آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت سوشل میڈیا بن چکا ہے۔ اور سوشل میڈیا جدید دور کا وہ سلحہ ہے جو دشمنان وطن اسلام کے دشمن اس کو استعمال کر رہے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ بغیر تحقیق کے سوشل میڈیا پھیلایا جاتا ہے بلکہ ہدایت نامہ ہوتا ہے کہ اس کو لائک کرو اس کو SHARE کرو تا کہ اسلام اور مسلمانوں کی چالوں کو بے بقاب کیا جائے۔ حالانکہ ان ہی چیزوں کونظر ِاندازکرنا چاہیے تا کہ کچے ذہین کے مالک بچے اور بچیاں خراب نہ ہوں۔اللہ پاک اور محبوب خداپیارے ۖکے ناموں کو غلط جگہوں پر لکھا ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے ان کو پھیلایا جائے تا کہ سب مسلمانوں کو معلوم ہو سکے۔ دشمنان اسلام کی ان حرکتوں سے انکار مشکل ہے مگر کبھی کبھی کوئی حدیث یا کسی معتبر ہستی کا قول ہوتا ہے۔ جس کی کئی سے بھی تصدیق نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں من گھڑت ہوتیں ہیں۔ ایسی پوسٹیں بغیر تصدیق خدا کے لئے گزارش ہے شیر نہ کی جائے۔
اللہ پاک اور اللہ پاک کے نبی کریم ۖ کے دشمنوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارہ لیا ہوا ہے ۔ پاکستان کے اہل علم،دانشور،با شعور،عالم، فاضل تو کیا مسلم دنیاکا ادنیٰ طالب علم بھی بخوبی واقف ہے۔ کہ کوئی مسلمان جیسا بھی ہو،کیسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہوکسی بھی جماعت،ملک یا مسلک کا ہو کسی نبی، کسی الہامی کتاب کا مزاق اڑانا تو دورکی بات ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔پھر مسلمانوں کے خلاف ، آسمانی کتابوں کے خلاف ، اللہ اور اللہ کے پیارے رسول ۖ کے خلاف کوئی نہ کوئی تحریر تصویر ڈھونڈ کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے کہا جاتا ہے کہ” اگر آپ سچے مسلمان ہوتو اس کوSHARE کرو تاکہ یہود و نصریٰ یا کفار کی گستاخیوں کو روکا جا سکے !
سوال پیدا ہوتا ہے ۔ ہم کم علمی کی وجہ سے جو کام دشمن اسلام کرنا چاہتا ہے وہ کام ہم خود کرتے ہیں دوسروں کو کرنے کی تلقین فرماتے ہیں وہ بھی ” ثواب یا صدقہ جاریہ ” کے لئے۔ عزیزکو دشمنوں کی چالوں دشمنوں کے فتنوں دشمنوں کے حسدوں اوردشمنوں کے شروں سے محفوظ رکھے آمین۔
کچھ نادان کچھ بے وقوف اسلام کے دشمنوں کے آلہ کار بن کر جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے ایسی پوسٹوں کو SHARE کرنا اور ان پر غیر اخلاقی کمنٹس کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اگر ایسی پوسٹوں کو اہمیت نہ دی جائے تو اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی بھی زیادہ نہ ہو سکے پھر دشمن بھی اپنی موت آپ مر جائے ۔ ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن ہم کو دشمن بن کر شکست نہیں دے سکتے اور اس بات کا پختہ یقین ہمارے دشمنوں کو ہے۔ جب بھی پاکستان میں دہشت گردی ہوئی ان کے پیچھے پاکستان کے دشمن اور منافق لوگ ہی ہوتے ہیں۔ جب بھی دشمنِ پاکستان کو ” پاکستانی افواج نے جہنم کی وادی میں بھیجا ہے تو پوست مارٹم کرتے وقت ان کی لاشوں کو دیکھا گیا تو ” ختنے ” بھی نہیں تھے مگر مرنے سے پہلے وہ نعرہ تکبیر یا کلمہ پڑھتے دیکھے گئے۔ اس سے بڑی منافقت کا اور کیا ثبوت پیش کروں ۔ ویسے بھی ایک بات ہے۔ اسلام اللہ پاک کا پسندیدہ دین فطرت ہے۔ اسلام نے تو عبادت کے لئے وضو کی شرطِ اول رکھی اور حکم دیا گیا کہ وضو کرتے وقت بھی ” پانی کا ضیائع نہ کرو۔ یعنی ضرورت سے زیادہ پانی بہانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اگر اسلام پانی کو فضول بہانے سے روکتا ہے تو معصوموں کا خون بہانے کی کیسے اجازت دے سکتا ہے؟
یہ جو رنگ برنگے فتوے ، طرح طرح کی بحث مباحثے ،گندے اور غیر معیاری مواد نظر آتے ہیں ۔ اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے پیج بنے یا پوسٹیں ہوتیں ہیں ان کے پیچھے بھی یہ ملک و قوم کے دشمن ہی ہیں جو فرقہ وادیت سیاسی انتشار بلخصوص ” پاک آرمی کے خلاف من گھڑت کہانیوں کی وجہ سے ملک میں افراتفری ، لا قانونیت ، قتل و غارت سمیت پاک آرمی کے خلاف عوام کو بھڑکانا شامل ہیں تاکہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا سکے!
سوشل میڈیا پہلے بھی کہہ چکا ہوں وقت کی ضرورت بن گیا ہیں جہاں برے لوگوں کی غیر مستند پوسٹیں ہوتیں ہیں وہاں اچھی پوسٹوں اور معلومات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت میں سفید پوش طبقے کا بھی بڑا رول ہیں۔ یہ سوشل میڈیا ہی ہے جس کی بدولت دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے۔ ایک جگہ محلہ سے دوسری جگہ محلہ تک ٹیکسٹ وائس اور ویڈیوز کی صورت میں رابطے کا سہرہ سوشل میڈیا کے سر جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے محبت پیار خلوص بڑھا ہے اور اس کے غلط استعمال کے نقصانات سے انکار بھی ممکن نہیں، والدین سے گزارش ہیں اپنے لختِ جگروں کو جدید ترین ٹیکنالوجی یعنی سوشل میڈیا سے اگر دور نہیں رکھ سکتے تو عقب والی نظر ضرور رکھیں۔ یہ ہماری اخلاقی اور اسلامی زمہ داری بنتی ہیں اللہ پاک ہمیں قوم کے معماروں اور ماؤں کے لخت جگروں کو سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کی توفیق دے آمین۔ کیونکہ سوشل میڈیا ایک مہلک ہتھیار ہے!