ایسے انتخابات کو بھلا کون شفاف قرار دے گا جہاں مقتدر ادارے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے گرد گھیرا تنگ کرکے اُسے ہزیمت سے دوچار کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہوں۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کے واحد انتخابات ہوں جن کے نتائج کا ایک عامی کوبھی پہلے ہی سے علم ہو۔ انتخابات میں دھاندلی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جو سیاسی جماعت بھی انتخابات ہارتی ہے ،دھاندلی کا الزام ضرور لگاتی ہے لیکن اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا البتہ موجودہ انتخابات میں سب کچھ اظہرمِن الشمس۔ مقتدر اداروں کی کارستانیاں عیاں اور عدلیہ کا گھیراؤ بھی ظاہر۔ عدلیہ اور ”مہربان” قدم قدم پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے ۔ کئی امیدواروں نے بَرملا کہا کہ اُنہیں نوازلیگ چھوڑنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ”جیپ سوار” چودھری نثار علی خاں کے مقابل کھڑا ہونے والا نوازلیگی امیدوار قمر الاسلام بھی اُن میں سے ایک ، جس نے جھکنے سے انکار کیا اور اب وہ نَیب کے پنجۂ استبداد میں ہے۔ یہ وہی قمرالاسلام ہے جس نے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں اکیالیس ہزار ووٹوں کی لیڈ لے کر نئی تاریخ رقم کی۔ اُس کا قصور ہے تو فقط اتنا کہ اُس نے مہربانوں کے نمائندے کے مدّ ِ مقابل آنے کی جرأت کی۔ 9 جولائی کو احستاب عدالت نے ایک دفعہ پھر اُس کا چودہ روزہ ریمانڈدے دیا، مقصد محض یہ کہ وہ الیکشن کمپین نہ کر سکے لیکن ہمیں یقین کہ عوام کا بڑھتا ہوا سیاسی شعور اِس حربے کو بھی ناکام بنا دے گا۔
اپنی نااہلی کے بعد میاں نواز شریف نے سوال کیا ”مجھے کیوں نکالا؟”۔ تحریکِ انصاف نے اِس سوال کا خوب مذاق اُڑایا اور سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی بھی بپا ہوا لیکن یہ سوال آج بھی تشنہ، کسی کے پاس اِس کا شافی جواب نہیں۔ آج بھی پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ پاکستانی تاریخِ عدل کا متنازع ترین فیصلہ ہے جسے نہ تو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی اور نہ ہی وکلاء کی کثیر تعداداِسے درست فیصلہ تسلیم کرتی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مدعیان کی درخواست کو تو مزید تفتیش کے لیے نَیب کے پاس بھیج دیا گیا اور پانچ رکنی بنچ نے اپنی طرف سے الزام لگا کر وزیرِاعظم کو نااہل قرار دے دیا۔ گویا ”جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے”۔
احتساب عدالت میں ساڑھے نو ماہ تک کیس چلا اور جب احتساب عدالت کے جج نے فیصلہ سنایا تو ایساکہ تاریخِ عدل بھی پشیمان ۔ ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے احتساب عدالت کے جج ایسا فیصلہ لکھنا ہی نہیں چاہتے ہوں لیکن شدید دباؤ کے عالم میں لکھ بیٹھے۔ ایک جج آئین وقانون کی بہرحال عامیوں سے کہیں زیادہ شُدبُد رکھتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو جج صاحب میاں نوازشریف کو کرپشن، مَنی لاڈرنگ، بَددیانتی اور غیرقانونی طریقوں سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس حاصل کرنے کے الزامات سے بَری کر رہے ہیںاور لکھتے ہیں کہ استغاثہ یہ الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ دوسری طرف میاںنوازشریف کو دَس سال قیدِبا مشقت کی سزا بھی سنا رہے ہیں۔ جج صاحب اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں ” متعلقہ دستاویزات کی عدم موجودگی میں لندن فلیٹس کی ملکیت طے کرنا مشکل ہے لیکن عدالت اِستغاثہ کے اِس گمان پر بھروسہ کر رہی ہے کہ مذکورہ جائیداد کے حقیقی مالک میاں نوازشریف ہی ہیں”۔ کیا اقوامِ عالم کی تاریخ میں ایسا ”مزاحیہ” فیصلہ کسی نے دیکھا، سُنا یا پڑھا؟۔ سپریم کورٹ بھی یہ فیصلہ دے چکی کہ اگر جائیداد اور کرپشن میں تعلق ثابت نہ ہو سکے تو ملزم کو کسی بھی صورت میں سزا نہیں دی جا سکتی لیکن یہاں فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بالکل اُلٹ۔ پھر اِس فیصلے کو تاریخِ عدل کا سیاہ ترین فیصلہ کیوں نہ قرار دیا جائے؟۔
