پاکستان کی سیاسی تاریخ ظلم و جبر،نا انصافی۔الزامات اور جانبداری کے انگنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ جس طرح کے رویے روا رکھے اور منتخب وزرائے اعظم کو جس طرح ذلیل و خوار کیا اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب کئی دوسرے ادارے بھی اس میں ملوث ہو گئے ہیں جس نے ملک کی غیر یقینی صورتِ حال میں تشویشناک حد تک اضافہ کر دیا ہے جو ملک کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ باعثِ حیرت ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا سب سے مضبوط مہرہ میاں محمد نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے دست و گریبان ہے اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ اسے شکست دینے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کر رہی جو اس کی بساط میں ہے لیکن میاں محمد نواز شریف کسی بھی حالت میں سرنگوں ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔ انھیں لڑتے لڑتے مر جانے میں اپنی جیت کا یقین ہے اس لئے وہ ہتھیار نہیں پھینک رہے ۔ووٹ کو عزت دو ان کا ایسا بیانیہ ہے جس کے دوست دشمن سب معترف ہیں اور میاں محمد نواز شریف اسی نعرہ سے جمہوریت کی جنگ لڑنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔انا کی کشتی ساحلِ مراد سے ہمکنار ہو تی ہے یا بیچ منجدھار کے رہ جاتی ہے اس کا فیصلہ بھی ٢٥ جولائی کو ہو جائیگا۔ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی طاقت پر زعم ہے لہذا مقبول قیادت کو کھڈے لائن لگانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے حالانکہ اس نئی دنیا میں اب سب کچھ کر گزرنا آسان نہیں ہے کیونکہ اب حقائق جس طرح طشت از بام ہو جاتے ہیں انھیں قابو میں رکھنا اسٹیبلشمنٹ کے بس میں نہیں ہے۔اس بات کا شکوہ اسٹیبلشمنٹ نے کھلے عام کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پر سوشل میڈیا پر غیر ضروی تنقید کی جاتی ہے جس سے اس کی ساکھ متا ثر ہو رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے لیکن اس حقیقت کو سیاسی مقاصد کی برو مندی کا زینہ نہیں بننا چائیے۔ وزیرِ اعظم پر مستعفی ہونے کیلئے دبائو ڈالنا اور اسے اس منصب سے بزور ہٹانے کی کسی بھی پہلو سے تائیدو حمائت نہیں کی جا سکتی ۔وزیرِ اعظم کو ہٹانے کا کلی اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے لیکن اس اختیار کو بھی آئین کے آرٹیکل ٦٢ اور ٦٣ کے تحت ہتھیا لیا گیا ہے۔مقبول قیادت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنا چندان دشوار نہیں ۔ اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے کی عادت پڑ جائے تو پھر اس سے خود کو علیحدہ کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی بنیادی کمزوری یہی ہے کہ وہ سیکورٹی معاملات،وزارتِ خارجہ اور داخلی امورکو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے جبکہ سیاسی قیادتیں ایسی سوچ کو پذ یرائی بخشنے کیلئے تیار نہیںجس سے اسٹیبلشمنٹ اور سیای قیادت میں ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔اس مخاصمت سے اسٹیبلشمنٹ اپنے مہروں کو حرکت میں لاتی ہے جو عین وقت پر اپنی جماعتوں سے بغاوت کر دیتے ہیں اور پھر کسی مخصوص اشارے سے انھیں اس من پسند جماعت کی جانب دھکیل دیا جاتاہے جس سے انھیں اطاعت کی امید ہو تی ہے ۔ اطاعت کی امید تو انھیں اپنے سب سے من پسند گھورے نواز شریف سے بھی تھی لیکن پھر کیا ہوا ؟اسی گھوڑے نے اطاعت کی جگہ بغاوت کو خود پر سوار کر لیا اب وہ سرپٹ دوڑ رہا ہے اور قابو سے باہر ہو تاجا رہا ہے۔گھوڑے کے انجام کا تو شائد سب کو علم ہو گا لیکن اس کے بعد کیا ہو گا یہی لمحہِ فکریہ ہے جسے سمجھنے میں غلطی کی جا رہی ہے۔ نفع و نقصان سے بے پرواہ ہو کر ہٹ دھرمی کو خود پر مسلط کر لیا گیا ہے حالانکہ ہٹ دھرمی کو ایک دن گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں یہی سب سے بڑا سچ ہے۔،۔
