کچھ عرصہ قبل عامر خان کی ایک فلم بہت مقبول ہوئی جس میں وہ ہر غلط اور دو نمبر کام کرنے والے کو رانگ نمبر کہہ کر مخاطب کرتا تھا اور وہ ایسے لوگ ہوتے تھے جن پر عوام کو اندھا اعتماد اور انکے خلاف کوئی بھی کسی قسم کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا تھا وہ تو ایک فلم تھی جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے فلم کی کہانی تب بنتی ہے جب لکھنے والا اپنے مشاہدے میں وہ چیز لاتا ہے اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی رانگ نمبروں کی بھر مار ہے جنہیں آجکل سوشل میڈیا نے ننگا کرکے رکھا ہوا ہے ایک رانگ نمبر میاں نواز شریف تھا جو عمر بھر کے لیے نااہل ہوگیا ایک رانگ نمبر آصف علی زرداری ہے جو ہر بار بڑے ہی خوبصورت انداز سے بچ نکلتا ہے اور اب رانگ نمبر عمران خان ہے اور یہ تینوں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں کیونکہ جہان سے نواز ختم ہوتا ہے وہاں سے زرداری شروع ہوتا ہے اور جہاں زرداری ختم ہوتا ہے وہاں سے عمران شروع ہوتا ے اور جہاں عمران ختم ہوتا وہاں سے پھر نواز شروع ہوتا ہے۔
سب سے پہلے آپ نواز شریف کا نام لکھیں NAWAZ کے آخر میںZ آتا ہے جہاں سے جناب زرداری صاحب کا نام شروع ہوتا ہے اور ZARDARIکے آخر میں آئی آتا ہے جس سے جناب محترم عمران خان صاحب کا نام شروع ہوتا ہے اور IMRANکے آخر میں Nآتا ہے جہاں سے پھر جناب محترم میاں نواز شریف صاحب کا نام شروع ہوجاتا ہے اب آتے ہیں رانگ نمبرز کی طرف مگر اس سے پہلے ان باتوں کا ذکر ضروری ہے کہ ہمارا ملک کبھی بہت عظیم ہوا کرتا تھا دنیا میں ہم عزت،وقار اور اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے سوویت یونین کوشکست دینے واالاپاکستان ,ملت کفر کی آنکھوں میں چبھنے والا پاکستان ، سری لنکا کے صوبے جافنا کو علیحدگی پسندوں سے صاف کرنے والا پاکستان , دنیا میں سب سے زیادہ ہاکی کے ورلڈ کپ جیتنے والا پاکستان , دنیا میں سب سے زیادہ کرکٹ کے ریکارڈز بنانے والا پاکستان , پندرہ بار اسکواش کا عالمی چیمپئن رہنے والا پاکستان , دنیا میں سب سے زیادہ بلند و بالا پہاڑ رکھنے والا پاکستان , دنیا میں سب سے زیادہ نمک اور بہترین چاول پیدا کرنے والا پاکستان ,دنیا میں سب سے اونچی سڑک رکھنے والا پاکستان ، دنیا کا سب سے بہترین آبپاشی نظام رکھنے والا پاکستان اور دنیا کے 130 ایٹم بم رکھنے والا پاکستان ہمارا شاندار ملک ہے مگران رانگ نمبروں نے ہمارا شاندار ماضی ہم سے چھین کر تاریک مستقبل میں ہمیں دھکیل رکھا ہے۔
ہمارے چور سیاستدانوں نے ملک کو بے دردری سے لوٹا ہمارے آنے والے نسلوں کو بھی نہ چھوڑا انہیں بھی مقروض بنا کر اپنے نسلوں کو ارب پتی بنا ڈالا25جولائی کو الیکشن ہونے جارہے ہیں اس خیال سے ووٹ ڈالیں کہ ایک عام چور جس نے کسی کی مرغی ،بکری ،پنکھا یا پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے روٹی چرائی ہو اسے تو آپ مار مار کر جہنم رسید کردیتے ہو اور جو آپکا مستقبل چرا رہا ہے اسے آپ ملک کی حکمرانی عطا کردیتے ہو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عام چور آپ کا مال ،آپ کا پرس، آپ کی گھڑی اور آپ کا موبائل فون وغیرہ چھین لیتا ہے جبکہ سیاسی چور آپ کا مستقبل، آپ کے خواب، آپ کا عمل، آپ کی تعلیم ،آپ کی صحت، آپ کی قوت اورآپ کی مسکراہٹیں چھین لیتے ہیں۔ان میں ایک کمال کا بنیادی فرق ہوتا ہے؟عام چور آپ کا انتخاب کرتا ہے جبکہ سیاسی چور کا انتخاب آپ خود کرتے ہیں۔اس بار ذرا سوچ سمجھ کر ووٹ دینا اپنے اردگرد اپنے جیسے ہی مڈل کلاس کو چن لینا پیسے والا تو پہلے بھی آپ سے دور تھا اور جیت کر بھی آپ کو اپنے آپ سے دور ہی رکھے گاعمران خان کے حوالہ سے آج کل سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے کہ انہوں نے کرکٹ کھیلنے کے دوران زمان پارک لاہور کا پلاٹ پنجاب حکومت سے درخواست کر کے مفت لیا۔شوکت خانم ہسپتال بنانے کیلئے زمین نواز شریف حکومت سے لی۔پورے پاکستان سے چندہ لیا۔اور پھر سب بہن بھائی اسکے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہو گئے۔
