پیرس (جیوڈیسک) فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ملکوں کی گرے لسٹ میں شامل رکھنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی قیادت میں وفد نے پاکستان کا موقف پیش کیا۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے اینٹی منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے اور کالعدم تنظیموں اور دیگر گروہوں کے خلاف کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔
پاکستانی حکام کا موقف تھا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے پہلے سے موجود قوانین میں بہتری لانے کے ساتھ سا تھ ان پر عملدرآمد بھی بہتر طریقے سے یقینی بنایا گیا ہے۔
اس حوالے سے نگران وزیر داخلہ اعظم خان کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف امریکا اور بھارت کے دباؤ میں ہے اور دونوں ملکوں نےترکی، سعودی عرب اور چین پر بھی دباؤ ڈالا۔
یاد رہے کہ رواں سال فروری میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو تادیبی اقدامات کرنے کے لیے 3 ماہ (جون تک) کا وقت دیا تھا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے 25 اپریل کو ہونے والے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں 27 صفحات پر مشتمل اینٹی منی لانڈرنگ اور اینٹی ٹیرر فنانسگ اقدامات پر رپورٹ پیش کی تھی تاہم 22 مئی کو بنکاک کے غیر رسمی اجلاس میں اس رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا گیا تھا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے جس میں امریکا، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خیلج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔
تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔
عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 2012 سے 2015 تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