سعودی عرب اس وقت تبدیلی کے بہت بڑے دور سے گذر رہا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مملکت میں اصلاحات کی جانب سے تمام اپنی تمام توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ ۔سعودی ولی عہد نے مغرب ممالک کے ساتھ اربوں ڈالرز کے معاہدے طے کئے ۔سعودی عرب اور اسپین کے درمیان دفاع، فضائی ٹرانسپورٹ، تعلیم،ثقافت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ سے متعلق چھ سمجھوتے اور معاہدے طے پائے ہیں۔سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے اسپین کے دورے کے موقع پر ، دونوں ملکوں کے حکام نے ان معاہدوں، سمجھوتوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے۔اس سے قبل ولی عہد نے اسپین کے شاہ فلیپ ششم سے ملاقات کی تھی۔ اسپین کے دورے سے قبل سعودی ولی عہد نے فرانس کے ساتھ20ارب ڈالر مالیت کے 38معاہدوں پر دستخط کئے تھے ۔گزشتہ تین روزہ فرانس کے دورے میں سعودی ولی عہد نے دو مرتبہ فرانسیسی صدر سے ملاقات کی تھی جس میں 20 ارب ڈالر مالیت کے مختلف نوعیت کے38معاہدے طے پائے گئے۔ فرانسیسی صدر کے ممکنہ دورہ ایران کے حوالے سے بھی تفصیلی بات چیت ہوئی اور سعودی موقف کو سنا گیا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے پہلے باضابطہ دورے میں سعودی عرب روانگی سے قبل سعودی وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر کا کہنا تھا کہ ‘یہ اسلامی دنیا کے لیے بہت بھرپور پیغام ہے کہ امریکہ اور مغرب آپ کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ مغرب کے لیے بھی بھرپور پیغام ہے کہ اسلام آپ کا دشمن نہیں ہے۔’سعودی وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ’اس دورے سے اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان عموماً اور امریکہ کے درمیان خصوصاً مکالمہ بدل جائے گا۔ یہ شدت پسندوں کو تنہا کر دے گا، چاہے وہ ایران ہو، دولتِ اسلامیہ ہو یا القاعدہ ہو، جو کہتے ہیں کہ مغرب ہمارا دشمن ہے۔’امریکی صدر کا سعودی عرب دورے میں پرتپاک استقبال اور صدر ٹرمپ کو دو بڑی قومی اعزازت دیئے گئے تھے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2017میں 15کلیدی نوعیت کے طویل المدتی اسٹریٹجک ڈویژن کے تقریباََ350ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط بھی کئے تھے۔ جس میں 110ارب ڈالر کے فوجی آلات و سامان کی خریداری بھی شامل ہے۔توقع ظاہر کی گئی کہ آئندہ برسوں میں سعودی عرب اور امریکا کے درمیان معاہدوں کا حجم 3کھرب50ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گا۔
سعودی ولی عہد مارچ میں برطانیہ کی دعوت پر پہلا باقاعدہ دورہ بھی کرچکے تھے ۔ جہاں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم نے شاہی محل میں ان کا استقبال کیا۔محمد بن سلمان نے شہزادہ چارلس اور وزیر اعظم تھریسامے سے بھی ملاقات کی تھی۔برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق 100ارب ڈالرز کے معاہدے بھی طے پائے گئے ۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکا کے بعد سعودی عرب میں برطانیہ سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تقریباََ300مشترکہ منصوبے ہیں ،جن میں سرمایہ کاری کا مجموعی حجم ساڑھے 17ارب ڈالر کے قریب ہے۔گزشتہ پانچ برسوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم 2.3ارب پائونڈ تک پہنچ چکا ہے ۔اسی طرح سعودی 2030ویژن کے لئے برطانوی کمپنیوں سے بھی بڑے معاہدے کئے گئے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب مشرق وسطی میں برطانیہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ماسکو کا دورہ کیا اور مختلف نوعیت کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ دفاعی نوعیت کے بھی اربوں ڈالر کے معاہدے کئے۔سعودی عرب نے روس سے اہم ترین دفاعی ائیر بیس سسٹم ایس۔400 خریدنے کا بھی معاہدہ کیا جس کی مالیت 3ارب ڈالرز سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ گزشتہ برس سعودی سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے چین کا بھی دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے چینی حکام کے ساتھ 65 ملین ڈالر کے معاہدے کیے۔
