اب جبکہ عمران صاحب کو وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے میں تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں، تو کپتان اور ان کے کھلاڑیوں کا خوش ہونا فطری بات ہے۔یقیناً اس کام کے لیے عمران خان نے تن تنہا اور اب کچھ عرصے سے ان کے دیگر حواریوں نے شبانہ روز محنت کی ہیں۔ اسی لیے ان کی خوشی بھی دیدنی ہے لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ اداس بھی ہیں اور مستقبل کے حوالے سے فکر مند بھی۔ ان لوگوں میں وہ شخصیت بھی شامل ہے جسے ہم صوفی صاحب کے نام سے جانتے ہے۔ چونکہ صوفی صاحب کا دیرینہ خواب مختصر عرصے میں شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے۔ پھر بھی صوفی صاحب کا اداس رہنا یقیناً میرے لیے باعث تعجب تھا۔چنانچہ ایک شام میں صوفی صاحب کی اداسی کا کھوج لگانے ان کے خدمت میں حاضر ہوا۔ علیک سلیک کے بعد میں نے فورًاسے پیشتر صوفی صاحب کو اس بات پر پیشگی مبارک باد دی ، کہ اب کا پسندیدہ شخصیت عمران خان پرائم منسٹر آف پاکستان بننے جارہا ہے اور یہی صوفی صاحب کا دیرینہ خواب تھا۔میں مبارک باد دینے کے بعد چند لمحوں تک منتظر رہا کہ صوفی صاحب مبارک بارک دینے کے بدلے ضرور کچھ دعائیہ کلمات سے نوازیں گے۔ صوفی صاحب صاحب نے دعائیہ کلمات تو خیر نہیں کہے البتہ ٹھنڈی آہ بھر کر خلا میں ضرور گھورنے لگے۔ میں نے ان سے کہا کہ حضرت خیر تو ہے آپ ان دنوں کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہے اور یہ اداسی ختم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ صوفی صاحب نے جو کچھ کہا یہ خود انہی کے زبانی ملاحظہ کیجیے۔
کہنے لگے” سعید میاں آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ میں اس وقت کا انصافی ہوں جب لیڈر محترم(عمران خان) خان ابھی شہرت کے بلندیوں سے بہت دور تھے۔ اور کسی کو کیا خود خان صاحب کو بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اتنی جلدی عوام میں مقبول ہوجائیں گے ۔ اس وقت لوگ ہمیں تانگہ پارٹی کے طعنے دیتے تھے۔ ہم مگر وہ سب کچھ صرف اس لیے برداشت کرتے تھے کہ ہمارے آگے ایک مشن تھا۔ہم چاہتے تھے کہ پاکستان صحیح معنوں میں اسلامیفلاحی مملکت بن جائے،ہمارا عزم تھا کہ ہم وطن عزیز کو ضرور ایشین ٹائگر بنائیں گے۔ ہم چاہتے تھے کہ پاکستان قرض لینے والا نہیں بلکہ دینے والا ملک بن جائے۔ہمارا عزم تھا کہ ہم اہل وطن کو آزاد خارجہ پالیسی، اعلیٰ کوالٹی کا پورے ملک میں ایک ہی نظام تعلیم، بہترین طبی سہولتیں ، پینے کا صاف پانی اوعر کرپشن فر معاشرہ دیں گے۔ ہم یہ خواب بلاوجہ نہیں دیکھ رہے بلکہ ہمیں معلوم تھا کہ قائد محترم میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش مشزکلات سے نجات دلاسے۔ یہ ہم جیسے لوگوں اوقر اللہ پاک کے رحم و کرم سے ہی ممکن ہوا کہ غزشتہ انتخابت میں پارٹی کو ایک صوبے میں حکومت ملی اور پارٹی نے وہاں پر کافی اچھا پرفام کیا۔ یقیناً ھکومت سے وہاں کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہونگی۔ لیکن پہلی بارحکومت سنھبالنے کے بعد پارٹی نے کافی کچھ ڈیلیور کیا ہے یا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے وہاں کے عوام پارٹی کو تھصین کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ دوسر طرف خان صاحب نے نوازحکومت کے وہسیاہ کارنامے سامنے لائے، جو وہ ایک عرصے سے تواتر کے ساتھ چلے آرہے تھے۔ ان تمام باتوں کا کریڈٹ اگرچہ عمران خان کو جاتا ہے لیکن سعیداللہ آپ کو بھی خبر ہے کہ ان تمام کوششوں کے پیچھے ہم جیسے گم نام لوگوں بھی کردار رہا ہے۔
صوفی صاحب نے تھوڑا سا توقف کیا تو میں نے کہا کہ محترم! جب آدمی فصل اگاتا ہے، اسے پانی دیتا ہے اس کا ہر وقت خیال رکھتا جب تھکا دینے والی محنت کے بعد فصل تیار ہوتا ہے تو اس کاشت کار کی خوشی دیدنی ہوتی ہے لیکن آپ نے اتنا محنت بلکہ سخت محنت کیا اور اب جبکہ پھل کھانے کا موسم آیا ہی چاہتا ہے تو آپ بجائے خوعش ہونے کے ہر وقت مغموم رتہے ہیں۔
سعید بھائی بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن وہ فصل جو اب تیار ہونے کو تھا ، تیار ہونے سے پہلے ہی اسے امریکن سونڈی نے تباہ کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکن سونڈی کا نام سن کر مجھے سخت تعجب ہوا۔ تب صوفی صاحب گویاہوئے ۔” بھائی جیسے کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ تحریک انصاف آج جو بلندیوں پر فائز ہے ، اس میں ہم جیسے نظریاتی ورکرز ورکرز کا نہیایت اہم کردار ہے۔ اسی بنا ہم ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم اصول و نظریئے سے جڑے رہے تو 2018کا الیکشن ہم بھرپور قوت سے جیت جائیں گے۔ لیکن آفسوس کہ نہ جانے کس نے خان صاحب کو ورغلایا اور انہیں یہ باور کرایا کہ اگر آپ نے ایلیکٹیبلز جس عرف عام مین عوام لوٹے کہتے ہیں کا سہارا نہیں لیا تو آپ وزارت عظمیٰ کا خواب لے کر دنیا سے رخصت ہوجائیں گے لیکن کامیابی آپ کو نہیں ملے گی۔
آفسوس اس بات کا نہیں کہ سازشیوں نے خان کے آگے جال بچھایا بلکہ آفسوس اس بات کا ہے کہ خان نے ہنسی خوشی خود کو اس جال میں پھنسایا۔ اب اول تو خیر لوٹوں کو ساتھ رکھ کر تبدیلی کا خواب دن میں تارے دیکھنے کا مترادف ہے لیکن باالفرض اگر وہ کچھ کردکھاتے بھی ہے تب بھی ہمارے پاس مخالفین کے ان طعنوں کا کوئی جواب ہوگا ہی نہیں کہ کیا نظریہ ہارگیا جو خان صاحب نے ” بیساکھیوں کا سہارا لیا۔ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ خان صاحب نظریاتی کارکنان کو ساتھ لے کر میدان میں اترتے ، اگر وہ ہار بھی جاتے تب بھی ان کا نظریہ زندہ رہتا۔ اگر وہ دنیا سے چلے بھی جاتے لیکن ان کا نام ہمیشہ اچھے الفاظ کے ساتھ زندہ رہتا۔ اب ممکن ہے کہ خاں صاحب وزیر اعظم بن بھی جائے لیکن اب ان میں اور نواز، زرداری میں کوئی فرق نہیں اور یہی میری اداسی کا اصل سبب ہے.