پھولوں کا شہر پشاور کو ایک بار پھر دہشت گردوں نے لہولہان کر دیا۔ پر امن انتخابات کے لئے نگراں حکومت کی تمام حکمت عملی پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہوگئے ہیں ۔ پشاور شہر میں دہشت گردی کی سیاہ پرچائیں ایک بار پھر عوامی نیشنل پارٹی پر چھا گئیں ۔عوامی نیشنل پارٹی نے شدت پسند ی کے خلاف بڑی قیمتی جانوں کی قربانیاں دیں ہیں۔ کراچی تا خیبر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ 10جولائی منگل کی شب گیارہ بجے شہید بشیر احمد بلور کے بیٹے بیرسٹر ہارون بلور کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ۔ پشاور کے علاقی یکہ قوت میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی رابطہ مہم کے سلسلے میں ہارون بلور پارٹی رہنمائوں اور کارکنان کے ساتھ شریک تھے کہ پہلے سے موجود خود کش حملہ آور نے ہارون بلور کو نشانہ بنایا ۔ حملہ کے وقت آتش بازی کی جا رہی تھی۔ تادم تحریر اے این پی کی انتخابی میٹنگ میں شہید ہونے ہونے والوں کی تعداد 21سے زائد ہوچکی ہے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 60سے بڑھ چکی ہے۔ بیر سٹر ہارون بلور کو بدھ کے سپرد خاک کیا گیا۔ نماز جنازہ وزیر باغ میں ادا کی گئی ، جبکہ دیگر شہدا کی بھی نماز جنازہ ادا کردی گئی۔
پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی میٹنگ میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری کالعدم جماعت طالبان پاکستان نے قبول کی ہے اور عوامی نیشنل پارٹی کو مزید دھمکی دیتے ہوئے الیکشن ،رابطہ دفاتر ، جلسوں اور کارنر میٹنگز سے دور رہنے کو کہا ہے۔ اس سے قبل بیر سٹر بشیر احمد بلور کو بھی 2012میں شہید کیا جاچکا ہے۔ بشیر احمد بلور شہید نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اور تمام تر دہمکیوں کے باوو جود شدت پسندی کے خلاف غیر متزلزل رہنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے ہمیشہ یہی کہا تھا کہ جو رات قبر میں آتی ہے وہ گھر میں نہیں آسکتی۔ موت کا ایک دن مقرر ہے ۔ اس لئے شہید بشیر احمد بلور نے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں صف اول رہنما کا کردار ادا کیا۔بیرسٹر ہارون بلور شہید کو بھی شدت پسندوں کی جانب سے مسلسل دہمکیوں کا سامنا تھا لیکن شہید باپ کے بہادر بیٹے نے بزدلی کی زندگی کے بجائے شہادت کو ترجیح دی اور اپنی جان آفریں شدت پسندوں کے خلاف جدوجہد میں دے کر اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کا بہادرانہ سبق دیا ۔پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکہ منگل کو رات 11 بجے کے قریب ہوا جب یکہ توت کے علاقے میں عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ جاری تھی جس میں شرکت کے لیے ہارون بلور پہنچے تو انھیں خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جلسے کے دوران جیسے ہی ہارون بلور کو تقریر کے لیے سٹیج پر بلایا گیا تو دھماکہ ہو گیا۔
شہیدبشیر بلور نے ہمیشہ کالعدم طالبان کی مخالفت کی اور شہید ہارون بلور نے بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کبھی بھی پیچھے نہ ہٹنے کا عزم قائم رکھا ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے لئے ایک بڑا دل خراش لمحہ تھا جب ہارون بلور کی شہادت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری ملک اور دنیا بھر میں پھیل گئی ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے پارٹی کی انتخابی مہم جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے ہارون بلور کی شہادت پر کہا کہ پہلے باپ گیا پھر بیٹا شہید ہو گیا۔ بلور فیملی کو اس لیے ہدف بنایا جا رہا ہے کیونکہ جب تک یہ ہیں پشاور پر کوئی قبضہ نہیں جما سکتا۔اے این پی کے سربراہ نے انتخابی مہم جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پرامن طریقے سے تین دن سوگ منائیں گے اور اس دوران کوئی جلسہ جلوس نہیں ہو گا۔ تین دن بعد پارٹی انتخابی عمل معمول کے مطابق شروع کرے گی۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امپائر وہ نہیں رہا بلکہ یہ امپائر نہیں دہشتگرد ہیں۔ یہ لوگ جو بھی کرتے ہیں لیکن ہم نے میدان نہیں چھوڑنا کیونکہ ہم نے الیکشن لڑنا ہے اور انشائاللہ جیتنا ہے۔اسفند یار ولی نے کہا کہ ہر داڑھی والے کو نہیں پکڑ سکتے کیونکہ ہر داڑھی والے کو طالبان کہنا زیادتی ہو گی۔ ان میں ہمت ہے تو سیدھی طرح میدان میں آئیں اور مقابلہ کریں اور پیٹھ پر وار نہ کریں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے اس دھماکے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ نتائج کو سامنے لایا جائے۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے’تحقیقات میں دشمن کی پہچان کی جانی چاہیے بجائے کہ صرف بتایا جائے کہ خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ بات یہاں تک نہیں رکے گی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نتائج کو سامنے لایا جائے۔’میاں افتخار حسین نے ہارون بلور کی ہلاکت کو ظلم کی انتہا اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے بعد ان کی جماعت آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے سنجیدہ ہے اور اس کے لیے فیصلہ کرنا ہو گا۔خیال رہے کہ یہ انتخابی مہم کے آغاز کے بعد خیبر پختونخوا میں کسی امیدوار کو نشانہ بنائے جانے کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل سات جولائی کو بنوں میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار کے قافلے پر بھی بم حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔ خیبر پختون خوا کے علاقے بنوں میں بم دھماکے کے نتیجے میں ایم ایم اے کے امیدوار ملک شیرین سمیت 8افراد زخمی ہوئے تھے۔پولیس کے مطابق پی کے 89 سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ملک شیرین کا قافلہ بنوں کے علاقے تختی خیل بکا خیل سے گزررہا تھا کہ اس دوران موٹر سائیکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بم اچانک دھماکے سے پھٹ گیا جس کے نتیجے میں امیدوار ملک شیرین سمیت 4 افراد زخمی ہوگئے۔پی کے 89 بنوں سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ملک شیرین نے اپنی انتخابی ریلی پر ہونے والے بم حملے کا مقدمہ پی ٹی آئی کے خلاف درج کروا دیا ہے۔ ایف آئی آر میں پی ٹی آئی کے امیدوار ملک شاہ محمد خان اور ان کے بھائی ملک گل باز خان کو نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمہ میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔ ملک شاہ محمد خان سابق صوبائی وزیر اور ان کے بھائی ملک گل باز خان ڈسٹرکٹ ممبر بھی ہیں۔
بلور خاندان کو پشاور میں بڑی سیاسی قوت تسلیم کیا جاتا ہے ۔ گذشتہ انتخابات میں جس طرح عوامی نیشنل پارٹی کو دیوار سے لگایا گیا ۔ اور شہید بشیر احمد بلور کی قربانی کے باوجود ہارون بلور تین حلقوں سے کھڑے ہونے کے باوجود اسی لئے کامیاب نہیں ہوسکے تھے کیونکہ ان کی جماعت کے تمام رہنما شدت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر تھے ، انتخابی جلسے ، کارنر میٹنگز یہاں تک کہ کسی کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کرسکتے تھے۔ یہ بہت بڑا امتحان تھا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کو کڑے مرحلے سے گزرا گیا ۔ شہید ہارون بلور 2013میں بھی یکہ قوت کے علاقے میں ہی اے این پی کے جلسے کے دوران حملہ ہوا تھا جس میں 17افراد جاں بحق ہوگئے تھے ۔ جس عمارت میں دہماکہ ہوا اس کی پہلی منزل میں ہونے کی وجہ سے ہارون احمد بلور محفوظ رہے تھے ، جس طرح منگل کی شب ہونے والے دہماکے میں ہارون بلور شہید کے بیٹے دانیال بلور گھر میں موجود ہونے کی وجہ سے محفوظ رہے ۔ اس سے قبل دانیال بلور اپنے والد کے ہمراہ ہر کارنر میٹنگ میں شریک اور تقریریں بھی کرتے رہے ہیں۔ہارون بلور شہید سوشل میڈیا میں زیادہ متحرک نہیں تھے ان کی آخری ٹویٹ 23 مئی کی تھی انھوں نے ایک ٹویٹ میں فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے نام کی تھی کہ وہ ‘ملک کے لیے بشیر بلور کی شہادت کو تسلیم کرنے پر آرمی چیف اور آئی ایس پی آر کے شکر گزار ہیں۔’ یہی ان کی آخری ٹویٹ بھی تھی۔
پاکستان کے نگران وزیراعظم سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ہارون بلور کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ‘شہید بشیر بلور کے بیٹے کی شہادت پر سب وطن پرست غمگین ہیں۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘جمہوریت پسندوں پر دہشتگرد حملے بہت بڑی سازش ہے اور دہشتگرد کسے کو انتخابات سے باہر کرنا چاہتے ہیں یہ ظاہر ہو رہا ہے۔’پاکستان فوج کے ترجمان کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہارون بلور اور دیگر ہلاکتوں پر بلور خاندان اور اے این پی کے ساتھ اظہار افسوس کیا ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی دہماکے کی شدید مذمت کی۔اور سیکورٹی دینے کا مطالبہ کیا ۔پاکستان کے نگران وزیر داخلہ اعظم خان نے متنبہ کرچکے تھے کہ دہشت گردی اب بھی ایک خطرہ ہے اور آئندہ عام انتخابات میں شدت پسندوں کے حملوں کو رد نہیں کیا جا سکتا۔