ووٹ کی پرچی وہ واحد طریقہ ہے جہاں عوام اپنی مرضی اور طاقت سے اپنا نمائدہ اور حکومت منتخب کرتے ہیں ۔بدقسمتی سے ہم نے ووٹ کا صحیح استعمال بہت کم کیا ہے۔ ہر الیکشن کے بعد دھونس دھاندلی اور خفیہ ووٹوں کا رونا دھونا ہوتا ہے۔کبھی کبھی سیاستدانوں سے سننے میں آتا ہے کہ ” مردے ووٹ ڈال گئے ” ہیں ۔ خفیہ ووٹ کیا ہیں ؟ خفیہ ووٹوں کو کیسے حاسل کر سکتے ہیں ؟ اور یہ خفیہ ووٹ کہاں ہے؟ یہ سب کچھ بتائیں گئے مگر پہلے وہ حقیقت جو ہماری جگ ہنسائی پچھلی حکومت میں بنتی رہی ” الیکشن برائے 2013 ” کی ایک روپورٹ جو روزنامہ دنیا نے شائع کی تھی۔دنیا نیوز کے مطابق 136 پولنگ سٹیشنوں پر ٹرن آؤٹ 100 فیصد سے بھی زیادہ رہا۔ خبر کی تفصیل ے قبل یہ کون بتائے گا کہ یہ خفیہ ووٹ کون اور کس نے ڈالے ہیں ؟ کیا یہ خفیہ ووٹ اصل الیکشن پر اثرِ انداز نہیں ہوتے ۔ خفیہ ووٹوں پر بات سے پہلے پچھلے الیکشن برائے 2013 کے متعلق دنیا نیوز کی رپورٹ ! پنجاب کے 94، سندھ 20، خیبر پختونخوا 15اور بلوچستان کے 4پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کی شرح رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ رہی عام انتخابات کے دوران ملک کے 136 پولنگ سٹیشننز پر ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی بڑھ گیا، پنجاب کے این اے 193 میں ووٹ ڈالنے کی شرح 103 فیصد رہی۔ غیر سرکاری تنظیم فافن نے عام انتخابات کے حوالے سے دلچسپ اعدادوشمار جاری کئے ہیں۔
تنظیم کے مطابق ملک کے 136 سے زائد پولنگ سٹیشنز پر ٹرن آؤٹ 100 فیصد سے بھی زائد رہا۔ 100 فیصد سے زائد ٹرن آؤٹ والے پولنگ سٹیشنز میں پنجاب کے 94، سندھ کے 20، خیبر پختونخوا کے 15 اور بلوچستان کے 4 پولنگ سٹیشن شامل ہیں۔ فافن کے مطابق ان حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد رجسٹرڈ ووٹوں سے کہیں زیادہ دیکھی گئی۔ ادھر برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے بعد دھاندلیوں کے الزامات کوئی نئی بات نہیں مگر اس بار یہ آواز لاہور اور کراچی سے زیادہ اٹھ رہی ہے۔ فافن کے چیف ایگزیکٹو افسر مدثر رضوی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ انتخاب کے دن کی دھاندلی کا مطلب ہے کہ بیلٹ باکس میں ووٹ غلط لوگوں نے ڈالا، جعلی ووٹ ڈالا گیا یا انتخابی طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر ووٹ کاسٹ کیا گیا۔ اگر جعلی ووٹ ڈالے گئے ہیں تو انہیں پکڑنا انتہائی آسان ہے کیونکہ الیکشن کمیشن ہر ووٹر کے انگوٹھے کا نشان لیتا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن ایک دن میں ان ووٹوں کی نشاندہی کر سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں فافن نے تقریباً چھ سو سے زائد پولنگ سٹیشنوں کو مانیٹر کیا جن میں سے آٹھ نو فیصد پولنگ سٹیشن ایسے ہیں جہاں رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ٹرن آؤٹ رہا۔