ووٹ کو عزت دو کا نعرے لگانے والوں نے تو ووٹ کی حرمت کی حفاظت کرنے والے ووٹرزکو اس الیکشن میں حقیقی طو ر پر جگا دیا ہے اس لئے تو اسمبلیوں کے ایوانوں میں ترقی کے جھوٹے دعوے کرنے والوں کو انتخابی مہم کے دوران ووٹرز کی طرف سے جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ یقینااس سے قبل ملکی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا اس صورتحال نے میرا جیسے مایوس فرد کے دل میںامید کی ایک بار پھر ایسی کرن روشن کی ہے کہ اب کے بار لگتا ہے کہ غم وغصہ سے بھرے اور سخت حالات کے بپھرے ووٹرز نے ملک کو گدھوں کی طرح نوچنے والے اور جونکوں کی طرح دھرتی ماں کا خون چوسنے والوں کی تکہ بوٹی کرنے کا کھلم کھلا فیصلہ کرلیا جس پر عمل درآمد کی ویڈیو ز روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا اور خبروں کی زینت بنتی رہتی ہیں اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر تقروں کی شکل میں فلسفہ جھاڑنے والے خورشید شاہ ہوں۔
ایم کیوایم کراچی کے سربرا ہ فاروق ستار ہوں،سہیل انور سیال، تحریک انصاف کے عارف علوی، سکندر بوسن ، جنوبی پنجاب کے جمال لغاری ہوں ، سابق وزیر رانا افضل ہوں جہاں جہاں ووٹ مانگنے جارہے ہیںعوامی کی تاریخی چھترول ان کی منتظر ہو تی ہے پہلی بار امیدوار انتخابی مہم کے دوران ووٹ مانگتے ہوئے خوفزدہ ہیں کہ ناجانے آگے سے کیا ردعمل آجائے 70سالوں سے عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والوں کو یہی 22کروڑ کیڑے مکوڑے انہیں ان کی اوقات یاد دلا رہے ہیں کہ عوام کا نام لے کر انہی کے ووٹوں کی سیڑھی چڑھ اسمبلیوں میں بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے والوں یہ کردار ہے تمہارا، تم سرعام جھوٹ بیچتے ہوئے اور جھوٹے پر تو ہمارا مذہب بھی لعنت بھیجتا ہے جو انتخابی مہم کے دوران پلٹ کر تمہیں مل رہاہے کہ تم نے یہی نہیں بویا تھاووٹرز پوچھ رہا ہے کہ پچھلی باربھی تم ہمیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے دعوے کرکے بیوقوف بنا کر چلے گئے تھے تمہارے دعوئوں کے مطابق کیوں ہمیں ہسپتالوں میں معیاری علاج کی سہولیات میسر نہیں سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹروں کا جو سلوک عام آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔
بیمار بیچارا تندرست ہونے کے بجائے ڈپریشن کا اضافی مرض لے کر گھر آجاتا ہے تعلیم ہے تو ہم آج بھی یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کون سا نصاب پڑھایا جانا چاہئے ۔تھانوں کی تو نہ ہی پوچھیں! آج بھی بے ضمیر ، وردی میں چھپے درندوں کی اکثریت محکمہ پولیس میں موجود ہے سیاسی چھتری تلے پروان چڑھنے والے گھٹیا ، شرم سے عاری اہلکار اور افسران جن کا کام ہی مال پانی بنانا ہے یہاں تک کہ بے ضمیر تھانیدار لاشوں کے سودے کرجاتے ہیں پٹوار ی کا حال بھی اس سے مختلف نہیں جو آج بھی اپنے ہی ملک کے شہریوں کا معاشی قتل کررہاہے ،عدالتوں میں آج بھی مظلوم شہری آس امیدا کے ساتھ ججز کے چیمبر کے باہر گھنٹوں گھنٹوں انتظار کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں لیکن انصاف کے طویل دورانیہ کے باعث انصاف حاصل کرتے کرتے بھاری وکلا کی فیسوں کے ساتھ ان کی جوتیاں تک گھس جاتی ہیں ان سب اذیتوں کے باوجودانصاف آپ کی قسمت سے مشروط ہوتا ہے۔
ملک میں آج بھی لوڈشیڈنگ جاری ہے کئی کارخانے، صنعتیں بند پڑی ہیں،لاکھوں مزدور گھروں میں بیٹھے ،ملک میں لوڈشیڈنگ کا دعویٰ کرنے والے جاتے جاتے کہہ گئے کہ لوڈشیڈنگ جانے اور عوام جانے ۔۔۔ د رآمدات میں خطرناک حد تک کمی ہونے سے ڈالر کی اونچی پروان ہے، پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرلیا گیا اور بلیک لسٹ کرنے کے بارے میں غور کیا جارہاہے ۔رہی سہی کسر پٹرولیم کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے نکال دی گئیںملکی اقتداد پر قابض چند خاندانوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک میں صاف پانی سے لے کر خالص خوراک تک کچھ نہیں چھوڑا، ا میری تحریر لکھنے کے دوران ذرائع سے خبر آئی ہے کہ ن لیگ نے الیکشن نے بائیکاٹ کا عندیہ دے دیا جبکہ الیکشن میں جانے کیلئے تین کڑی شرائط رکھی گئیں ہے جس میں فوج کو الیکشن کے عمل سے باہر رکھنے ، چوروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے سمیت نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کا مطالبہ شامل ہے ملکی سب سے بڑے صوبے پنجاب کی بڑی جماعت کا دعویٰ کرنے والی ن لیگ کا حال یہ ہوچکا ہے کہ ان کے اپنے ہی امیدوار ٹکٹیں واپس کررہے ہیں کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ پورے ملک میںووٹرز جھاگ چکے ہیں اب کے بار بیوروکریسی ، نادرا ، اور پولیس پٹوار ی سے مل کردھاندلی کے ذریعے الیکشن سہل نہیں رہا اور کرپٹ سیاسی امیدواروں کی لتریشن کا وقت آن پہنچا ہے۔