2013 میں جب نواز شریف کی حکومت بنی تو میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ،،کیا پاکستان کو فوج کی ضرورت نہیں؟،،اس میں میں نے معروف بھارتی صحافی ڈاکٹر پرتاپ ویدک کے ان آرٹیکلز کو موضوع بنایا تھا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ماڈل ٹائون والے گھر میں نواز شریف کے ساتھ ساری رات الیکشن رزلٹ دیکھتے رہے ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ الیکشن عمران خان جیت جاتے تو بھارت سمجھتا فوج دوسرے دروازے سے آکر تخت پر بیٹھ گئی ہے گویا یہ خواہشات کا کھیل بھارت کے ساتھ مل کر کھیلا گیا یہی وجہ تھی کہ قدم قدم پر پاک فوج کو نشانہ بنایا گیا خارجہ پالیسزایسی بنائی گئیں کہ فوج بدنام ہو وزارت خارجہ اپنے ہاتھ میں رکھی گئی جس کی وجہ سے ملک کا کوئی وکیل نہ رہا پاکستان ناکام خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے تنہا ہوتا گیا ہر فورم میں ہارنے کے باوجود پاک فوج جس طرح بھی ہو سکا ملک کا دفاع کرتی رہی ،جانیں دیتی رہی امریکہ کے ڈومور کے آگے سینہ سپر رہی، اپنوں کی غداری کے زخم سہتی رہی ٹرمپ انتظامیہ نے بھی ہر حربہ استعمال کر کے دیکھ لیا کبھی اقتصادی پابندیاں،کبھی ڈرون حملوں کی دھمکی ،کبھی دہشت گرد ملک قرار دینے کی گیدڑ بھبھکی ،پاکستانی حکمران بھی اپنے ایلچیوں اور خطوں کے زریعے اپنی ہی فوج کے خلاف شکائیتیں لگاتے رہے لیکن جنرل باجوہ نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کو انہی کی زبان میں جواب دیا۔
روسی میڈیا نے بھی کچھ حقائق سامنے رکھے اور امریکہ کو باور کرایا امریکہ پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح دھمکانا بند کرے ،پاکستان اس خطے کی اصل طاقت ہے پاکستان کی سٹریجک لوکیشن نہایت اہمیت کی حامل ہے اس کے علاوہ پاکستان ایک نیوکلیئر سٹیٹ بھی ہے اور شمالی کوریا سے کہیں زیادہ طاقتور اور خطرناک ہے اب ٹرمپ انتظامیہ مکمل طور پر ہر چیز دیکھ کر ،پاکستان کی روس کے ساتھ بڑھتی قربتیں ،یورپی ممالک کے چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات ،ترکی جیسے اتحادی کا ہاتھ سے نکل جانا ،امریکہ کے لیے پریشان کن ہے یاد رہے اسی خدشے کے پیش نظر ترکی کے ہاتھوں شام میں روسی لڑاکا طیارہ تباہ کروایا گیا تھا مگر روس نے سمجھداری سے کام لیا اور امریکی پلان کو سمجھ گیا پھر امریکہ نے روسی سفیر کو ترکی میں مروا کر دوبارہ روس اور ترکی کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی مگر اس بار بھی امریکہ کو منہ کی کھانا پڑی ،امریکہ کو پاکستان کے اندرونی حالات خراب کرنے پر پاکستانی فوج کا صبروتحمل اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کا ردعمل دیکھ کر اب ٹرمپ انتظامیہ اہستہ اہستہ اپنے رویے میں نرمی لا رہی ہے اور یہی چیز میاں شہباز شریف کو جی ایچ کیو کی طرف لے گئی کہ آج ان کا بیان تھا ہم جرنیلوں کے ساتھ بیٹھ کر نیا عمرانی معاہدہ کرنے کو تیار ہیں عمرانی معاہدے کا مطلب کوئی عمران خان کا معاہدہ نہیں ہے یہ سیدھا سیدھا اپنی ناکامی کا اعتراف ہے کہ اب ہمیں مکمل طور پر ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔
یہ نظام نہ تو عوام کو کچھ ڈیلورکر سکا نہ ملک کو آگے بڑھا سکا آج ملک ایک فلاپ ریاست کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں صاف پانی ،بجلی ،گیس ،تعلیم ،صحت کی سہولیات ،کامیاب معاشی پالیسی کچھ بھی نہیں مشرف اس ملک میں بہت کچھ چھوڑ گئے تھے لیکن دس گیارہ سال میں نام نہاد جمہوریت نے عوامی امنگوں کا جنازہ نکال دیا زرداری اور نواز شریف دونوں کی تمام وقت یہی کوشش رہی کہ فوج کو اس ملک سے ختم کر دیا جائے مگر پوری دنیا کے ساتھ ساتھ اب امریکہ بھی جان گیا ہے کہ افغانستان میں اسے پاکستان کی ضرورت ہے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی وہ بے بس ہے شروع میں ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو بہت ہلکا لے لیا تھا مگر اب عقل آنے لگی ہے کہ اس خطے کی اصل طاقت پاکستانی فوج ہے ٹرمپ ایک سپرپاور کا صدر ہوتے ہوئے بھی ایک نیوکلیئر سٹیٹ کو دھمکیاں دے رہا تھا اس سلسلے میں شمالی کوریا کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ پوری دنیا کو اس بات کا خدشہ تھا امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی کیونکہ ٹرمپ طاقت کے نشے میں یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ کسی ملک میں یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ امریکہ پر اپنا ہتھیار چلا سکے لیکن جب امریکی نیوکلیئر کمانڈر جنرل جان بیٹن نے اپنے ایک انٹر ویو میں کہا کہ اگر ٹرمپ مجھے کسی ملک پر ایٹمی حملہ کرنے کا کہتے ہیں تو ہم ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں اس عمل سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔
اس کے بعد ٹرمپ نے اپنے رویے میں نرمی لانا شروع کر دی اور سب نے دیکھا دھمکیاں دینے والا ٹرمپ کس طرح شمالی کوریا کے صدر سے ملنے گیا ملاقات کے وقت ٹرمپ کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا ملاقاتکے بعد ٹرمپ نے اپنی قوم سے کہا اب وہ سکون سے سوئے کیونکہ اب شمالی کوریا امریکہ کے لیے خطرہ نہیں رہا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کس قدر ڈرا ہوا تھا کہ امریکیوں کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں اگر شمالی کوریا جیسا ملک امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے جس کے پاس نہ اتنی بڑی طاقتور فوج ہے نہ ہی پاکستان جتنے ایٹمی ہتھیار ،پاکستان کی تینوں مسلح افواج شمالی کوریا کی تینوں افواج سے کہیں زیادہ اسلحے سے لیس ہیں مشرف نے امریکہ کے ساتھ یہی ڈبل گیم تو کھیلی تھی کہ اپنی افواج کو جدید میزائل ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں سے لیس کر دیا جس کی مشرف کو امریکہ معافی نہیں دے رہا وہ کہتا ہے مشرف نے سب سے زیادہ امریکہ کو نقصان پہنچایا ہے اسی بنیاد پر زرداری اور نواز کو حکومتیں ملی کہ وہ ساری تلافی کر دیں گے پاکستان کو امریکہ کے آگے گھٹنوں کے بل گرنے پر مجبور کر دیں گے بس اس فوج کو امریکہ زیر کر لے لیکن اللہ نے ان بیغیرتوں کو پھر بھی ناکام کیا یہ پاکستان کو سوائے قرضوں میں ڈبونے کے اور کچھ نہ کر سکے اور اب خود عدالتوں میں خوار ہو رہے ہیں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے دشمنوں کو