سیاسی گہماگہمی اپنے نقطہ عروج پہنچ چکی ہے سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار میدان مارنے کے لئے جوڑتوڑ میںمصروف ہیںنظریاتی ووٹر اپنی اپنی جماعت سے وابستگی کی بنا پہ الیکشن مہم جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن خاموش ووٹر ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے کسی بھی امیدوار کی جیت میں خاموش ووٹر فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے عام انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی سرگرمیاں بام ثریا کو چھو رہی ہیںبجلی کے کھمبے اور اہم عمارتیں امیدواروں کی فلیکسوں سے سج گئیںسیاسی ڈیروں کی رونقیں پھر سے بحال ہو چکی ہیں جنوبی پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والہ این اے 162کی سیاسی صورت حال بھی ملک کے دیگر حلقوں سے مختلف نہیں رہی اس حلقہ سے مسلم لیگ ن ،پی ٹی آئی اور پی پی پی نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ تھما کر یو ٹرن لیتے ہوئے ٹکٹ واپس لے کر دوسرے امیدواروں کو دیئے جس سے ووٹر اور سپورٹر کے ساتھ ساتھ امیدوار بھی پریشان دکھائی دیئے این اے 162 بوریوالا میں 2018ء عام انتخابات کے لیے کل چار لاکھ 23 ہزار 613 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جن میں سے دو لاکھ 38 ہزار 501 مرد اور ایک لاکھ 85 ہزار 112 خواتین ووٹرز رہیں۔اس حلقے میں 2013ء کے انتخابات میں مرد ووٹرز ایک لاکھ 91 ہزار 294 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار 304 تھی۔
پی ٹی آئی نے این اے 162اور نیچے دو صوبائی حلقوں میں ڈاکٹر عائشہ نذیر جٹ کوپورے پینل یعنی قومی اور ساتھ دو صوبائی حلقوں کے ٹکٹ جاری کردیئے جیسے ہی انہیں ٹکٹ جاری ہوئے تو یہاں سے پی ٹی آئی کے نظریاتی امیدواروں نے ڈاکٹر عائشہ نذیر جٹ کے پورے پینل کو ٹکٹ جاری کرنے کے فیصلے کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ” جٹ گروپ ”کے ٹکٹ کینسل کرانے کے لئے سرڈھڑ کی بازی لگادی اور بطور احتجاج الیکشن میں جانے کا اعلان کر دیا پارٹی نے پورے پینل کے پارٹی ٹکٹ منسوخ کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے نظریاتی گروپ کو ٹکٹ جاری کردیئے نئے ٹکٹ سابق ممبر پنجاب اسمبلی چوہدری خالد محمود چوہان کو این اے 162 اور نیچے پی پی 230 خالد نثار ڈوگر شہری حلقہ جبکہ دیہی حلقہ پی پی 229سے ہمایوں افتخار چشتی کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیئے نئی صورت حال میں ”جٹ گروپ ”نے خم ٹھونک کر اپنا نیا پینل ترتیب دیا اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کااعلان کردیا نئے بننے والے پینل میں ڈاکٹر عائشہ نذیر جٹ قومی اسمبلی جبکہ پی پی 230 عبدالحمید بھٹی اور پی پی 229چوہدری عثمان وڑائچ شامل ہیںمسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کے لئے سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں کو ٹکٹ جاری کیا پی پی 230 کے لئے سابق ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں اورپی پی 229 سے سابق ایم پی اے چوہدری یوسف کسیلیہ کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیئے سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگیا این اے 162سے ان کے برادر حقیقی چوہدری فقیر احمد آرائیں،پی پی 230 سے سردار خالد محمود ڈوگر اورپی پی 229سے چوہدری یوسف کسیلیہ ہی کو ٹکٹ جاری کیا گیا نئے سیٹ اپ سے سابق ایم پی اے چوہدری ارشاد آرائیں نے اپنی جماعت سے بغاوت کرتے ہوئے پی پی 230 سے آزاد حیثیت سے انتخابات میں بھر پور حصہ لینے کے اعلان سے ایک زبردست سیاسی ہل چل مچا دی ”گھڑے” کے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
مسلم لیگ کے کونسلرز کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے پی پی پی نے این اے 162سے چوہدری کامران یوسف گھمن کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا ”مفاہمت کے جادوگر” آصف علی زرداری اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے میں تو کامیاب رہے لیکن بھٹو صاحب کی وہ پارٹی جو آمر نہ ختم کرسکے اپنی نالائقیوں سے پی پی پی کو تباہی کے دھانے پہ لاکھڑا کیا پنجاب کے دیگر شہروں کی طرح بورے والا میں بھی پی پی پی نیم مردہ ہو چکی ہے ووٹر روٹھ چکے ہیں بہت سے” اپنے ”پی ٹی آئی کو پیارے ہو گئے ہیںاس کے باوجود پی پی پی کا نظریاتی ووٹ حلقہ میں موجود ہے یہ نظریاتی ووٹ ”روٹھا اور سویا ”ہوا ہے ضرورت اس امر کی ہے اگر چوہدری کامران یوسف گھمن پی پی پی کے روٹھے کو منانے اور سوئے ہوئے کو جگانے میں کامیاب ہو جائیں تو پی پی پی کے مردہ گھوڑے میں پھر سے جان پڑ سکتی ہے ایسا کرنے سے گھمن صاحب مقابلے میں تو شاید نہ آسکیں لیکن ”بھرم” ضرور رہ جائے گا پی ٹی آئی مکمل طور پہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے ایک دھڑے کے پاس پارٹی ٹکٹ ہیں جبکہ دوسرا دھڑا سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد جٹ کی سربراہی میںآزاد حیثیت سے ”ٹیلی ویژن” کے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں سرگرم ہے۔
جٹ گروپ ”نے اپنے دور حکومت میں حلقہ میں اربوں کے ترقیاتی کام کرائے اور میگا پروجیکٹ سوئی گیس کی فراہمی ان کا عظیم کارنامہ ہے۔25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے چوہدری نذیر احمد آرائیں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے پارلیمانی سیاست سے آئوٹ ہوئے گئے ”ن” نے ان کے برادر حقیقی چوہدری فقیر احمد آرائیںکو ٹکٹ جاری کیا ”نیو انٹری” کے باعث الیکشن میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ شہری صوبائی حلقہ سے مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے چوہدری ارشاد احمد آرائیں صوبائی نشست پہ آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اپنے پچھلے پانچ سالہ دور میں بہت متحرک رہے ترقیاتی کام بھی خوب کرائے اور اپنے ووٹروں سے مسلسل رابطے میں رہے ووٹوں کی تقسیم سے ”ن ” کے ٹکٹ ہولڈڑسردار خالد محمودڈوگرملن سار ،ہر دلعزیز اورسرگرم ورکر کی حیثیت سے حلقہ میں اپنا ایک خاص مقام رکھنے کے باوجودپریشان ہو سکتے ہیں انہیں مقابلے کی ریس میںبھر پور انتخابی مہم چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ ”ن ” کا باغی امیدوار ”ن ” کے ووٹ بنک پہ ہاتھ صاف کر سکتا ہے پی ٹی آئی کے سردار خالد نثارڈوگرکے ساتھ بھی یہی مسلہ درپیش ہے ایک ہی حلقہ سے ڈوگر برادری کے دوامیدوار آمنے سامنے اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدواران کے لئے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں لیکن حلقہ میں خاموش ووٹ ”ہوا اور فضا” دیکھ کر اپنے قیمتی ووٹ کا فیصلہ کرتا ہے اور یہی خاموش ووٹ کسی بھی امیدوار کی فتح و کامرانی کا سبب بنتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن مہم کے دوران کون سا امیدوار چلتی ہوا کا رخ اپنی جانب موڑ کر ”خاموش ووٹر” کی فضاکو اپنے حق میں کرتا ہے اس کا فیصلہ 25 جولائی کو ”ووٹر”ہی نے کرنا ہے اور یہ ووٹر کس جانب جھکائو کرے گا قبل از وقت کہنا مشکل کام ہے۔