اب اسکی ایک بہن کی دبئی میں اربوں روپے کی جائیداد ہے جبکہ شوکت خانم ہسپتال میں مفت علاج کرانے کیلئے پہلے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں جنکی مالیت کم از کم دو سے تین لاکھ بنتی ہے ہر امیر غریب اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔ہر الیکشن سے تین ماہ پہلے شہر شہر جا کر شوکت خانم کے نام پہ چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے لوگ ٹکٹ لینے کی خاطر کروڑوں روپیہ چندہ کی شکل میں جمع کرواتے ہیں حالیہ الیکشن میں بھی یہ پالیسی کامیابی سے چلائی گئی300 کنال کے محل میں رہتا ہے۔1350 کنال اراضی کا مالک ہے اور پورے سال میں ٹیکس سوا لاکھ روپے ادا کیا جاتا ہے۔ 300 سو کینال محل بنی گالا اسلام آباد کی فی مرلہ قیمت 2080 روپے بتائی جاتی ہے جو پورے پورے پاکستان میں سب سے سستی ہے۔ہیلی کاپٹر پہ سفرجبکہ ذاتی گاڑی ایک بھی نہیں ہے۔پانچ سال خیبرپختونخوا میں حکومت رہتی ہے جہاں کوئی دل،گردے کا ہسپتال نہیں بنتا، فارنزک لیب نہیں بنتی اور نہ ہی کوئی اعلیٰ معیار کا سرکاری ہسپتال نہیں بنایا جاتا ہے مگر شوکت خانم پشاور لازمی بن جاتا ہے کوئی انٹرنیشنل سطح کا تعلیمی ادارہ نہیں بنتا جہاں حکمران طبقہ اور جہانگیر ترین کے بچے پڑھ سکیں پورے پانچ سال خیبرپختونخوا میں کسی پر بھی کرپشن کا کیس نہیں بنایا جاتا نیب پہ سٹے آرڈر ہو جاتا ہے پاکستان کے امیر ترین لوگوں کو اپنے قریب ترین رکھا ہوا ہے۔ جیسے جہانگیر ترین،علیم خان، زلفی بخاری اور اعظم سواتی جیسے۔اور واضح موقف ہوتا ہے کہ سیاست بس امیروں کو کرنی چاہیے۔
غریب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیئے ہیلی کاپٹر پہ سفر کرکے مثالیں سائیکل کی دی جاتی ہیں۔افشور کمپنی بنانے،جوا کھیلنے،اور بیسیوں سکینڈلز کا انٹرنیشنل میڈیا پہ بیٹھ کے اعتراف کرنے کے باوجود کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی جاتی ہے اسمبلی میں صرف پانچ چھ دفع جاکر تنخواہ پورے پانچ سال کی وصول کرکے اسی اسمبلی پہ لعنتیں پی لعنتیں بھی بھیجی جاتی ہیں ۔ انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو کرکٹ کھیلنے پاکستان آنے پر والوں پھٹیچر کہہ کر انڈیا کی IPL دیکھنے چلا جانا بھی کوئی بری بات نہیں لیکن پاکستان میں PSL کا میچ دیکھنا توہین سمجھتاہے۔بار بار موقف بدلنے کی وجہ سے وجہ شہرت یوٹرن بن چکی ہے سابقہ بیوی ریحام خان ایک کتاب لکھنا چاہتی ہے تو اس کتاب کو شائع ہونے سے روکنے کے لیے 160 ملین ڈالر سے برطانیہ میں وکیل کیا جاتا ہے نوجوانوں کو تبدیلی اور خوشحالی کے سنہرے خواب دکھاکرصاف شفاف تحریک کا اعلان کیا جاتا ہے۔
کرپٹ اور جاگیر داروں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے پورے پاکستان میں نوجوانوں کے خرچوں پہ جلسے ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں مگر الیکشن قریب آتے ہی پارٹی ٹکٹس پھر انہی کرپٹ وڈیروں کو دے دیے جاتے ہیں علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال جیسی بڑی ہستی کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے ان کو ضمنی الیکشن کا لالی پاپ دیدیا جاتا ہے ۔نجابیوں کو بے وقوف ،کراچی والوں کو مردہ لاشیں کہا اور داڑھی والوں کا مزاق اڑایا جاتا ہے شوکت خانم کیلئے کم از کم دس روپے مسج کے ذریعے غریب لوگوں سے بھی اکٹھے کیے جاتے ہیں لیکن کوئی غریب خان صاحب سے ہاتھ نہیں ملا سکتا صدقات،خیرات اورزکواۃ لینے والا ہتا نوابوں اور شہنشاہوں کی طرح ہے عبد الستار ایدھی مرحوم نے بھی کروڑوں اربوں کا فلاحی اثاثہ چھوڑا ہے لیکن وہ ساری عمر کھدر کے سوٹ اور پلاسٹک کی چپل پہنے غرباء،مساکین اور یتیموں کے ساتھ رہے عمران خان بھی دوسروں کی طرح اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ دکھائی دینے والے رانگ نمبر ہیں۔