اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس مختصر سماعت کے بعد عدالتی کارروائی کل تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔
جوڈیشل کمپلیکس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے دونوں ریفرنسز کی سماعت کی تو اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جگہ معاون وکیل سعد ہاشمی پیش ہوئے اور نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے نیب کی جانب سے پیروی کی۔
سماعت شروع ہوئی تو نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں شریف فیملی کی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہیں، اس موقع پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے کیا حکم ہوتا ہے اس کا انتظار کر لیتے ہیں۔
فاضل جج نے مکالمے کے دوران نواز شریف کے وکیل کو کہا کہ آپ کی دونوں درخواستیں ہائیکورٹ بھیج دی تھیں جس پر وکیل سعد ہاشمی نے کہا ہم نے بھی ریفرنس دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کی ہے جس پر جج نے استفسار کیا کہ ‘کیا لگتا ہے آج فیصلہ آ جائے گا’۔
اس موقع پر جج محمد بشیر نے کہا کہ میں نے بھی ایک درخواست ہائیکورٹ میں دی ہے لیکن وہ تو انٹرنل سنی جائے گی جب کہ سنا ہے وزارت قانون نے بھی جیل ٹرائل کا کہا ہے جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ہمیں اس نوٹیفکیشن کا نوٹس نہیں ملا۔
فاضل جج نے استفسار کیا کہ خواجہ حارث کب آئیں گے، ان سے طے کریں گے کہ جیل ٹرائل اور دیگر دو ریفرنسز کا کیا کرنا ہے جس کے بعد عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
نواز شریف کے جیل میں ٹرائل سے متعلق صحافی نے فاضل جج سے سوال کیا کہ جیل ٹرائل کے دوران کیا میڈیا کو کوریج کی اجازت ہو گی، جیل کے باہر کھڑے ہو کر مستند رپورٹنگ نہیں ہو سکتی۔
صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں ٹرائل کی رپورٹنگ کرنے کی اجازت دی جائے جس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ صحافیوں کو نواز شریف کا جیل ٹرائل کور کرنے کی اجازت ہو گی تاہم اس کے لیے ان کے خصوصی پاس بنوائے جائیں گے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی تاہم وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے کوئی حکم ملنے تک سماعت کرنے کے پابند ہیں۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو مجموعی طور پر 11، مریم نواز کو 8 اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