اسلام آباد (جیوڈیسک) احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنا دی۔
احتساب عدالت نے نواز شریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی کیا ہے جب کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو سرکاری تحویل میں لینے کا بھی حکم دیا ہے۔
عدالت کی جانب سے فیصلے کو تین بار مؤخر کر کے اسے ساڑھے تین بجے سنانے کا وقت دیا تھا گیا لیکن فیصلہ تاخیر کا شکار ہوگیا اور ایک بار پھر احستاب عدالت کے جج کی جانب سے بتایا گیا کہ فیصلہ سنانے میں 30 سے 40 منٹ لگ سکتے ہیں۔
اس سے قبل عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ ساڑھے 12 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا، تاہم اس فیصلے کو پہلے ڈھائی بجے، پھر 3 بجے اور بعدازاں ساڑھے 3 بجے تک کے لیے مؤخر کر دیا گیا۔
احتساب عدالت کے جج نے مسلسل تیسری مرتبہ فیصلہ مؤخر کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ‘فوٹو کاپیاں کروانے میں وقت لگ جاتا ہے، کچھ صفحات آگے پیچھے ہو جاتے ہیں، جن کی ترتیب درست کرنا ہوتی ہے’۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز لندن میں موجودگی کی وجہ سے آج پیش نہیں ہوئے اور وہ یہ فیصلہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں ہی سنیں گے، جبکہ نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر مانسہرہ میں موجودگی کی وجہ سے عدالت نہیں آئے، جہاں وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
آج صبح 9 بجکر 40 منٹ پر جب سماعت کا آغاز ہوا تو سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن میں زیر علاج اہلیہ کلثوم نواز کی تازہ میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔
مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ بیگم کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق آئندہ 48 گھنٹے فیملی کا کلثوم نواز کے ساتھ ہونا ضروری ہے، لہذا فیصلے کو کچھ دن کے لیے موخر کردیا جائے۔
تاہم نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے فیصلہ موخر کرنے کی درخواست کی مخالفت کر دی۔
جس کے بعد جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت11 بجے تک کے لیے موخر کردی۔
بعدازاں سماعت کے دوبارہ آغاز پر عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 3 جولائی کو شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے سنانے کے لیے 6 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی۔
تاہم گزشتہ روز نواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل ظافر خان کے توسط سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ مؤخر کرنے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وہ اس ٹرائل کا حصہ رہے ہیں اور مسلسل عدالت آتے رہے لیکن اچانک صورتحال تبدیل ہوئی اور ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی طبعیت شدید خراب ہو گئی۔
درخواست میں کہا گیا کہ ڈاکٹرز نے کلثوم نواز کی طبعیت میں بہتری تک واپس نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔
نواز شریف کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ مجبوری کے باعث وہ 6 جولائی کو پاکستان نہیں آسکتے، جیسے ہی ان کی اہلیہ کی طبعیت بہتر ہوگی وہ پاکستان آئیں گے، لہٰذا کچھ دن کے لیے فیصلہ مؤخر کیا جائے۔
احتساب عدالت میں سماعت کے موقع پر اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے رینجرز کو طلب کر رکھا ہے جبکہ 400 پولیس اہلکار بھی تعینات ہیں۔
دوسری جانب احتساب عدالت جانے والے تمام راستے عام ٹریفک کے لیے بند کردیئے گئے ہیں اور اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
شریف خاندان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سننے کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ہارلے اسٹریٹ کلینک جائیں گے، جہاں بیگم کلثوم نواز زیرِ علاج ہیں۔
خاندانی ذرائع کے مطابق مریم نواز بھی ڈاکٹرز سے ملاقات میں نواز شریف کے ساتھ ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق آج نواز شریف نےکلثوم نواز کی طبیعت سے متعلق ڈاکٹرز سے بات کرنی ہے۔
واضح رہے کہ کینسر کے مرض میں مبتلا بیگم کلثوم نواز کئی ماہ سے لندن میں زیرعلاج ہیں، گزشتہ ماہ 14 جون کو طبیعت خراب ہونے پر انہیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ اب تک وینٹی لیٹر پر ہیں۔
واضح رہےکہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر رکھے ہیں، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
عدالت نے عدم حاضری کی بناء پر حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دے کر ان کا کیس الگ کر رکھا ہے۔
مزید شواہد سامنے آنے پر نیب نے 22جنوری 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا ضمنی ریفرنس بھی احتساب عدالت میں دائر کیا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر 18گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے، جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