وزیر داخلہ نے دعوی کیا تھا کہ اگرچہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کی جانے والی انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں کے نتیجے میں امن و امان کی صورت حال پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔ لیکن، دہشت گردی کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ اور ان کے بقول، دہشت گرد عام انتخابات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کیلیے کارروائی کرسکتے ہیں۔و میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”آپ کو پتا ہے کہ پاکستان میں حالات پہلے تو بہت خراب تھے اور اب فوج کی آپریش کی وجہ سے کافی کنڑول ہوگئے ہیں۔ لیکن، دہشت گردی کا خطرہ جو ہے رہے گا اب بھی ہے اب بھی کسی حد تک ہے اور یہ رہے گا اس بات کورد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گرد کسی سیاسی جماعت یا اس کی ریلی یا اجلاس میں خلل ڈالیں یا گڑ بڑ ناکریں۔” تمام تر امکانات و خدشات کے باوجود ہارون بلور کا سانحہ کا رونما ہونا بڑا المیہ ہے۔
یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ عام انتخابات میںتمام سیاسی جماعتوں کے بڑے چھوٹے جلسے اور ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں لیکن ایک مرتبہ پھر عوامی نیشنل پارٹی کو نشانہ بنانے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کی جانب سے یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ عام انتخابات کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ یہ بڑا اہم بیان تھا ۔ جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو غور و فکر کرنا چاہیے تھا کہ پاکستان میں عدم استحکام اور عالمی دہشت گردی سے کن عناصر کو فائدہ مل سکتا ہے۔
یکہ قوت خود کش حملے کے تانے بانے ایک بار پھر افغانستان میں موجود کالعدم جماعتوں کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں افغانستان کا کردار منفی ٹابت ہوا ہے۔ اس وقت افغانستان مین قیام امن کے حوالے سے ایک جانب جدہ میں کانفرنس ہو رہی ہے تو دوسری جانب امریکا نے پہلی بار اپنی طویل ترین جنگ میں حکمت عملی تبدیل کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے کہ افغانستان میں جاری لاحاصل جنگ کے بے سود ہونے پر جنگی حکمت عملی تبدیل کی جاسکتی ہے۔مریکی عہدے داروں نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ یہ جائزہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان کی 17 سالہ جنگ میں امریکی شمولیت میں توسیع کے ایک سال بعد کیا جا رہا ہے۔عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی صورت حال میں بہتری نہ آنے کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ پچھلے سال اگست میں انہوں نے اپنی افغانستان حکمت عملی کے تحت شورش زدہ ملک میں مزید فوجی مشیروں، تربیت کاروں اور سپشل فورسز کے اہل کاروں کی تعداد بڑھائی تھی اور عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کے دائرے میں اضافہ کر دیا تھا تاکہ طالبان کو کابل کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے پر مجبور کیا جا سکے۔
افغانستان میں سیکورٹی فورسز پر حملوں کے ساتھ ساتھ داعش مضبوط ہو رہی ہے اور خطے کی مجموعی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے ۔ افغانستان میں بھی رواں برس عام انتخابات متوقع ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف متعدد آپریشن کے بعد شدت پسندوں نے افغانستان کو گڑھ بنا لیا ہے۔ شدت پسندی کے خلاف اس جنگ میں دہشت گرد بلوچستان اور شمالی مغربی سرحدوں پر سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان میں عام انتخابات کے حوالے سے مسلسل خدشات جنم لے رہے تھے کہ شدت پسند وں کی جانب سے سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔نیکٹا نے بھی چھ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں پر حملوں کی وارننگ جاری کی تھی۔ تاہم عدالت عظمیٰ کی جانب سے سیکورٹی واپس لئے جانے کے حکم نے خطرات میں اضافہ کردیا تھا ۔
سیاسی حلقوں کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی پر حملوں کے آغاز پر عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کرنے کے خدشات میں اضافہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کے حوالے سے تحریک انصاف کی جانب سے کئے جانے والے دعوے مسلسل دو واقعات سے عیاں ہوگئے ہیں۔ یہاں اس بات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے کہ ماضی میں کالعدم تحریک طالبان کو پشاور میں آفس کھولنے کی پیشکش کرنے والے عمران خان جو طالبان خان کے نام سے بھی معروف ہیں ، کیا کالعدم جماعتوں کی جانب سے ان کی مخالف جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں کو روکنے سے فائدہ تو حاصل نہیں ہوگا ۔ کیونکہ صوبہ خیبر پختونخوا کی عوام کی روایت رہی ہے کہ انہوں نے ہرا نتخابات میں حکمراں جماعت کو اگلے الیکشن میں مسترد کیا ہے۔تحریک انصاف میں دھڑے بندیوں اور اختلافات کے بعد عمران خان کے لئے مشکلات موجود ہیں۔لیکن بعض سیاسی رہنما اس بات پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پاکستان مسلم لیگ ن کو انتخابی میدان میں کسی بھی طریقے سے دور کا براہ راست فائدہ تحریک انصاف کو ہو سکتا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی کے بیان سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کو ایک مرتبہ پھر عام انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دہشت گردی کے ان واقعات سے کارکنان اور لیڈر شپ میں عدم تحفظ کا احساس دوبارہ بڑھا ہے اور یہ تحفظات شفاف انتخابات کے لئے ساز گار نہیں ہے۔اس حوالے سے نگراں حکومت کو اپنے ذمے داریوں میں مزید سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ کا عام انتخابات میں تمام تر تحفظات کے باوجود حصہ لینے کا اعلان اس حوالے سے بہتر فیصلہ ہے جس کے سبب غیر جمہوری طریقے سے اقتدار مین آنے والوں کے لئے کھلا میدان نہ دینے کاعزم ظاہر کیا گیا ہے۔صوبائی حکومتوں کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے موثر اقدامات کو مزید فعال کرے۔دہشت گردی ابھی ختم نہیں ہوئی اور اس بات کا واضح ثبوت ہے وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ۔ احسن اقبال پر فائرنگ افسوسناک اور شرمناک واقعہ ہے۔ پہلے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا پھر سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف پر سیاہی پھینکی گئی مگر وزیر داخلہ احسن اقبال پر بھی گولیاں چلا دی گئیں۔ اب ہارون بلور اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں پر دہشت گردی کے واقعات کے بعد صورتحال مزید حساس ہوچکی ہے۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو وزارت داخلہ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ کے مطابق چند ملکی اور بیرونی عناصر انتخابات کے موقع پر نمایاں سیاست دانوں کی ٹارگٹ کلنگ کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں بڑے پیمانے پر سیاسی تشدد کا خدشہ ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق دہشت گرد انتخابی عملہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں اور نتیجتاً خوف کی ایسی فضا قائم ہو سکتی ہے کہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہ رہے۔ سینٹ کمیٹی کے سربراہ رحمان ملک کے سوال کے جواب میں سیکرٹری داخلہ رضوان ملک نے کھلے اجلاس میں معلومات فراہم کرنے سے معذرت کر لی تاہم اتنا ضرور کہا کہ ان معلومات کی بنیاد پرسکیورٹی کی فول پروف منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔اس ضمن میں بھارت، داعش، امریکہ اور طالبان کے مبینہ منصوبوں اور انکے ممکنہ نتائج کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں بہت دور کی کوڑیاں ملائی جا رہی ہیں، وہیں بعض ذمہ دار سکیورٹی ماہرین اور سیاسی و سماجی امور کے ماہرین بھی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے مبینہ گٹھ جوڑ کا حوالہ دے رہے ہیں۔
عام خیال یہی تھا کہ حال ہی میں طالبان لیڈر ملا ٰفضل اللہ کی ہلاکت کے ردعمل کے لیے انتخابی ماحول سے زیادہ بہتر موقع کیا ہو سکتا ہے؟ 2013ء کے انتخابات کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے کہ تب کالعدم جماعتوں کی جانب سے دو سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک سو پچاس سے زائد کارکنوں کو ہلاک کیا گیا اور پیپلزپارٹی کو پنجاب میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سکیورٹی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ یہی صورتحال پنجاب میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔الیکشن کمیشن کو پاکستان میں شفاف انتخابات کے لئے ایسے اقدامات کرنا ہونگے جس سے سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور ہوسکیں۔پر امن اور شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان اٹھنے کی وجہ سے عوام میں بے یقینی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔کسی مخصوص نشان یا خصوصی سیاسی جماعت کے لئے اگر حالات پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات قائم رہے اور نتائج میں بے یقینی رہی تو یہ پاکستان کے استحکام کے لئے اچھا فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