آج کا مضمون لکھنے کا خیال ایک بے باق،بے تیغ سپاہی ،نڈر،طوفانوں سے لڑنے والے سینئرصحافی اور قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کے حفاظت میں جانیں لڑا دینے والے ایک صحافی کا نواز شریف بارے مضمون پڑھ کر ہوا۔ اور ان جیسے کچھ دوسرے صحافیوں کی سوچ پر بھی تبصرہ کرنامقصود ہے جو انہوں نے انہوں نے نااہل وزیر اعظم کے متعلق اپنا رکھا ہے۔ پہلے یہ عرض کرنا ہے کہ دو قومی نظریہ کے حامی صحافیوں کو مجھ سمیت دو قومی نظریہ سے محبت رکھنے والے دیگر لوگ اس وقت سے مطالعہ کرتے رہے ہیں اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جب سے انہوں نے اپنے رسالے اور اخبار شائع کرنے شروع کیے تھے۔ میرے دوست سینئر صحافی اور کچھ دوسرے صحافی حضرات نے نواز شریف صاحب کے بیانہ سے اتفاق کرتے ہوئے، فوج کے کردار،عدلیہ کے فیصلہ، خلائی مخلوق کی کاروائیوں،سینٹ کے ممبران کے چنائواور سینیٹ کے انتخابات، اور موجودہ الیکشن پر بحث بھی کی۔ جو معمولی اختلافات کے ساتھ اگر صحیح بھی مان لیے جائیں تو بہتر ہوتا کہ ان کے کردار کو بھی زیر بحث لاتے تو شاید سینئر صحافی سمجھتے ہوئے ہم ان کی باتیں ہضم کر لیتے۔
گزارش یہ کرنی ہے کہ کیا نواز شریف نے نظریہ پاکستان کی نفی نہیں کی؟ ہم اس سلسلے میں قائد اعظم کا بیان اور نواز شریف کا بیان قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔قائد اعظم نے دو قومی نظریہ یعنی نظریہ پاکستان کی تشریع کرتے ہوئے ٢٣ مارچ ١٩٤٠ء میں لاہور میں فرمایا”ہم مسلمان ہندوئوں سے علیحدہ قوم ہیں،ہمارا کلچر، ہماری ثقافت ، ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا ہمارا معاشرہ ان سے یک سر مختلف ہے”اس کی نفی کرتے ہوئے اقتدار کے زعم میں مبتلا نواز شریف نے اسی لاہور میں١٤اگست ٢٠١١ء کو فرماتے ہیں ”ہم مسلمان اورہندو ایک قوم ہیں۔ہمارا ایک ہی کلچر۔ایک ہی ثقافت ہے۔ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیں۔صرف درمیان میں ایک سرحد فرق ہے”کیا ساری عمر نظریہ پاکستان جو بانی پاکستان کا بیان کردہ دو قومی نظریہ ہے ،کے حق میں لڑنے والے دو قومی نظریہ کے محافظ میرے پیارے صحافی بھائی نے ان بیان کا تجزیہ نہیں کیا؟ اس بیان کے چند ہی روز بعد لاہور کے نوائے وقت نے اپنے اداریے میںنواز شریف کے اس بیان پر گرفت کی تھی۔ دو قومی نظریہ کے حامی عوام کو یہ معلوم ہے یہ بیان کانگریس کے بیانیے، کہ قومیں اُوطان یعنی وطن سے بنتیں ہیں اور سیکولر نظام ِحکومت کے بیانیے اور تقسیم کے وقت ہندوئوں لیڈروں کے ذہن کے بل لکل مطابقت رکھتا ہے ۔ انہوں نے تقسیم کے وقت نہیں کہا تھاکہ جب جب دو قومی نظریہ کمزور پڑتا جائے گا ہم پھر پاکستان کو اپنے ساتھ ملا کراکھنڈ بھارت مکمل کر لیں گے۔اس کی تعبیر پاکستان کو دو ٹکڑے کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے اس طرح کی تھی۔” ہم نے قائد اعظم کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیاہے۔مسلمانوں سے ہند وستان پر ایک ہزار سال حکومت کرنے کا بدلہ بھی لے لیا’۔
جمہوری طرز حکومت میںاقتدار آنی جانی چیز ہے آج کوئی ہے تو کل کوئی اور۔ مملکت پر کبھی بھی حرف نہیں آتا۔ مگر اقتدار سے باہرہونے کے بعد نواز شریف نے مملکت اسلامی جمہوریہ، مثل مدینہ ریاست پر یہ کہہ کر حملہ کر دیا کہ شیخ مجیب صحیح تھا اور ریاست صحیح نہیں تھی۔ جب کہ پاکستان میں مشہور و معروف ہے کہ شیخ مجیب غدارِ وطن ہے۔ شیخ مجیب کے دیے گئے ایک انٹر ویو کے مطابق اس نے ١٩٤٨ء سے ہی پاکستان توڑنے کی مہم شروع کر دی تھی۔حوالہ ڈاکٹر صفدر مضمون رسالہ ترجمان القرآن ماہ فروری ٢٠١٨ئ۔ نواز شریف کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اقتدار سے ہٹایا۔ کیا یہ ان ہونی چیز ہے ۔اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظموں کو اقتدار سے ہٹا چکی ہی ہے۔ انہوں نے تو مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حملہ نہیں کیا۔ کیا کبھی پاکستان کے کسی بھی حکومت کے وزیر اعظم اپنی حکومت پر یہ الزام لگایاہے کہ دہشت گردی میں پاکستان کی حکومت شامل ہے۔ نواز شریف نے ڈان کے صحافی المیڈاکو خصوصی طورپر ملتان بلا کر انٹر ویو دیا اور کہا کہ حکومت لوگوں کو سرحد پار نہ کرنے دیتی تو ممبئی میں لوگ ہلاک نہ ہوتے۔ جبکہ جرمن کے صحافی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ یہ بھارت اسرائیل اور امریکا کی سازش ہے۔
