پہلے تو ایک بات کلیئر کر لیں۔ یہ جو میڈیا میں کہا جا رھا ھے۔ نواز شریف اور مریم کو لاھور پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ھے انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ نواز شریف اور مریم نے گرفتاری دی ھے۔ وہ اپنی مرضی سے لندن سے چل کر لاھور گرفتاری دینے آئے تھے۔ اگر وہ نہ آتے تو کون انہیں گرفتار کر سکتا تھا۔ چناچہ دونوں منظر ناموں میں زمین آسمان کا فرق ھے۔
دوسری بات جو یہ کہی جا رھی ھے۔ کہ نیب والے نواز شریف اور مریم کو گرفتار کرکے پنڈی بھی لے گئے۔ جبکہ شہباز شریف اپنی ریلی لے کر ائرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ یوں یہ ن لیگ کی ایک بڑی ناکامی ھے۔ سارا دن کی عظیم و شان کاوش کو ضائع کر دیا گیا۔ اور اس کے پیچھے کسی کانسپریسی تھیوری کو تلاش کیا جا رھا ھے۔ تو یہ حقیقت نہیں۔ لاھور میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے ھوے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ان جلوسوں میں 90 فیصد لوگ لاھورئے تھے۔ یہ مجمع بہت چارجڈ تھا۔ اور انرجی اور غصے اور جوش و خروش کی انتہاوں پر تھا۔ اس کا اندازہ آپ کو ان وڈیوز کو دیکھ کر ھو سکتا ھے۔ جن میں یہ بپھرے ھوے عوام اپنے ہاتھوں سے بائیس بائیس فٹ کے کنٹینر اٹھا کر سڑکوں سے رکاوٹیں ھٹا رھے تھے۔ اور ائرپورٹ کی جانب مارچ کر رھے تھے۔
کچھ مقامات پر ن لیگی کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ھوئیں۔ شیلنگ پھینکی گئی ۔ لیکن شام ھوتے ھوتے پولیس سڑکوں سے غائب ھو چکی تھی۔ رکاوٹیں ختم ھو چکی تھیں۔ ایسے میں لاکھوں افراد پر مشتمل اس چارجڈ کراؤڈ کو کنٹرول کرنا آسان کام نہ ھوتا۔ تصور کریں یہ ریلی ائیرپورٹ پہنچ جاتی۔ جذباتی نوجوان اپنے لیڈر نواز شریف کو اپنے درمیان نہ پا کر مشتعل ھو جاتے۔ اس اشتعال کو خفیہ ھاتھ الاو میں تبدیل کر دیتے۔ اور ائرپورٹ میدان جنگ بن جاتا۔ اچھا خاصہ نقصان ھو جاتا۔ اور اسٹیبلشمنٹ جو پہلے ھی الیکشن ملتوی کرنا چاھتی ھے۔ اسے بہانہ بنا کر الیکشن ملتوی کر دیتی۔ ن لیگ پر کریک ڈاون شروع ھو جاتا۔ اور ساری جمہوری جدوجہد ظائع ھو جاتی۔ نواز شریف کا یہ مزاج نہیں۔ چناچہ ن لیگی بڑوں کا یہ صاد فیصلہ تھا ۔ ریلی کو ائرپورٹ نہ لیجایا جائے۔
نواز شریف کی لاھور آمد پر ن لیگ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ اپنی پارٹی کو متحرک کرنا تھا۔ کارکنوں کی ھمت اور دلیری کو انگیخت کرنا تھا۔ ان کے جزبوں کو جلا بخشنی تھی۔ ان کی ناامیدی اور بے بسی کو ان کی قوت اور حوصلے میں بدلنا تھا۔ تاکہ وہ پچیس جولائی کو جوک در جوک اپنے گھروں سے نکلیں۔ اور اپنے ووٹوں سے ملک میں تبدیلی لے آئیں۔ اور ھمارے خیال میں تیرا جولائی کو ن لیگ نے اپنے ان تمام اھداف کو حاصل کر لیا۔
اور نواز شریف کا یہ استقبال پورے پنجاب میں ھوا۔ جگہ جگہ ناکے لگاے گئے۔ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ گرفتاریاں کی گئیں۔ سختیاں کی گئیں۔ اور یوں پورے پنجاب میں انرجی اور کرنٹ اور سرگرمی کی لہر دوڑ گئ۔ جو پچیس جولائی تک اپنے عروج پر پہنچ جاے گی۔
روائتی طور پر اھل پنجاب بہادروں کو پسند کرتے ھیں۔ یہ دلا بھٹی اور احمد سیال کھرل جیسے بہادر سپوتوں کی سر زمین ھے۔ نواز شریف کا اپنی بیٹی کے ھمراہ خود چل کر لندن کی آرام دہ زندگی سے آنا اور خود کو جیل کی کال کوٹھی کے حوالے کر دینا۔ اھل پنجاب کے لیے دلیری کی ایک فوک کہانی کا درجہ اختیار کر گئ ھے۔ جس نے ن لیگی ووٹرز اور سپورٹرز کا سر فخر سے بلند کر دیا ھے۔ وہ اپنے اس فخر کا اعلان اب پچیس جولائی کو کرے گا۔
نواز شریف کی آمد صرف ان کی گرفتاری تک محدود نہیں ھے۔ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو جس جیل میں مرضی رکھ لے۔ لیکن اگر ان کی ضمانت نہ ھوئ ۔ تو جیل میں اپنی بیٹی کے ساتھ پڑا نواز شریف اتنا طاقتور اور قد آور رھنما بنتا جاے گا۔ کہ پھر اس سے مقابلہ کرنا ناممکن ھو جائے گا۔ ذرا سوچیں۔ جب روز کئی کئی جلوس اڈیالہ جیل کی جانب مارچ کر رھے ھوں ۔ تو کیا صورتحال ھو گی۔
نواز شریف کی پاکستان آمد اور گرفتاری نے اسٹیبلشمنٹ کے تمام پلان ناکام کر دیے ھیں۔ نواز شریف کو سیاست سے مائنس کرنے کا فارمولا مکمل فلاپ ھو گیا ھے۔ اس فارمولے کے تحت قدم بقدم کچھ اقدامات اٹھائے گئے ۔ پہلے نواز شریف کو وزارت عظمی سے نکالا گیا۔ تاحیات نااہل کیا گیا۔ پھر ن لیگ کی صدارت چھینی گئ ۔ سینٹ چئیرمین کا الیکشن چرایا گیا۔ پھر نواز شریف پر مقدمے چلائے گئے۔ سو سے زائد پیشیوں سے انہیں توڑنے کی کوشش کی گئ۔ ن لیگ کو توڑنے کی سازش کی گئ۔ ن لیگی امیدواروں کو توڑا گیا۔ بیگم کلثوم کی بیماری پر غلیظ پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اور آخر میں یہ سوچ کر انہیں دس سال کی سزا سنا دی گئ۔ کہ وہ ڈر کر باھر ھی بیٹھے رھیں گے۔ انہیں بزدل اور بگھوڑا ڈکلیئر کر دیا جائے گا۔ اور آخری پلان یہ تھا۔ نواز شریف کو الطاف حسین بنا دیا جائے گا۔ نواز شریف نے واپس آ کر یہ تمام منصوبہ بندی فیل کر دی۔ اور اب اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی بی پلان نہیں۔
اس چکر میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور میڈیا بری طرح ایکسپوز ھوا۔ اور نواز شریف کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو، گھر گھر پہنچ گیا ھے۔ نواز شریف کی آمد اور گرفتاری نے سول سپریمیسی کی تحریک کو بام عروج پر پہنچا دیا ھے۔