موجودہ ماحول میں اس بار کسی بھی جماعت کو دوتہائی اکثریت کے ساتھ جیتتاہوا نہیں دیکھ رہاہوں ،جب کوئی بھی مقبول جماعت جس کی کامیابیوں کے امکانات زیادہ ہو اگر وہ انتخابات میں دوتہائی اکثریت نہ لے سکے تو اسے حکومت بنانے کے لیے اتحاد بنانا پڑتاہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اتحاد بناتا کون ہے ؟کیونکہ جس مسلم لیگ ن کو اس ملک کے دانشور پنجاب سے ختم ہوکر جاتی عمرہ تک محدود ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اب ان تمام دانشوروں کے تجزیوں کوسانپ سونگھنے والا ہے کیونکہ یکدم سے پنجاب میں مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر سے جمپ کیاہے،مئی 2103 میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مسلم لیگ ن سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی ، تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوگا کہ جب بھی کسی جماعت نے مرکز میں حکومت بنائی ہے اس نے زیادہ تر پنجا ب سے ہی نشستیں حاصل کی ہوتی ہیں صوبہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ اس میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی باقی تین صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں،2013کے انتخابات میں مسلم لیگ ن ووٹوں کی تعداد میں 11365363ووٹ لیکر پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت رہ چکی ہے۔
یعنی مسلم لیگ ن کو پنجاب میں کل ووٹوں میں سے چایس اعشایہ آٹھ فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ،اس کے علاوہ خود عمران خان کے صوبے خیبر پختونخوا میں بھی مسلم لیگ نے 856135ووٹ حاصل کیئے یعنی وہاں بھی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعتوں میں دوسرے نمبر پر تھی ایسے میں مسلم لیگ ن چاہتی تو چھوٹے چھوٹے گروپس کو ساتھ ملاکر خیبرپختونخواہ میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرسکتی تھی مگر نوازشریف نے تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع دیا،اس طرح مسلم لیگ ن نے جب اپنی حکومت چلانے کااسٹارٹ لیا تو انہیں اپنے شروع میں ہی پانامہ کیسز اور دھاندلی جیسے معاملات میں پریشان کرنا شروع کردیا گیا تھا2013 سے لیکر آج تک تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے شریف خاندان پر الزامات اور سزاؤں نے شریف خاندان کو خاصہ کمزور کردیا تھا جس سے اقتدار میں ہونے کے باوجود شریف خاندان بہت کمزور دکھائی دیا اس طرح جب نوازشریف کے قریبی ساتھیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیتوں کا سلسلہ اختیار کیا تو ایسے میں یہ ہی لگتاتھا کہ اس بار تحریک انصاف ہی اقتدار میں آئے گی اور یہ تاثر نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی اس کے بعد مسلم لیگ ن کی صدارت سے نااہلی پر اور بھی مظبوط ہوگیا تھا مگر جب میاں نوازشریف اور اس کی صاحبزادی مریم نواز کوعدالت کی جانب سے سزا سنائی گئی تو اس میں اچانک شریف خاندان کے لیے قوم میں ایک ہمدردی کا جزبہ محسوس کیا گیا جو اس وقت طول پکڑ گیا۔
جب نوازشریف نے اپنی بیماراور بستر مرگ پر پڑی ہوئی اہلیہ کو چھوڑ کر وطن واپس آکر سز کاٹنے کو ترجیح دی تھی نوازشریف کا یہ عمل چاہے ہی پلاننگ کا حصہ ہو مگر یہ عمل بہت حد تک کامیاب رہا ہے اس طرح نیوز چینلوں میں مسلسل یکطرفہ پروگرامز نے بھی قوم کو خاصہ شعور دیا ہے لوگ جان چکے تھے شریف خاندان کے کیسوں میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرورہے اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے جب آصف زرداری اور اس کی بہن فریال تالپور کے بارے میں یہ کہا کہ انہیں الیکشن سے قبل نہ چھیڑا جائے تو عوام میں ایک بار پھر سے شکوک و شبہات نے جنم لیاکہ اصل کہانی صرف نوازشریف کو سیاست سے باہر رکھنے تک ہی محدود نظر آتی ہے اس کے باوجودہم نے دیکھا کہ نوازشریف اور اس کی بیٹی کی وطن واپسی کے بعد ابھرتی ہوئی پی پی ٹی آئی یکدم منظر نامے سے غائب ہوتی ہوئی دکھائی رہی ہے میں خود اس کی اڑان میں کمی دیکھ رہاہوں، لہذا کہیں ایسا نہ ہو کہ انتخابات کا رزلٹ کچھ ایسا ہوکہ پی ٹی آئی دوتہائی اکثریت سے محروم ہوکر اس قابل ہی نہ رہے اور اتحاد بنانے میں بھی مسلم لیگ ن ہی صف اول میں نظر آئے کیونکہ اس ملک کی سیاست نے اس قوم اور اس میں بسنے والے دانشوروں کویہ ہی سکھایا ہے کہ یہاں کبھی بھی اور کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتاہے میں پنجاب میں نوازشریف کی واپسی کے بعد مسلم لیگ ن کو ایک بار پھر سے مظبوط ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
