قرآن حکیم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں پہلی مسجد جب تعمیر کی گئی اس وقت اس کو تعمیر کرنے والے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی وہ کس قدر پر مغز ،اثرپذیر اور دیر پاتھی۔کہا کہ: وَِذْ یَرْفَعُ ِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْْتِ وَِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْْنِ لَکَ وَمِن ذُرِّیَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْْنَا ِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْہِمْ ِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْمُ۔ترجمہ:اور یا د کرو ابراھیم اور اسماعیل جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے ، تو دعا کرتے جاتے تھے، اے ہمارے رب ، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا ، اور ہماری کوتاہیو ں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب ، ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو ، جو انھیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔(البقرہ:١٢٧- ١٢٩)
دعا کی قبولیت ہی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ایک طویل مدت اپنے ابنیا کرام بھیج کر ،انہیں شرف و منزلت بخشی۔وہیں دعا کے آخری حصہ کی قبولیت کی شکل میں حضرت اسماعیل کی نسل سے خاتم البنیاء حضرت محمد صلی اللہ عیلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔اور اس پورے عرصہ میں اور تاقیامت خدا کے اس گھر خانہ کعبہ سے دنیا فیض یاب ہوتی رہے گی۔وہیں یہ بات بھی واضح فرمادی کہ وہ لوگ جو اس عظیم متبرک گھر اور اس کے اطراف مسجد الحرام کے خادم رہے یا رہیں گے،ان میں سے صرف کامیاب وہی ہوں گے جو اللہ پر اور روز ہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔اور اس یقین کے نتیجہ میں نہ صرف ان کے اعمال شہادت پیش کرتے ہیں بلکہ ان کی زندگیاں اللہ کی راہ میں جانفشانی کرتے ہوئے گزرتی ہیں اور ان تمام لوگوں کو حوصلہ بخشتی ہیں،جو دنیا میں اللہ کے دین پر نہ صرف عمل کرنے والے ہیں بلکہ اس کے قیام میں سرگرم عمل رہنے والے بھی ہیں۔برخلاف اس کے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو بظاہر انسانوں کے درمیان کامیاب محسوس ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ اللہ کے نزدیک ناکام ترین لوگ ہیں۔اور یہ دونوں ہی طرح کے افراد و گروہ یکساں ہیں ہیں۔کہا کہ:ِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَلَمْ یَخْشَ ِلاَّ اللّہَ فَعَسَی أُوْلَئِکَ أَن یَکُونُواْ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ۔ أَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَجَاہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ لاَ یَسْتَوُونَ عِندَ اللّہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ۔ترجمہ:اللہ کی مسجدوں کے آبا د کا رمجاور و خادم تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نمازقائم کریں،زکوٰةدیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے ، کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزآخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا (التوبہ١٧-١٨)۔
وہیں چند ایسے لوگوں کا بھی تذکرہ بطور یاددہانی کیا گیا ہے جنہوں نے اللہ کے گھریعنی مسجد کی تعمیر اس غرض سے کی کہ وہ اللہ کے دین کو مغلوب کردیں گے،نقصان پہنچائیں گے،رسوا کریں گے،اور مسلمانوں کے درمیاں پھوٹ ڈالنے کا ذریعہ بنائیں گے۔قرآن حکیم اپنے الفاظ میں ایک پورا واقعہ پیش کرتا ہے۔کہا کہ: وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ مَسْجِداً ضِرَاراً وَکُفْراً وَتَفْرِیْقاً بَیْْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَِرْصَاداً لِّمَنْ حَارَبَ اللّہَ وَرَسُولَہُ مِن قَبْلُ وَلَیَحْلِفَنَّ ِنْ أَرَدْنَا ِلاَّ الْحُسْنَی وَاللّہُ یَشْہَدُ ِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ۔ لاَ تَقُمْ فِیْہِ أَبَداً لَّمَسْجِد أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَال یُحِبُّونَ أَن یَتَطَہَّرُواْ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ۔ أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلَی تَقْوَی مِنَ اللّہِ وَرِضْوَانٍ خَیْْر أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلَیَ شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہِ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ۔ لاَ یَزَالُ بُنْیَانُہُمُ الَّذِیْ بَنَوْاْ رِیْبَةً فِیْ قُلُوبِہِمْ ِلاَّ أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُہُمْ وَاللّہُ عَلِیْم حَکِیْم۔ ترجمہ:کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے کہ دعوت حق کو نقصان پہنچائیں، اورخدا کی بندگی کرنے کے بجائے کفر کریں، اور اہل ایمان میں پھوٹ ڈالیں، اوراس بظاہر عبادت گاہ کو اس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اس کے رسول ۖ کے خلاف بر سر پیکار ہو چکا ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا دوسری چیز کا نہ تھا۔ مگر اللہ گواہ ہے وہ قطعی جھوٹے ہیں۔ تم ہر گز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں عبادت کے لیے کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔
پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے یقینی کی جڑ بنی رہے گی جس کے نکلنے کی اب کوئی صورت نہیں بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہو جائیں۔ اللہ نہایت با خبر اور حکیم و دانا ہے(التوبہ:١٠٧-١١٠)۔اس واقعہ اور غضبناک انداز کی اس گفتگو میں جہاں مخصوص لوگوں کو متوجہ کیا گیا ہے وہیں ہر زمانے کے ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو اسلام کے نام پر کسی بھی سطح پر اور کسی بھی طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے اللہ کے دین کو مغلوب کرنے کی ناکام کوششوں میں یا اس کو رسواکرنے میں یا پھر مسلمانوں کے درمیاں پھوٹ ڈالنے میں ،سعی و جہد میں مصروف ہیں، وہ تمام افراد و گروہ ، آخر کار دنیا و آخرت میں رسوائی کا شکار ہوں گے ۔لیکن امت کے باشعور فرد ہونے کی حیثیت سے ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس طرح کے افراد و گروہ کی نہ صرف نشاندہی کریں ،ان سے دوری بنائے رکھیں،ان سے کسی بھی کام میں اشتراک نہ کریں ،ساتھ ہی ساتھ اسلام کی صحیح اور واضح انداز میں اس کی تعلیمات کو عام بھی کریں۔
مساجد ہی کے تعلق سے اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں یہ بھی فرماتا ہے کہ :وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّہِ أَحَداً ۔ ترجمہ: اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا ن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو(الجن:١٨)۔جس کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے بالعموم”مساجد”کو عبادت گاہوں کے معنی میں لیا ہے ۔ اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت گاہوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ زمین پوری کی پوری عبادت گاہ ہے ا ور آیت کا منشا یہ ہے کہ خدا کی زمین پر کہیں بھی شرک نہ کیا جائے۔ ان کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے ہے”میرے لیے پوری زمین عبادت کی جگہ اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے”۔ حضرت سعید بن جبیر نے مساجد سے مراد وہ اعضاء لیے ہیں جن پر آدمی سجدہ کرتا ہے، یعنی ہاتھ ، گھٹنے ، قدم اور پیشانی۔ اس تفسیر کی رو سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعضاء اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ ان پر ا للہ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ نہ کیا جائے۔وہیں سجدے کے دوسرے معنی اپنے آپ کو کسی کے سامنے مکمل طور پر اس کے حوالے کردینے کے ہیں۔ لہذا ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے افکار و نظریات ،اعمال و تصورات نیز ہماری صلاحیتیں اور وسائل کس کے حوالے ہیں؟اور کہاں اور کن سرگرمیوں میں صرف ہورہے ہیں! ۔۔۔۔۔(جاری)