دبنگ جواب دیا تھا کہ پاکستان کے دشمن چاہے مشرق میں ہوں چاہے مغرب میں دشمن کی گولیاں تو ختم ہو جائیں گی مگر ہمارے سینے نہیں ،مسٹر ٹرمپ اب پاکستان سے اپیل کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے افغان طالبان سے مذاکرات کروائیں لیکن پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسیاں اس امریکی پلان کو سمجھتی ہیں امریکہ افغان طالبان کو مذاکرات کی آڑ میں حملہ کر کے شدید نقصان دینا چاہتا ہے جس کے بعد سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جائے گا لیکن باجوہ انتظامیہ نے امریکہ کو پھنسا کر بچایا ہوا ہے ملا فضل اللہ کا سر ایک تحفہ دیا ہے یاد رہے اس تحفے سے دو دن پہلے پاک آرمی چیف افغانستان گئے تھے اور امریکہ سے ڈو مور کا کہہ کر آئے تھے۔
یہ وہی امریکہ ہے جو پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کر کے مسلسل ڈومور کا مطالبہ کرتا آیا ہے مگر باجوہ صاحب کو سلام جنھوں نے ایک نہ سنی امریکہ نے یہ تحفہ پاکستان کو اس لیے دیا کہ پاکستان اس کے بعد امریکہ سے تعلقات بہتر کر لے گا لیکن یہاں گیم الٹ کر دی گئی ہے اب دو نمبر طالبان یعنی ٹی ٹی پی جسے بھارت اور امریکہ نے مل کر بنایا تھا بھی امریکہ کے خلاف اترے گی اور اسلامی امارات تو پہلے ہی ان کے لیے تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہے 2018 کے آخر میں یا 2019کے شروع میں امریکہ ہر صورت بھاگے گا اوپر سے سیاسی حالات کچھ اس طرح بن رہے ہیں کہ پاکستان میں نواز ،زرداری،الطاف جیسے ساتھی مکمل طور پر فلاپ ہو چکے ہیں امریکہ کا حال بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے اکانومی میں بہت بڑا ڈینٹ پڑنے والا ہے کیونکہ زیادہ تر اسلحہ خریدنے والے ممالک روس کی طرف جا رہے ہیں اور امریکہ اسلحہ ساز کمپنیوں کے سر پہ ہی چل رہا ہے۔
امریکہ قرضوں میں ڈوب چکا ہے اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں دن بدن اسلامی امارات کے بڑھتے ہوئے حملوں سے شدید نقصان ،نیٹو کا اندر سے چار ٹکڑوں میں بٹوارہ،امریکا کے اتحادی بھی پیثھے ہٹنا شروع ہو گئے ہیں جو کہ امریکہ کے بازو سمجھے جاتے تھے یہ سب چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ امریکہ اب زیادہ دیر سپر پاور نہیں رہے گا انشا اللہ اب صرف پاکستانی عوام سے گذارش ہے کہ متحد رہیں اپنی فوج پر یقین رکھیں دشمنوں کے ساتھ ساتھ غداروں کا بھی صفایا ہوگا اور پاکستان کی عوام کی امنگوں کے مطابق ہو گا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوگا جس کا نقصان پاکستان یا پاکستانی عوام کو ہو بس پاکستانی عوام اپنے اداروں کو مضبوط کرے اور ہر حال میں ان کا ساتھ دے عوام کی سپورٹ ہی اداروں کو مضبوط کر سکتی ہے اپنے اندر چھپے دشمنوں کو پہچانیے جو محب الوطن لوگوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں سوشل میڈیا پر بھی ایسی کئی سائٹس ہیں جو دو نمبر لوگوں کی تحریریں استعمال کر کے اور ان کی جعلی وڈیوز بنا کر ملک کے با اعتبار لوگوں کو بے اعتبار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بہت جلد ایسے لوگ بے نقاب ہونگے جو تعلیمی اداروں میں گھنائونے کھیل کھیل رہے ہیں۔