اسی المیڈا کو قومی سلامتی کی میٹنگ کی خفیہ کاروائی کی روداد بتائی نواز شریف کو اس پر اپنے وزیر اطلاعات کو فارغ کرنا پڑا۔ کبھی بھی کسی بھی پاکستان کے سپہ سالار سے نواز شریف کی نہیں بنی۔ہم نہیں کہتے کہ ہماری فوج دودھ کی دلی ہوئی ہے۔مگر نوازشریف نے تو حد کر دی۔ کیا یہ ان کی طرف پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو خوش کرنے کی کوشش تو نہیں ؟ پاکستان کے دشمن اور گریٹ گیم کے سرغنے، ایٹمی و میزائل اور اسلامی پاکستان کی فوج کو کمزور کرنے کے لیے ،کبھی روگ فوج ،بھی کرایا کی فوج اور نہ جانے کون کون کونسے الزامات سے لگاتے رہتے ہیں۔کیاان قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کہ نواز شریف ہمیشہ فوج سے لڑتے رہے ہیں؟ ٢٠١٣ء کے انتخابات میں وقت ختم ہونے سے قریب ایک دو گھنٹہ پہلے کہتے سنے گئے کہ مجھے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے ۔ نواز شریف کے سیاسی مخالف کہتے ہیںیہ کیا ان لوگوں کو ہی کہا گیا تھا؟۔کیا کوئی حکمران پاکستان کے آئین میں ختم بنوت کے طے شدہ دفعات کو ختم کرنے کی جسارت کر سکتا ہے.ہاں اسی نواز شریف نے ایسی جسارت کی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دینی جماعتوں اور عوام کی گرفت کرنے پر اپنے وزیر قانون کوبے دخل کرنا پڑا۔ نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم بن چکا ہے۔ لوگ اسے مغل شہزادہ کہنے لگے ہیں۔
کیا ساری عمر لکھوا کر لایا ہے کہ اقتدار میں اسی کو رہنا ہے کسی اور نون لیگی کو موقعہ ملنا چاہیے ؟ دیر تک اقتدار میں رہنے سے نواز شریف میں تکبر پیدا ہو گیا تھا۔ اسی لیے امریکا کے صدور کو بھی دو دفعہ ہی موقعہ دیا جاتا ہے۔جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو کہنے والے کہتے ہیں نواز شریف صاحب جب اقتدار میں نہیں تھا تو اس کاوالد صاحب لوہاکوٹتا تھا۔ ایک اتفاق فوئنڈری سے ١٣ ملیں کیس بن گئیں۔ لندن میں جائدادیں کیسے بن گئیں۔ سب کچھ سامنے نظر آرہا ہے اس سے زیادہ اور ثبوت کی ضرورت ہی نہیں ہے؟یہ نواز شریف کو ثابت کرنا اور منی ٹرائیل دینا تھا۔نہ ہی منی ٹرائیل دی اور نہ کوئی اور ثبوت صرف ایک قطری۔جب قانون کی گرفت میں آیا تو قطری شہزادے نے بیان دینے سے انکار کر دیا ۔ اب کہتا ہے مجھے کیوں نکالا۔ اب قانون کے مطابق جیل کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔کیوں کہ سب قوتوں نے این اور آر سے انکار کر دیا۔ سیدھے طریقے سے پاکستان کے غریب عوام کا لوٹا ہوا پیسا خزانے میں جمع کروا دو عوام سے این اور آر کرو عوام معاف کر دیں گے۔
اس وقت دو قومی نظریہ کے دشمن تو دشمن ، اپنے بھی مخالف ہو گئے۔ اپنے بھی کیا جن کو عوام نے مسلم لیگ کے پیلٹ فارم جو دقوی نظریہ کی بانی اور قائد اعظم ، بانی پاکستان کی جماعت کے پیلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے نواز شریف دو قومی نظریہ کی مخالفت پر اُتر آئے ہیں۔ ددو قومی نظریہ کے حامی صحافی کی پہلے سے زیادہ جد وجہد کی ضرورت ہے۔ہماری گزارش ہے کہ چھوٹے چھوٹے واقعات، فوج اور عدلیہ کے فیصلوں کو ایک طرف رکھ کر مملکت کے بڑے کنویس کو سامنے رکھتے ہوئے حکمرانوں کو تولتے رہا کریں۔ اس راستہ سے اگر حکمران ہٹ جائیں تو ان کے خلاف جہاد کریں ورنہ عوام سمجھنے لگیں گے کہ دو قومی نظریہ کے محافظ سینئر صحافی بھی سیکولر پاکستان دشمن قوتوں کے سامنے تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔اللہ کرے ہماری شگون غلط ہو۔حکمران تو آنی جانی شے ہیں۔ مملکت اسلامی جمہوریہ، مثل مدینہ ریاست پاکستان نے باقی رہنا ہے۔اللہ اس کی حفاظت فرمائے۔آمین۔