جج صاحب نے اِس فیصلے کی بنیاد یہ بنائی ہے کہ چونکہ میاں نوازشریف نوّے کی دہائی سے اِن اپارٹمنٹس میں رہتے چلے آرہے ہیں اِس لیے اِن فلیٹس کے حقیقی مالک بھی وہی ہیں۔ اُنہوں نے لکھا کہ میاں نواز شریف کے بچے نوّے کی دہائی میں اتنے مضبوط نہیں تھے اور نہ ہی فلیٹس کی خریداری کے لیے اُن کا کوئی ذریعۂ آمدن تھا جبکہ میاں نوازشریف اور اُن کے والدین اِنہی فلیٹس میں رہ رہے تھے اِس لیے لندن فلیٹس کے اصل مالک میاں نوازشریف ہی ہیں”۔ عجیب بات ہے کہ جج صاحب نے دادا اور پوتا ، دونوں کو چھوڑ کر درمیان سے میاں نوازشریف کو مالک قرار دے دیا جبکہ میاں صاحب سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی ،دونوں کے سامنے فلیٹس کی ملکیت سے انکار کیا اور اُن کے بڑے بیٹے ،حسین نواز نے ملکیت کا اقرار کرتے ہوئے دیگر ستاویزات کے ساتھ قطری خط بھی پیش کیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ لندن فلیٹس کا حقیقی مالک وہی ہے لیکن احتساب عدالت نے یہ ماننے سے انکار کر دیا اور محض مفروضوں کی بنیاد پر ”انکاری” کو سزا سنا دی ۔ کیا دنیا کی کسی عدالت میں ایسا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے؟۔
میاں نوازشریف ”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ لے کر نکلے جسے عوامی پذیرائی بھی حاصل ہوئی اور حریفوں نے اِس کا مذاق بھی اُڑایا۔ سوال مگر یہ کہ اِس نعرے میں غلط کیا ہے؟۔ کیا ووٹ کو عزت نہیں دینی چاہیے؟۔ کیا جمہور کی آواز کو دبا دینا ہی جمہوریت ہے؟۔ کیا مجبورومقہور عوام کو مسندِ اقتدار تک پہنچنے کا محض ذریعہ سمجھنا چاہیے؟۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اربوں کھربوں روپے اور بہت سا وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟۔ جب جمہوریت نے زورآوروں کے گھر کی باندی اور دَر کی لونڈی ہی رہنا ہے تو پھر ایسی جمہوریت سے آمریت لاکھ درجے بہتر جس میں آمر چپکے سے آ کر سب کچھ سنبھال لیتا ہے۔ اگر حقیقی جمہوریت چاہیے تو پھر ووٹ کو بہرحال عزت دینی ہی ہو گی لیکن مہربان ایسا نہیں چاہتے ، 2018ء کے انتخابات میں تو ہرگز نہیں۔ اُنہیں تو ہر طرف ”لاڈلا ہی لاڈلا” نظر آتا ہے، نوازلیگ یا پیپلزپارٹی ہر گز نہیں۔
جتنی شامت نوازلیگ کی آئی ہوئی ہے کم وبیش اُتنی ہی پیپلزپارٹی کی بھی۔ ایک لکھاری نے معروف اخبار میں لکھا کہ آصف زرداری نے پاکستان کے ایک معروف صحافی کو کہا کہ اگر میں عمران خاں کو وزیرِاعظم بننے دوں تو اِس کا مطلب ہے کہ میں اپنی سیاسی قبر کھود رہا ہوں۔ اُنہوں نے کہا ”میں نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ جو سلسلہ نوازشریف سے شروع ہوا ،وہ اُسی پر ختم ہو جانا چاہیے۔ اگر اُس سلسلے کو دوسرے سیاستدانوں تک بڑھانے کی کوشش کی گئی تو پیپلزپارٹی کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ وہ نوازشریف کی ہم نوا بن جائے”۔ اُنہوں نے کہا ”مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ اگر میں نہ مانوں تو میرے خلاف کیسز بنانے کی تیاری کر لی گئی ہے اور نواز کے بعد اگلی باری میری لگانے کا پورا انتظام ہو چکا ہے”۔
عرض ہے کہ نہ صرف انتظام بلکہ عمل درآمد بھی شروع ہوچکا۔ سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ سکینڈل میں آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت پینتیس افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے اُنہیں 12 جولائی کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے آئی جی سندھ کو ملزمان کی عدالت میں حاضری یقینی بنانے کا حکم بھی دے دیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ آصف زرداری کے مہربانوں کے ساتھ معاملات طے نہیں ہو سکے تبھی تو اُن کے گرد شکنجہ کَسا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کی (سب سے بڑی) دو سیاسی جماعتوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے تو ایسے انتخابی نتائج کو کون تسلیم کرے گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا کسی کو احساس ہے نہ ادراک۔