کراچی (جیوڈیسک) انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد 5 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے آج محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم راؤ انوار کی درخواست ضمانت منظور کرلی اور انہیں 10 لاکھ روپے زرضمانت مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
راؤ انوار کے علاوہ دیگر 4 ملزمان کی جانب سے درخواست ضمانت دائر کی گئی ہے جس پر ابھی وکلا کے دلائل چل رہے ہیں اور عدالت اس حوالے سے آنے والے دنوں میں فیصلہ کرے گی۔
بعد ازاں عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت 27 جولائی تک ملتوی کردی جب کہ دیگر ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت 16 جولائی کو ہوگی۔
درخواست ضمانت منظور ہونے کے بعد عدالت میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار نےکہا کہ اللہ کا شکر گزار ہوں ضمانت مل گئی، آج ثابت ہو گیا کہ بے قصور ہوں، مجھے بد نیتی کی بنیاد پرمقدمے میں ڈالا گیا جس میں اٹھانے والوں کا ذکر ہے نہ مارنے والوں کا۔
انہوں نےکہا کہ 99 گواہوں میں سے کسی نے میرا نام نہیں لیا، کیس خراب کیا گیا ہے اصل ملزمان بھی بچ جائیں گے۔
معطل پولیس افسر کا کہنا تھاکہ میرے ساتھ بھی ویہ کیا گیا جیسا مرتضیٰ بھٹو کیس میں ایک شخص کو پھنسانے کے لیے کیا گیا، استغاثہ یہ معلوم نہیں کرسکا کہ نقیب اللہ کوکب گرفتار کیا گیا۔
راؤ انوار نے کہا کہ وقت آنے پر سب بتاؤں گا کس نے مجھے پھنسایا۔
13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
نقیب اللہ کے والد خان محمد نے واقعے کا مقدمہ درج کرایا تھا جس میں راؤ انوار کو نامزد کیا گیا تھا۔ پولیس کے اعلیٰ افسران پر مشتمل کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات کرکے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیاتھااور نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دے کر پولیس افسر کی گرفتاری کی سفارش کی تھی۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر از خود نوٹس لیا گیا تھا۔
ملزم راؤ انوار کچھ عرصے تک روپوش رہے تاہم 21 مارچ کو وہ اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے جہاں عدالت نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