١٩٨٨ کے انتخابات میں پی پی پی کا راستہ روکنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کویکجا کیا گیا تھالیکن بات پھر بھی نہ بن سکی تو جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا دیا گیا۔ ذولفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد یہ پہلے انتخابات تھے لہذا پی پی پی پوری طاقت سے ان انتخابات کو جیتنا چاہتی تھی ۔ایک جنگ تھی جو اسٹیبلشمنٹ اور پی پی پی کے درمیان لڑی جا رہی تھی جس میں جمہور کو شاندار فتح نصیب ہو ئی ۔پی پی پی کی جمہوری جدو جہد سے پاکستان کے درو دیوار روشن ہیں اور چپہ چپہ اس کی جمہوری جدو جہد کی گواہی دے رہا ہے۔جیلیں ،کوڑے، پھانسیاں اور تشدد جیالوں کی محبت کے سامنے بے بس ہو گے ۔ یہی تھا وہ لمحہ جس نے پی پی پی کو عالمی سطح پر ایک جمہوری تشخص سے نواز ا ۔ پوری دنیا نے جیالوں کی جدو جہد کو سلام پیش کیا اور ان کی ثابت قدمی کا خراجِ تحسین پیش کیا ۔ان کی جمہوری جدو جہد پاکستان کی پیشانی کاایک ایسا جھومر ہے جس پر ہر کوئی فخر کر سکتا ہے۔
ان کی جدو جہد اپنی جماعت کیلئے نہیں بلکہ جمہوریت کی خاطر تھی،مقصد بڑا ہو تو جیت خود بخود قدم چومتی ہے۔بڑا مقصد بڑی قربانی کا تقا ضہ کرتا ہے اور پی پی پی کے جیالوں نے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔جان کی قربانی،املاک کی قربانی،کارو بار کی قربانی اور سب سے بڑھ کر مال و دولت کی قربانی۔کچھ نے تو خود سوزی کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ۔یعنی اپنے مقصد کیلئے جیالوں سے جو بن پڑا انھوں نے کیا لیکن اپنے قائد سے بے وفائی نہ کی۔ان کی وفا کی قسمیں سار ازمانہ کھاتا ہے کیونکہ وفا ہوتی ہی اس قابل ہے کہ اس کی قسمیں کھائی جائیں اور آنے والی نسلوں کے دلوں کو وفا کی اجلتا سے روشن کیا جائے ۔سچ تو یہ ہے کہ بے شمار دبائو،قومی دولت کے استعمال کے باوجود اسٹیبلشمنٹ وہ کچھ حاصل نہ کر پائی جو وہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔صدر غلام اسحاق خان،آرمی چیف جنرل اسلم بیگ،جنرل اسد درانی ،جنرل حمید گل،لفافہ صحافی،خود ساختہ دانشور،مذہبی رہنما اور کئی دوسرے نامور اکابرین پی پی پی کو ہرانے لئے شب و روز سازشوں میں مشغول تھے لیکن ایک نہتی لڑکی کی جرات و بسالت اور عزمِ صمیم کے سامنے ان کی د ا ل نہیں گل رہی تھی لہذا عوامی طوفان میں اسٹیبلشمنٹ کی ساری چالیں خس وخا شاک کی طرح بہہ گئیں ۔اسٹیبلشمنٹ کی تمام ریشہ دوانیاں ایک ایک کر کے دم توڑتی گئیں کیونکہ بھٹو کی محبت ہر ایک شہ پر غالب آ چکی تھی ۔ اسٹیبلشمنٹ کی سر توڑ کوششوں کے باوجود پی پی پی پورے ملک سے فاتح قرار پائی اور یوں محترمہ بے نظیر بھٹونے دنیائے اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیرِ اعظم کا اعزاز حاصل کیا لیکن انھیں قبول نہ کیا گیا۔،۔
اس کے نعروں کی تا ثیر ۔،۔چاند ستاروں کی تنویر دست بستہ محروموں کی ۔،۔ کھولی اس نے ہر زنجیر
اپنی خفت مٹانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے ایک سازش کے تحت اگست ١٩٩٠ میں پی پی پی کی حکومت کو برخاست کر دیا۔پی پی پی پرکرپشن کے الزامات تھے جس کا سامنا آج کل میاں محمد نواز شریف کو ہے۔حکومت کی برخاستگی کے باوجود پی پی پی کا خوف پھر بھی ذہنوں پر سوار تھا کہ کہیں وہ ایک دفعہ پھر فاتح بن کر سامنے نہ آ جائے لہذا ستمبر ١٩٩٠ میں اسلا می جمہوری اتحاد کی چھتری تلے سب جماعتوں کو جمع کر کے قومی خزانے سے فنڈز دئے گئے تا کہ اتحاد کی جیت آسان ہو جائے۔لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے وہ کچھ سب کچھ حاصل کر لیا جسے حاصل کرنے کی اسے تمنا تھی کیونکہ پی پی پی نے ١٩٩٣ کے انتخابات میں ایک دفعہ پھر اپنی حکومت تشکیل دے ڈالی تھی۔ لہذا یہ جنگ ایک دفعہ پھر شروع ہوگئی تھی جس کا انجام ٢٧ دسمبر ٢٠٠٧ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ختم ہوا۔کہتے ہیں عشق کسی کی جاگیر نہیں قائد، عاشق ،عالم،دیدہ ور،دانشور،کسی ایک جماعت اور خاندان سے وابستہ نہیں ہوتے۔ایک عاشق کی موت کے بعد کسی ویرانے میں ایک نئے عاشق کا ظہور ہو جاتا ہے جو شمع کی حفاظت کو اپنی زندگی سے زیادہ عزیز بنا لیتا ہے ۔کم ہمت لوگ سہم جاتے ہیں ،ڈر جاتے ہیں ،دم بخود رہ جاتے ہیں لیکن جو کچھ عاشق کی آنکھ دیکھ رہی ہوتی ہے وہ اسے دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔اگر وہ اسی طرح کا منظر دیکھ لیں جو عاشق کی آنکھ دیکھ رہی ہوتی ہے تو ان پر دیوانگی طاری ہو جائے اور ان کے اندر بھی اسی طرح کی جرات کے چشمے پھوٹ پڑیں لیکن دیکھنے کی قوت ہر کس و ناکس کو نہیں ملا کرتی ۔کیا پنجاب کا ایک سپوت اور دیوانہ بھٹو کے انجام سے دوچار ہونے کیلئے کمر بستہ ہے؟ یا ایک مستانے کے ہاتھوں اسٹیبلشمنٹ خفت اٹھانے جا رہی ہے؟ایک ایسی خفت جو اسے ١٩٨٨ اور ١٩٩٣ میں پی پی پی کے ہاتھوں سہنی پڑی تھی۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال