امریکہ، روس، چین، بھارت، فرنس ، برطانیہ، جاپا ، ترکی، جرمنی، مصر، اٹلی، ساوتھ کوریا، کے بعدپاکستان آرمی کو دنیا کی 13 ویں مضبوط ترین فوج ہے۔ امریکی ویب سائیٹ بزنس انسائیڈر کے مطابق پاکستان آرمی کو دنیا کی 13 ویں مضبوط ترین فوج قرار دیا گیا ہے۔ گلوبل فائر پاور نامی ویب سائیٹ کی جانب سے کئے گئے۔بزنس انسائیڈر نے دنیا کی 25 طاقت ور افواج کا جائزہ لیا ہے ، ہتھیاروں افرادی قوت اور عسکری مہارت کے حساب سے ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔تمام ممالک کی عسکری طاقت ، اسلحے کی مقدار ، وسائل اور جغرافیائی حالات کے پیش نظر ان کے استعمال کو بنیاد بنایا ہے۔اس کے علاوہ تمام افواج کی انفرادی اور اجتماعی قوت کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ ویب سائٹ ترجمان کا کہنا ہے کہ درجہ بندی میں ان ممالک کو رینکنگ محض ان کے ہتھیاروں کی تعداد کی بنیاد پر نہیں دی گئی کہ جس ملک کے پاس ہتھیاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اس کو درجہ بندی میں بہتر قرار دیا جائے بلکہ درجہ بندی میں ان ہتھیاروں کے استعمال اور تکنیک کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں دنیا کے کئی ممالک کے درمیان تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہے اور وہ روائتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نیوکلیائی ہتھیاروں کو بھی استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج کو زمین ، فضا اور پانی میں بہتری عسکری صلاحیتوں کے مظاہرے کے بعد یہ درجہ بندی دی گئی ہے۔ امن کے استحکام کے لئے دنیا کا ہر ملک امن کے دشمنوں کے مکروہ عزائم ناکام بنانے کے لئے سیکیورٹی ایجنسیاں ،عدل وانصاف کے ادارے،این جی اوز اور فوج کے ادارے قائم کرتا ہے۔فوج کسی بھی ریاست کی آخری امید ہوتی ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو امن کے قیام کے لئے پاکستان آرمی نے جس قدر عظیم قربانیاں دے کر تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔دنیا کی کوئی فوج یہ نہیں چاہتی کہ وہ سرحدوں کے اندر خود کو ایک ایسی جنگ میں شریک کر لے جس کے اثرات بہت خطرناک ہو ں اور اسے اپنے ہی بھٹکے ہوئے لوگوں سے لڑنا پڑے اور ان شرپسندوں کو معاشرے کے کچھ منفی سوچ رکھنے والوں کی حمائت بھی حاصل ہو،مگر پاکستانی فوج نے جس دانش مندی،بہادری اور پروفیشنلزم سے اس چیلنج کو قبول کیا وہ قابل رشک ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کی افواج کے لئے ایک بہت بڑی مثال ہے۔نائن الیون واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا اس کے لئے ایک مشکل فیصلہ تھا کہ دہشت گردوں کا وہ سب سے آسان نشانہ تھے۔
امریکی اور نیٹو افواج اپنے ملک سے ہزاروں میل دور آکر افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی لڑ رہے تھے جبکہ پاکستانی فوج ان القاعدہ اور طالبان دہشت گردوں کے ہمسایہ میں بیٹھی تھی۔امریکی اور نیٹو ممالک کا پاکستان نے بھر پور ساتھ دیا۔