جبکہ تحریک انصاف کو پنجاب ہی نہیں بلکہ اپنے صوبے خیبرپختونخوا میں بھی کچھ کمزور حالات میں دیکھ رہاہوں، اور بدلے میں ایک ایسی حکومت کو بنتے دیکھ رہاہوں جو سنجرانی ٹائپ ہوسکتی ہے اور جس کی عمر بھی بس ایک سال سے کم ہی نظر آرہی ہے اگر عمران خان اپنی نپی تلی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت بنانابھی چاہینگے تو اس سلسلے میں انہیں ان چھوٹے چھوٹے گروپس کا سہارا لینا پڑسکتاہے جنھیں وہ چور اور ڈاکوکہہ کرپکارتے رہے یعنی فضل الرحمان ،محمود اچکزئی اور بگٹیوں سمیت جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کے در پرجانا پڑسکتاہے، جن کے بہت سے اپنے بھی مسائل ہیں جن کے منشور بھی دوسری جماعتوں سے مختلف ہیں اور سب کے الگ الگ مسئلے مسائل پر بنی ہوئی یہ حکومت چاہے مسلم لیگ ن بنائے یا تحریک انصاف بمشکل ہی چلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے دوسری جانب ڈالر کی اونچی اڑان سے بھی مہنگائی بڑھنے کا اندیشہ ہے جس کو درست سمت پر ڈالنے کے لیے آتے ہی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکٹانا پڑسکتاہے ،یعنی یکطرفہ حکومت چلانا کسی بھی وزیراعظم کے عہدے پر بیٹھے شخص کے لیے مشکل ہوجائے گا،اس کے علاوہ ممکنہ طور پر مریم نواز کی ضمانت اگر الیکشن سے قبل ہوگئی تو پی ٹی آئی کو پنجاب میں مزید دھچکے لگ سکتے ہیں کیونکہ سزا کے باجود نوازشریف اور مریم نوازکی واپسی نے کسی حد تک پانسہ پلٹ دیاہے گو کہ نوازشریف کے بغیر شہباز شریف کا اکیلے پارٹی کو سنبھالنا بہت مشکل دکھائی دے رہا تھا مگر یہ کہنا غلط ہوگا کہ نوازشریف کے استقبال کے لیے عوام گھروں سے نہیں نکلی مگر یہ درست ہے کہ بہت سے نیوز چینلوں کو ایسا دکھانے سے منع کیا گیا تھا۔
یعنی معاملہ ہجوم اکٹھا کرنے والوں کا نہیں بلکہ معاملہ تو کچھ اور ہے اگر نگراں وزیراعلیٰ پنجاب اس سلسلے میں چابی وااکھلونا بنے ہوئے تھے تو یہ بھی بتایا جائے کہ میڈیا کے وہ سارے اینکر پرسن کس کے کہنے پر جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جارہے تھے؟ ،نوازشریف کو ائیرپورٹ پر استقبالیہ دینے والے عوام کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ عوام کو شادی کا دعوت نامہ دیا جائے اور پھر شادی ہال کا دروازہ بندکردیا جائے یعنی آنے والے مہمان بھی سر پیٹتے رہ جائیں اور میزبان بھی سر دھنتا رہ جائے کہ کوئی مہمان آیا ہی نہیں ہے،اس معاملے سے جس اندا ز میں نواز لیگ کی مظلومیت اور انتظامیہ کی غیر جانبداری کا تاثر ابھر کر قوم کے سامنے آیاہے اس میں وقت سے پہلے ہی وزیراعظم بننے کی تیاریاں کرنے والے عمران خان کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں ،اس لحاظ سے خود عمران خان کا بیانیہ بھی کمزور پڑتا جارہاہے وہ بھی اب اس معاملے میں مشکوک سے دکھائی دے رہے ہیں ،ان کا ایک بیان جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ کرپٹ لوگوں سے مل کر حکومت نہیں بنائیں گے بلکل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں بھی اب اپنی دوتہائی اکثریت پر شکوک ہونے لگا ہے مگر اس سے قبل یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن ایک بار پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے،اس طرح نوازشریف پر ہونے والے مسلسل احتساب کے عمل نے نہ صرف نوازشریف کے منی لانڈرنگ جیسے کیسوں پر پردہ ڈالا بلکہ اس کی پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بھی مظبوطی فراہم کی ہے جو فی الحال تحریک انصاف کے لیے یقینی طوپر کسی صدمے سے کم نہیں ہوسکتی جس کا نتیجہ اب قریب ہی ہے کیونکہ 25جولائی کے دن ایک ایسا رزلٹ بھی سامنے آسکتاہے جوتحریک انصاف کی کھلی سیاست کے اوراق کو بند کتابوں میں شامل کرسکتا ہے ، اس لحاظ سے تحریک انصاف ایم کیو ایم کو تو مرکز میں دیکھنا پسند کرسکتی ہے مگر مسلم لیگ ن کواپنے سے زیادہ نشستوں کو لیتا ہوا دیکھنا اس کے لیے سیاسی خود کشی کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