے کہ ان کے منہ سے ن لیگ کیلیے کبھی کلمہ حق نہیں سنا تو ایسے میں ان سے بہتری کی امید کیسے کی جا سکتی ہے ؟ اب یہ کون بتلائے کہ جو کلمہ حق کہتے ہیں وہ ن لیگ کے لیے کب کچھ کہتے ہیں ۔۔؟؟؟ لیگی ہھکنڈوں میں ”ووٹ کو عزت دو ” سے ن لیگیوں کو بڑی امید وابسطہ ہے انھیں لگتا ہے کہ یہ نعرہ طلاطم خیز موج کی مانند ساری پارٹیوں کو بہا کر لے جائے گا اور نتائج 2013 سے مختلف نہیں ہونگے کہ اگلا وزیراعظم بھی ن لیگ سے ہی ہوگا کیونکہ عوام کو ”خلائی مخلوق ” کا لا لی پاپ پکڑا دیا گیا ہے اور جبتک وہ ختم ہوگا تب تک آئندہ حکومت بر سراقتدار آچکی ہو گی۔
بہر حال ن لیگ کی سیاست خطرے میں نظر آرہی ہے کہ ن لیگ کے پرانے ساتھی اور اکابرین چھوڑ چکے ہیں اور جو بچے ہیں وہ آزاد الیکشن لڑنے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔ان حالات کے مدّ نظر یہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ الیکشن 2018 انتخابی پنچھیوں کے سیاسی تدبر ہی نہیں عوام کے فہم و فراست کا بھی کڑا امتحان ہوگا کہ آئندہ انتخابات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ویسے بھی سیاست اور محبت میں منزل انھیں ملتی ہے جو شریک سفر نہیں ہوتے !