اپنے ہوائی اڈے ان کے استعمال میں دئیے،لاجسٹک سپورٹ دی اس کے علاوہ خفیہ معلومات کا تباد لہ کیا جاتا رہا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نیٹوممالک نے پاکستان کے اس مخلصانہ کردار کی کوئی قدر نہ کی یا شائد انہیں پاکستان کو ایک خطرناک جنگ میں جھونکنا تھا اور اس کے لئے انہوں نے انڈیا کو افغانستان میں کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ پاکستان کے خلاف دہشت گرد تیا ر کر کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں گڑھبڑھ کرائے تا کہ ان علاقوں میں عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کے چین ،شمالی ممالک اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن ،ترکمانستان گیس پائپ لائن،گوادر بندر گاہ تک زمینی راستہ جیسے عظیم منصوبوں پر عمل نہ ہو سکے،اور پاکستان سے ملحقہ افغان بارڈر پر بالکل توجہ نہ دی وہاں سے دہشت گرد سرحد عبور کر کے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں باآسانی آتے رہے اور انہوں نے یہاں دہشت گردی کے کیمپ قائم کرکے پاکستان کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں جس سے بدامنی پھیلنے لگی اور پاکستان سے سرمایہ کار بھاگنے لگے،مستقبل کی نسل تباہ کرنے کے لئے درس گاہوں کو اڑانا شروع کردیا،جنت نظیر وادیوں میں سیاحت کا سلسلہ بند ہو گیا،کھیلوں کے میدان اجڑ گئے اور دنیا کا کوئی ملک اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان بھیجنے کے لئے تیار نہ تھا۔پاکستان کے قبائلی علاقے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں بن گئیں۔یہ دنیا کے خطرناک ترین دہشت گرد تھے جو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ لیس تھے ان سے لڑنا آسان کام نہیں تھا۔پاکستان آرمی کے لئے یہ اس لحاظ سے بھی بہت بڑا چیلنج تھا کہ اسے یہ سب تنہا کرنا تھا، اسے بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا تھا۔سیاست دان خوفزدہ تھے اور بے یقینی کا شکار تھے۔میڈیا کنفیوڑ تھا اورکچھ پارٹیاں ان دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھیں۔
سیاسی پارٹیاں،میڈیا اور مذہبی جماعتیں اپریشن کی بجائے مذاکرات کا طویل ،صبر آزما اور ناقابل حل طریقہ اپنا کر کبوتر کی طرح بلی کے سامنے آنکھیں بند کرکے خود کو اس کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے مشورے دے رہی تھیں،مگر پاکستان آرمی کی اعلیٰ کمان نے قوم،سیاست دانوں،میڈیا اور مذہبی جماعتوں کو یقین دلایا کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں اور اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہو جائیں تو وہ بہت جلد ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دے گی۔قوم کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی بہادر افواج نے امن کے حصول کے لئے قربانیوں کی ایسی داستان رقم کردی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ناین الیون سمیت جتنے بھی دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہو تے رہے یا ہو رہے تھے اس کا سرا افغانستان اور پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں سے آکر ملتا تھا۔پوری دنیا یہاں چھپے چند ہزار دہشت گردوں کی وجہ سے بد امنی کا شکار تھی ان دہشت گردوں کا صفایا کرنے کا مطلب دنیا کا امن یقینی بناتا تھا۔یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ دہشت گرد وہی لوگ تھے جو ماضی میں امریکہ اور نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جنگ لڑ چکے تھے اور پھر انہیں استعمال کر کے چھوڑدیا گیا جس سے ان لوگوں کے اندر ری ایکشن پیدا ہوا کہ ہمیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور یہ لوگ امریکہ کے خلاف ہو گئے۔