سعودی عرب اپنے نئے معاشی ویژن پر بھی تیزی سے گامزن ہے اور اپنے دفاعی اخراجات میں بھی متواتر اضافہ کررہا ہے ۔دوسری جانب اپنی معاشی صورتحال کے لئے قدامت پسندی سے جدت پسندی کی جانب بھی گامزن ہے ۔ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے اہم ممالک سے معاشی اور دفاعی معاہدے کئے اس کے بعد نئے ولی عہد نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے شاہی خاندان میں بدعنوانیوں اور کرپشن کے خلاف بڑی کاروائیاں کیں ۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب کو قدامت پسند معاشرے کے خول سے جدت پسندی کے دائرے میں لانے کے لئے انقلابی اقدامات شروع کردیئے اور ایک طویل المدتی عظیم منصوبے ویژن2030کی بنیاد رکھ دی اور سعودیہ میں اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ سعودی عرب کے مقابلے میں ایران عالمی پابندیوں کے سبب عالمی قوتوں سے اہم معاہدے نہیں کرسکا تھا ۔ تاہم بیشر معاہدوں میں روس ، قطر اور ترکی کے علاوہ بھارت کے ساتھ ایران کے مختلف نوعیت کے معاہدے ہوچکے ہیں۔ نومبر2017میں ایران نے ترکی اور قطر کے ساتھ ملکر ایک مشترکہ گروپ تشکیل دیا ۔ ان تینوں ممالک میں تجارتی نقل و حمل کی سہولت پر مبنی معاہدے بھی کئے ،اس مشترکہ گروپ کا ہر تین سال بعد اجلاس بھی منعقد کیا جاتا رہے گا۔اگست2017 میں ایران اور روس کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ طے پایا تھا ۔
روسی ایجنسی انٹرفیکس نے الیگزینڈر نوواک کے حوالے سے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ تیل کے بدلے خوراک کے اس معاہدے کے تحت روزانہ ایک لاکھ ایرانی تیل کی فروخت عمل میں آئے گی، یہ مقدار ایک سال کے اندر 50 لاکھ ٹن کے قریب بنتی ہے۔انٹرفیکس کے مطابق ایران میں روسی تجارت کے نمائندے آندرے لوگانسکی نے بتایا ہے کہ اس پروگرام کے تحت ماسکو ایک سال کے اندر 45 ارب ڈالر کا سامان تہران برآمد کرے گا۔ایران کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ بتاتے ہیں کہ ہمدان کا فضائی اڈا بھی روس کے حوالے کیا گیا ہے۔ایران ڈیمو کرٹیک فرنٹ نے ایرانی عسکری اڈوں کا روس کو پیش کرنے، ایران کے ساتھ روس کے ساتھ عسکری معاہدوں اور مشرو ق مغرب کے ساتھ تیل اور اقتصادی معاہدوں پر ایرانی کی پالیسی کو نشانہ بنایا ہے کہ ” نہ مشرق و نہ مغرب ” کے نعروں کی قلعی کھل چکی ہے۔اصلاح پسند ایرانی ر ہنما عبداللہ رمضان زادہ کا کہنا ہے کہ” جب تک شام میں ایران، روس کی ضرورت پوری کرتا رہے گا اس وقت تک روس تہران کے ساتھ ہے لیکن ضرورت پوری ہوتے ہی روس پیٹھ میں چھرا گھونپ دے گا۔
اس وقت ایران پر روسی غلبے کا زور ہے۔”اسی طرح ایران نے چاہ بہار بندرگاہ کے ایک حصے کا آپریشنل کنٹرول بھارت کو18مہینے کی لیز پر دیتے ہوئے مزید9 معاہدوں پر بھی دستخط کرچکا ہے۔بھارت جنوبی ایران کے آئل فیلڈز سے تیل اور گیس نکالنے کا ایرانی حکومت سے معاہدہ چاہتا ہے ۔ جس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔جبکہ2016میں ایران ، افغانستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی راہدری بنانے کے معاہدہ ہوچکا ہے۔ جس کی ایک شکل چاہ بہار بندرگاہ کی صورت میں آچکی ہے۔جبکہ پاکستان کے ساتھ کئے جانے والا گیس پائپ لائن کا معاہدہ عالمی پابندیوں کی وجہ سے مکمل نہیں ہوسکا ۔ ایران اور پاکستان کے درمیان بینکنگ سیکٹر میں معاہدے میں پیش رفت کا نہ ہونا بھی مسلسل مسائل کا شکار ہیں ۔ ایران کا موقف ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم ایک ارب ڈالر جبکہ پاکستان کے مطابق 318ملین ڈالر ہے لیکن بینکنگ چینل نہ ہونے کے سبب درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔سعودی عرب اور ایران کے معاشی ویژن اور طاقت کے توازن میں نمایاں فرق ہے ۔
دونوں ممالک دو بڑی عالمی قوتوں کے قریب ترین اتحادی بھی ہیں ۔ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان محاذ آرائی کا فائدہ مغربی ممالک کو ہی پہنچا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کے تناظر میں مغربی بلاک سونے کے چمچے سے نوالے لے رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا فائدہ مغربی ممالک اٹھا رہے ہیں۔ حال ہی میں قطر کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں دوبارہ بہتری کے آثار ثابت کرتے ہیں کہ امریکا کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔
عرب ممالک کی نرم پالیسی کی وجہ سے ہی فلسطین و کشمیر میں اسرائیل و بھارت کی جارحیت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ عرب ممالک کے نزدیک ایران کی پالیساں ان کے اقتدار کے لئے خطرات کا سبب ہیں اس لئے ان کی جانب سے ایران مخالف اتحاد میں شامل ممالک کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی بھی مایوس کن ہے ۔ آنے والا وقت اس کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے ۔ توقع یہی ظاہر کی جا رہی ہے کہ پاکستان ان دونوں ممالک میں ثالث بن کر کوئی تاریخی کردار ادا کرسکتا ہے جس سے دونوں ممالک کسی مشترکہ نکتے پر متفق ہوں تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکا جاسکتا ہے۔ ایران کے خلاف سلامتی کونسل براہ راست مداخلت نہیں کرسکتی ۔ تاہممغربی بلاک سعودی عرب اور ایران کے درمیان براہ راست جنگ کے لئے میدان تیار کررہا ہے کیونکہ اس عمل سے امریکا ، روس اور مغربی بلاک کو ہر صورت فائدہ ہی ملے گا ۔ روڈ، سی پیک منصوبے کی کامیابی پر منحصر ہے۔ سی پیک کی کامیابی اور حفاظت کے بعد ہی پاکستان عالمی معاشی نظام کا کلیدی کردار بننے کے بعد قابل ذکر کوشش کرسکتا ہے۔