فافن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 49پولنگ سٹیشنز پر ٹرن آؤٹ سو فیصد سے زائد رہا،رحیم یار خان کے این اے 193کے پولنگ سٹیشن میں ٹرن آؤٹ 320فیصد رہا، نوشہرہ کے حلقے این اے 6 میں 271فیصد،بھکر کے حلقے 74میں240فیصد،ملتان این اے 148میں 218فیصد، نوشہرو فیروز کے حلقے این اے 211میں 200فیصد ٹرن آؤٹ ہوا۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 8119پولنگ سٹیشنز میں سے 49پولنگ سٹیشنز میں 100فیصد سے زائد ووٹ ڈالے گئے، پنجا ب میں 32،سند ھ میں10، خیبرپختونخوا میں 6جبکہ ایک بلوچستان پولنگ سٹیشنزپر 100فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے این اے 5 پولنگ سٹیشنزنمبر155پررجسٹرڈ ووٹرز807کے مقابلے میں 1275،این اے 6 پولنگ سٹیشن نمبر6رجسٹرڈ ووٹرز963کے مقابلے میں 1119،این اے 6 پولنگ سٹیشن نمبر14رجسٹرڈ ووٹرز1023کے مقابلے میں 2774،این اے 7 پولنگ سٹیشن نمبر113رجسٹرڈ ووٹرز832کے مقابلے میں 854،این اے 13 پولنگ سٹیشن نمبر36رجسٹرڈ ووٹرز1527کے مقابلے میں1789،این اے 24 پولنگ سٹیشن نمبر219رجسٹرڈ ووٹرز1017کے مقابلے میں1364،این اے 52 پولنگ سٹیشن نمبر238رجسٹرڈ ووٹرز1634کے مقابلے میں2553،این اے 71 پولنگ سٹیشن نمبر57رجسٹرڈ ووٹرز790کے مقابلے میں1024،این اے 74 پولنگ سٹیشن نمبر202رجسٹرڈ ووٹرز540کے مقابلے میں1299،این اے 94 پولنگ سٹیشن نمبر149رجسٹرڈ ووٹرز751کے مقابلے میں1390،این اے 98 پولنگ سٹیشن نمبر16رجسٹرڈ ووٹرز663کے مقابلے میں1250،این اے 101پولنگ سٹیشن نمبر15رجسٹرڈ ووٹرز1067کے مقابلے میں1150،این اے 105 پولنگ سٹیشن نمبر199رجسٹرڈ ووٹرز441کے مقابلے میں663،این اے 115 پولنگ سٹیشن نمبر10رجسٹرڈ ووٹرز1057کے مقابلے میں1632،این اے 122 پولنگ سٹیشن نمبر83رجسٹرڈ ووٹرز443کے مقابلے میں757،این اے 122 پولنگ سٹیشن نمبر216رجسٹرڈ ووٹرز866کے مقابلے میں1668این اے 124 پولنگ سٹیشن نمبر145رجسٹرڈ ووٹرز803کے مقابلے میں1049،این اے 126 پولنگ سٹیشن نمبر218رجسٹرڈ ووٹرز522کے مقابلے میں817،این اے 127 پولنگ سٹیشن نمبر154رجسٹرڈ ووٹرز783کے مقابلے میں1209،این اے 128 پولنگ سٹیشن نمبر19رجسٹرڈ ووٹرز1220کے مقابلے میں1292،این اے 128 پولنگ سٹیشن 109رجسٹرڈ ووٹرز953کے مقابلے میں1539،این اے 130 پولنگ سٹیشن نمبر35رجسٹرڈ ووٹرز1090کے مقابلے میں1122این اے 130 پولنگ سٹیشن نمبر77رجسٹرڈ ووٹرز956کے مقابلے میں966،این اے 130 پولنگ سٹیشن نمبر210رجسٹرڈ ووٹرز811کے مقابلے میں1073،این اے 140 پولنگ سٹیشن نمبر10رجسٹرڈ ووٹرز1229کے مقابلے میں1390این اے 142 پولنگ سٹیشن نمبر8رجسٹرڈ ووٹرز672کے مقابلے میں1155،این اے 142 پولنگ سٹیشن نمبر57رجسٹرڈ ووٹرز455کے مقابلے میں623،این اے 143پولنگ سٹیشن نمبر4رجسٹرڈ ووٹرز712کے مقابلے میں777،این اے 143پولنگ سٹیشن نمبر7رجسٹرڈ ووٹرز716کے مقابلے میں907،این اے 147 پولنگ سٹیشن نمبر12رجسٹرڈ ووٹرز841کے مقابلے میں1021،این اے 148 پولنگ سٹیشن نمبر201رجسٹرڈ ووٹرز975کے مقابلے میں2128،این اے 151 پولنگ سٹیشن نمبر109رجسٹرڈ ووٹرز1222کے مقابلے میں1223،این اے 168 پولنگ سٹیشن نمبر173رجسٹرڈ ووٹرز783کے مقابلے میں840،این اے 175 پولنگ سٹیشن نمبر56رجسٹرڈ ووٹرز1144کے مقابلے میں1200،این اے 175 پولنگ سٹیشن نمبر103رجسٹرڈ ووٹرز937کے مقابلے میں1025،این اے 193 پولنگ سٹیشن نمبر14رجسٹرڈ ووٹرز315کے مقابلے میں1010،این اے 195 پولنگ سٹیشن نمبر88رجسٹرڈ ووٹرز1321کے مقابلے میں1520،این اے 198 پولنگ سٹیشن نمبر101رجسٹرڈ ووٹرز572کے مقابلے میں944،این اے 200پولنگ سٹیشن نمبر1رجسٹرڈ ووٹرز833کے مقابلے میں876،این اے 211 پولنگ سٹیشن نمبر86رجسٹرڈ ووٹرز491کے مقابلے میں982، این اے 217 پولنگ سٹیشن نمبر3رجسٹرڈ ووٹرز1161کے مقابلے میں1254،این اے 218 پولنگ سٹیشن نمبر226رجسٹرڈ ووٹرز803کے مقابلے میں888،این اے 226 پولنگ سٹیشن نمبر132رجسٹرڈ ووٹرز752کے مقابلے میں1068،این اے 229 پولنگ سٹیشن نمبر229رجسٹرڈ ووٹرز709کے مقابلے میں896،این اے 242 پولنگ سٹیشن نمبر2رجسٹرڈ ووٹرز1230کے مقابلے میں1484،این اے 242 پولنگ سٹیشن نمبر80رجسٹرڈ ووٹرز1349کے مقابلے میں2508،این اے 256 پولنگ سٹیشن نمبر63رجسٹرڈ ووٹرز2405کے مقابلے میں2495،این اے 257 پولنگ سٹیشن نمبر129رجسٹرڈ ووٹرز828کے مقابلے میں1210،این اے 262 پولنگ سٹیشن نمبر53رجسٹرڈ ووٹرز315کے مقابلے میں581ووٹ ڈالے گئے بحوالہ http://dunya.com.pk/index.php/pakistan/2013-05-14/131116#.Wzhj39IzbIU حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں50 فیصدٹرن آؤٹ سے زیادہ دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔جبکہ جنرل الیکشن میں سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں وعدوں کے خوب انبار لگاتی ہیں، عوام کو سیکڑوں سرسبز باغ دکھائے جاتے ہیں، ملک کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ بھی ضرور کیا جاتا ہے لیکن دنیا میں ووٹ ڈالے جانے والے ایک سو انہتر ممالک کی فہرست میں پاکستان کا ایک سو چونسٹھ واں نمبر ہے۔
اسے کیا کہیے سیاستدانوں سے ناراضگی یا ان کی پالیسیوں سے اختلافات؟۔ خراب امن و امان کی صورتحال یا پھر سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے اتنی مایوسی کہ دنیا میں ووٹ کاسٹ کرنے کی فہرست میں بھی پاکستانی تقریباً آخری نمبر پر ہیں۔ دنیا کے ایک سو انہتر ممالک میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں پاکستان کا ایک سو چونسٹھ واں نمبر ہے۔ پاکستان میں پینتالیس اعشاریہ صفر تین فیصد ٹرن آؤٹ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے دکھائے گئے۔ سبز باغ بھی عوام کو پولنگ سٹیشن کی طرف کھینچ لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہمسائیہ ملک بھارت کو ہی دیکھ لیں جہاں ووٹ ٹرن آئوٹ کی شرح انسٹھ فیصد ہے۔ ووٹ ڈالنے کے معاملے میں آسٹریلیا والے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہیں جہاں ووٹنگ ٹرن آوٹ کی شرح چورانوے اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں ہر شہری کیلئے ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔ بیلجیئم اکانوے فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ دوسرے جبکہ، نواسی فیصد کے ٹرن آؤٹ کے ساتھ اٹلی تیسرے نمبر پر ہے۔