حقیقت میں ان کی نفرت امریکہ اور نیٹو کے خلاف تھی اور پاکستان کو یہ نائن الیون کے بعد نان نیٹو اتحادی بننے پر سزا دینا چاہتے تھے بد قسمتی سے ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ان کے جذبات کا خوب فائدہ اٹھایا اور انہیں عسکری مدد دینی شروع کردی۔پاکستان کی بہادر فوج نے ان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کرنے اور انہیں آخری انجام سے دو چار کرنے کے لئے اپریشن ضرب عضب کا آغا ز کر کے امن کے حصول کے لئے ایک عظیم جنگ لڑی۔پاکستان آرمی نے اس لڑائی میں جو قربانیوں کی داستان رقم کی اس کی مثال ڈھونڈنا نا ممکن ہے۔دنیا میں آج تک جتنی بھی لڑائیاں لڑی گئیں ان میں فوجی مارے جاتے رہے لیکن اس لڑائی میں پاکستانی فوج کے نہ صرف ہزاروں جوان ہی شہید ہوئے بلکہ بزدل دہشت گردوں نے ان کے بچوں ان کے خاندانوں پر بھی حملے کئے اور انہیں بھی شہید کرتے رہے۔دہشت گردوں نے آرمی کے سکولوں میں حملے کرکے معصوم بچوں کا قتل عام کیا،آرمی کی خواتین ٹیچرز کو مارا اور راستوں میں سکول آتے جاتے بسوں پر حملہ آور ہوتے رہے،مساجد میں عبادت کے دوران حملے کرتے رہے۔یہ عام لڑائیوں سے بالکل ایک مختلف جنگ تھی جس میں دہشت گردوں نے نفسیاتی دباؤ بڑھانے کے لئے آرمی کے جوانوں کی فیملیز کو نشانہ بنا کر ان کا عزم کمزور کرنے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے اور بہادر جوانوں نے ان کی محفوظ پناہ گاہوں سے نکال نکال کر ان کا خاتمہ کیا۔پاکستان آرمی کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کو تاریخ سنہری حروف میں لکھے گی۔
سوات اور وزیرستان آپریشن کے دوران ان علاقوں میں مقیم لاکھوں لوگو ں کو ان علاقوں سے دوسری جگہ پر عارضی طور پر منتقل کیا گیا۔ان لاکھوں لوگوں کے مہینوں قیام کے دوران ان لوگوں کو بنیادی ضروریات پہنچانے کا عمل بھی پاک آرمی نے مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر جاری رکھا۔پاکستان آرمی کے ڈاکٹرز اور ٹیچرز عارضی ہسپتالوں اور سکولوں میں اپنی ذمہ داریا ں انجام دیتے رہے اور بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہونے دیا۔پاکستان آرمی نے پاکستان اور پوری دنیا میں امن کے قیام کے لئے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی ہے۔، جنہیں دہشت گردوں نے بموں سے اڑادیا تھا،خواتین کے لئے تعلیم کا حصول دوبارہ ممکن ہوگیا ہے، جنہیں دہشت گردوں کی وجہ سے لوگ سکول بھیجنا چھوڑ گئے تھے،پولیو مہم بالکل رک گئی تھی اور ان علاقوں سے پولیو وائرس کا شکار بچے سامنے آنے لگے تھے اب دوبارہ ان بچوں کو پولیو ویکسین پلانی ممکن ہو گئی ہے، عورتوں پر طالبان جرگوں کے ذریعے ہونے والے مظالم کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔
امن کے دشمنوں کی وجہ سے پاکستان کسی بھی کھیل کا کوئی بین الاقوامی میچ نہیں ہو رہا تھا کوئی ملک اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان بھیجنے کے لئے تیا ر نہ تھا اب کھیلوں کے میدان آباد ہونے کی بھی امید پیدا ہو گئی ہے اور ستمبر میں زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی ہے،پاکستان کی جنت نظیر وادیوں اور دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے کی سیاحت ْک چکی تھی، اب امن کی وجہ سے دوبارہ بحال ہو رہی ہے، قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا گیا ہے اور ان علاقوں سے مستقبل میں نائن الیون یا ایسے کسی بھی بڑے واقعے کی منصوبہ بندی یا ٹریننگ کا حصول ممکن نہیں رہا۔دنیا پہلے سے بہت محفوظ ہو گئی ہے اور اس کا سہرا پاکستان کی بہادر فوج کے سر جاتا ہے جس نے امن کے لئے ناقابل یقین جدوجہد کے بعد یہ ممکن کر دکھایا۔