آج میری کل تیری باری ہے

Nawaz Ssharif

Nawaz Ssharif

تحریر : شاہ بانو میر

گریز مان فرانس فٹ بال ٹیم کا ہونہار بالر جس نے آج دوسرا گول کیا اور فرانس کو کوارٹر فائنل میں پہنچا دیا میں اتفاق سے پیرس ہی گئی ہوئی تھی اوپیرا تک ہر کیفے بار میں اندر سے باہر زیادہ ہجوم تھا محض فٹ بال کے میچ کی وجہ سے دیوانگی ایسی کہ دنیا بھولی ہوئی
فرانس کی ٹیم جب کھیلتی ہے تو پوری قوم رنگ و نسل سے بے نیاز ایک پیج پر آجاتی ہے ہر لب پے دعا اور ایک ہی نعرہ فرانس جیتے گا مگر آج ایک ایسی انہونی بات ہوئی جس نے انسانیت کو زندہ کر دیا
یہاں جزبات سے عاری نظام چلتا ہے ایسے ملک میں ایسی لطیف بات حیران کر گئی

جب دوسرا گول ہوگیا فرانس جیت گیا
تو
ٹی وی پر لائیو نشریات میں ایک کمنٹریٹر نے قدرے خفگی سے گریز مان سے پوچھا
کہ
ایسے تاریخی موقعے پر تم نے کوئی اظہار نہی کیا جیسا کہ کیا جاتا ہے
یعنی باڈی لینگویج سے کوئی جشن نہیں منایا
یعنی روایتی انداز میں چیخ و پکار نہیں کی
اس نے متانت سے جواب دیا
ہم نے جیتنے کیلیۓ گول کئے
دوسرا گول ہوا تو ہم جیت گئے
مگر
مجھے سامنے والی ٹیم کے جزبات کا احساس تھا جو ہماری طرح یہاں کھیل کر جیتنے کی خواہش رکھتی ہوگی
ہم نے گول کر لیا شور نہیں کیا
سبحان اللہ
ترقی یافتہ قومیں ایسے ہی تو ترقی یافتہ نہیں بنیں؟
ان کی علمی درسگاہوں کا کمال ہے
جہاں تعلیم حاصل کرنے والا ذہن کے ساتھ ساتھ اپنے افعال کو درست کر کے روح کو بھی سنوارتا ہے
کچھ تو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں موجود نصاب استاذہ اور ادارے کا ماحول ان کے اندر اپنی خوبیاں گھول کر پلاتا ہے
اسی لئے تو سفاک ٹھنڈے ٹھار معاشرے میں ایسی نفیس اور درد مند سوچ اس نامور عالمی شہرت یافتہ بالر کے دماغ میں پیدا ہوئی
جبکہ
آج کا ہی دن ہے
کسی انسان کو سزا مل رہی ہے جو آج دی گئی
اس پر افسوس کی بجائے خاموشی کی بجائے
نعروں گرمجوشی سے بغلگیر ہونے کی انہی دو سیاست دانوں کی تصاویر
مٹھائیاں تقسیم کرنا ریلیاں نکال کر نعرے لگانا
کیا تماشہ ہے؟
سیاست میں انسانیت ختم ہو گئی ؟
آج اگر کسی پر آزمائش ہے تو یاد رکھنا
فرعون قارون نمرود شداد سب کے سب ایسے ہی ناخدا بنے کہ
ان کی پکڑ کا وقت بھی آن پہنچا
ڈھیل دینے کے بعد پکڑ یقینی ہے
ترقی یافتہ اور ترقی پزیر بلکہ جہالت پزیر قوم کا ایسا توازن اللہ نے ایک ہی دن میں دکھایا
یاد رکھیں
یہ سب پلٹ کر آئے گا جیسا ان کے ساتھ ہوا ہے
آپ بھی تیار رہیں
اس وقت کے آنے سے پہلے
انسانیت کا یہ بھولا ہوا درس اہل وطن کو دینا چاہوں گی

ایک اور وزیر اعظم کو برطرف کر کے ہر طرح کی سیاست سے نکال باہر کیا تا کہ وہ بے نام و نشان ہوکر ڈاکٹر قدیر کی طرح
احساس جرم میں مایوس ہو کر موت کی وادی میں چلا جائے
ایسی سفاکیت اور ایسا ظلم کیسے ظلمت دور ہو اس ملک سے؟
اگر ایک طرف سوگ ہے اور دوسری جانب خاموشی نہ اپنائی گئی
بلکہ
جشن منایا جائے یا مٹھائی بانٹی جائے تو
واضح ہو جائے گا
ذہنی جاہلیت تا حال وطن عزیز میں براجمان ہے
انسانیت اس ڈائن سیاست نے ملک کے اندر سے نکال باہر کی ہے
معاملات اور سیاست خطرناک حد تک مہلک بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے
روایت وہی پرانی ہے
جس نے اس ملک کے ساتھ بھلا کیا اس کو سنوارا نکھارا سجایا
اس کو سلاخیں ملیں یا پھانسی گھاٹ مقدر ہوا
جو اس ملک کو افہام و تفہیم سے اور بھاری بھرکم ادارے کے تابع ہو کر وقت گزار گئے
وہی سرخرو ہوئے
پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن
جب یہ برملا مان لیا گیا
اکیس بائیس کروڑ کی آبادی میں کرپٹ چور ڈاکو لٹیرا صرف اور صرف ایک انسان ہے
اس انسان کو زندہ درگور کر دو سیاست چھین لو حیثیت چھین لو اسے پاگل کر دو
ڈرامہ کلائمکس پر ہے
فلم ابھی باقی ہے
بلکہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے
اگلے خوش ہونے سے پہلے اس ملک کی تاریخ پر غور کر لیں
محتاط ہو کر خود کو رہن رکھ حکومت کر لی تو 5 سال گزار دیں گے”” وہ “”
ملک کی گھمبھیر سیاسی صورتحال تقاضہ کر رہی ہے
کہ
سنجیدہ اور مناسب طرز عمل اختیار کر کے مستقبل کی طرف دیکھ کر عبرت لی جائے
نہ کہ
وقت پھر پلٹا کھائے اور آپ معتوب ہو کر آج یہاں ہوں جہاں ہمیشہ اس ملک کا وزیر اعظم کو رکھا گیا ہے
کیونکہ
میرے ملک کی کچھ روایات آج تک تبدیل نہیں ہوئیں
ان میں سے ایک یہ بھی ہے
کہ
کل بھی اس ملک پر محنت کرنے والوں کو پابند سلاسل کیا گیا تھا
اور
آج بھی کیا جا رہا ہے
اور
کل بھی کیا جائے گا
حاصل مطالعہ یہی نکلا کہ
آج میری کل تیری باری ہے

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر