اسلام آباد (جیوڈیسک) ختم نبوت ﷺ حلف نامے سے متعلق راجہ ظفر الحق رپورٹ منظر عام پر آ گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ختم نبوت کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے راجہ ظفر الحق رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔ ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی سے متعلق راجہ ظفر الحق کمیٹی کی 11 صفحات پر مشتمل مکمل رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔ رپورٹ کے ساتھ پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس بلانے کے نوٹیفکیشن بھی لگائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں تحقیقاتی کمیٹی نے خامیوں کی نشاندہی کی لیکن باقاعدہ کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔
رپورٹ کے مطابق 24 مئی کو پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن بل زیر بحث آیا، انوشہ رحمان اور ایم این اے شفقت محمود نے امیدواروں کے مالی معاملات کے حوالے سے بل کو ری ڈرافٹ کیا، انوشہ رحمان کو فارمز کا مسودہ نظر ثانی کے لیے دیا گیا، اور انہوں نے کمیٹی کے اگلے اجلاس میں نظر ثانی شدہ فارم پیش کیا، نظر ثانی شدہ فارم کو جانچ پڑتال کی ہدایت کے ساتھ منظور کیا گیا۔
کمیٹی کے علم میں آیا کہ حلف نامہ فارمز کو سادہ بنانے کے دوران ہی انہیں تبدیل کردیا گیا، 93 ویں ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے نکات تمام ممبران کو بھیجے گئے لیکن حلف نامے میں تبدیلی کے حصہ کو نہیں بھیجا گیا، وزیر قانون زاہد حامد نے بطور کنوینئر (سربراہ) تسلیم کیا کہ ڈرافٹ چیک کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔
سب سے پہلے 22 ستمبر کو سینیٹ اجلاس میں سینیٹر حافظ حمد اللہ نے یہ معاملہ اٹھایا اور قرارداد پیش کی۔ راجہ ظفر نے سینیٹر حافظ حمد اللہ کی قراداد کی حمایت کی، لیکن سینیٹ میں حلف نامے کے حوالے سے قراداد کی پی ٹی آئی اور پی پی پی نے مخالفت کی۔
معاملہ سامنے آنے پر اسپیکر کی جانب سے تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے رابطہ کیا گیا، چار اکتوبر کو اسپیکر نے تمام جماعتوں کے سربراہان سے میٹنگ کی، تمام جماعتیں اس پر متفق ہوئیں کہ حلف نامے کی سیون بی اور سیون سی کو بحال کیا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ زاہد حامد کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی پوری ہوچکا اور فارم بھی اپنی اصل شکل میں بحال ہوچکا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم سوچا سمجھا منصوبہ تھا،اس معاملے کی تفصیلی جانچ پڑتال ضروری ہے، تاہم عدالت کے لیے کسی ایک شخص، جماعت یا گروہ کو ذمہ دار ٹہرانا مشکل ہے۔