ٹرن آؤٹ کو بڑھانے کے لئے الیکشن کمیشن سے بھی گزارش ہے کہ ایک ” خانہ خالی” جہاں کوئی نشان الائٹ نہ کیا جائے ہونا چاہیے اور عوام میں اتنا شعور بیدار کیا جائے کہ اگر کوئی بھی امیدوار ان کی پسند کا نہ ہو تو ” ووٹر ” خالی خانے میں نشان / اسٹمپ لگائے ۔ اس طرح ٹرن آؤٹ بڑھ سکتا ہے۔ دوسری بات جیسا کہ دنیا نیوز نے رپورٹ جاری کی ہے جنرل الیکشن برائے 2013 جہاں اصل ووٹوں سے زیادہ کیسے کاسٹ ہو گئے ہیں؟ یہ خفیہ ووٹ نہیں دھاندلی ہے جو ہر صورت رکنی چاہیے اور اس کا بہترین طریقہ بائیومیٹرک سسٹم ہے۔
جہاں تک خفیہ ووٹوں کا تعلق ہے اس سے مراد ایسے حقیقی ووٹرز ہیں جو غیر کاشتکار، غریب مزدور ، اور چھوٹی ذات برادریوں کی وجہ سے بڑے بڑے زمیندار، بڑے بڑے سرمایہ دار اور بڑے بڑے مالدار پاکستان کی سیاست میں فرعون بن کر بڑے تکبر اور گمنڈمیں مبتلا ہیں۔ یقین مانئیے ایسے لوگ غریبوں یتیموں اور کمزوروں کے پاس جاکر ووٹ مانگنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ کچھ سیاستدانوں نے اپنے چاپلوسوں ، چیلوں اور چمچوں کوزمہداری سونپی ہوئی ہوتی ہے کہ ایسے لوگ اگر گھر یا الیکشن آفس آئیں تو چائے ، پانی بریانی اور کھانا کھلا کر فارغ کر دینا۔ اور وہ سادے ۔۔ ہائے سادگی بھی کیا چیز ہے وہ اسی سے خوش ہوکر ووٹ وڈیروں زمینداروں کی گود میں ڈال کر اپنی طرف سے وفا نبھاتے ہیں۔ لیکن ماضی گزر چکا ہے یہ سیاست کے میدان میں آنے والوں کو اب یاد رکھنا ہوگی۔ سیاستدانوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو ان خفیہ ووٹوں کو حاصل کرنے کے لئے ” روپے پیسے کا بے دریخ استعمال کرتے ہیں اس کے لئے باقاعدہ مقامی لوگوں سے بندے خرید ے جاتے ہیں جنکی رپورٹس پر ” روپے تقسیم ” کئیے جاتے ہیں ، پاکستان کی سیاست میں کچھ ایسے بھی سیاستدان یا امیدواروں کے حامی ہیں جو ووٹ گھر جا کر ووٹر کی عزت بڑھا کر ووٹ مانگنے کی بجائے بس اسٹاپ ، پبلک پلیس ، یا راہ چلتے ملنے والوں کو کہتے ہیں ووٹ ہیں بھائی صاحب خیال رکھنا!کچھ امیدواروں کے ایسے بھی سپوٹرز ہیں ” جو سفید پوش طبقے یعنی خفیہ ووٹوں کو حاصل کرنے کے لئے ووٹرز کے گھر نہیں پولنگ اسٹیشن پر چچاجی ماموں جی خالہ باجی تائی نانی اور امی جی کہتے ہوئے ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں !
آخری بات ووٹ ووٹ ہے غریب کا ہو یا امیر کا۔ کاشتکار کا ہو یا غیر زمیندار کا۔ آج پاکستان نے ترقی کی ہے یا نہیں ، امیر ملکوں میں ہے یا غریب ممالک کی صف میں۔قصہ مختصر 50 فیصد پاکستان کے خفیہ ووٹ یعنی مزدور اور غیر کاشکاروں کے ہیں ۔اب اگر کوئی امیدوار کامیاب ہونا چاہتا ہے تو کسی پر بھروسہ کرنے کی بجائے گھر گھر خود جا کر لوگوں سے ملے تو کامیابی کا تناسب100 فیصدہوگا۔ یہ کامیابی پیسے لگانے سے نہیں بلکہ اپنی انا ختم کرنے سے ملتی ہے۔ جو ایسا کرے گا وہ ہی کہے گا خفیہ ووٹ ہی اصل طاقت ہے۔