محسن انسانیت جناب محمدۖنے ارشا د فرمایا !کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں بااقتدار اور طاقتور کوئی غلط کام کرتے تھے تو ان کو سزانہیں دی جاتی تھی ۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف جھوٹ،دھوکہ دہی اور کرپشن ثابت ہونے پر نااہل ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے ”مجھے کیوں نکالنا”کا وظیفہ کیا پھرایک دم انکویاد آیا کہ پاکستان کی عدلیہ ،عدل نہیں کر رہی، افواج پاک کا کردار بھی مشکوک ہے ،ملک محافظ ایجنسیاں دہشت گردی کوفروغ دے رہی ہیں ۔اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے اور اقتدار کی ہوس نے ان کو اس قدر سرکش بنادیا کہ موصوف ملک دشمن بیانات دیکر بیرونی ملک دشمن طاقتوں کو خوش کرتے ہوئے ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے انکے ایجنڈے پر کام کرنے لگے جس کی مثال موصوف اور انکی کی صاحبزادی مریم نواز اور انکے جیالوں کے پے درپے عدلیہ ،فوج اور ایجنسیوں پر دشنام طرازیوں کی صورت میں رکیک حملے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اور قوم سے شرمندہ ہوکر معافی مانگنے کی بجائے یہ لوگ لوہے کی چنے چبوانے اور زمین تنگ کرنے کی دھمکیاں دینے لگے۔
حضرت علی بطور خلیفہ جب کوفے(دارالخافہ )میں داخل ہوئے تو آپ نے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا !اے لوگومیں اپنے جسم پر جو لباس پہن کر اور جس سواری پر سوار ہو کر تمہارے شہر میں داخل ہوا ہوں اگر واپس جاتے وقت اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چیز ہو تو جان لینا کہ میں نے تمہارے حق میں خیانت کی ہے۔ پاکستان کی آدھی عمر تک پاکستان کی مظلوم عوام کو یرغمال بناکر حکمرانی کرنے والے خاندان کو اب یاد آیا ہے کہ” ووٹ” کو عزت دینی چاہیے واہ کیا شاطرانہ دماغ پایا ہے کہ پھر بھی اپنا مفاد ہی سوچا کہ ”ووٹ”کو عزت دو جبکہ حق تو ”ووٹر”کو عزت دینے کا ہے جن کو یہ چندمخصوص خاندانوں نے پہلے افلاس زدہ کرکے پھر روٹی پھینک کر انکے مسیحا بنے ہوئے ہیں۔کاش اگر اس جابر وقت نے ”ووٹر”کو عزت دی ہوتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے لوگ واقعی ٹینکوں کے نیچے لیٹ جاتے ۔حضور نے تو عوام کے پیسے کو حرام کا پیسہ سمجھ کر اپنی عیش وعشرت میں اڑا دیا۔حاکم وقت تو نگران اور محافظ ہوتا ہے رعایا کا ،آپ نے کروڑوں روپے کے غیرملکی دورے کرتے ہوئے کبھی یہ سوچا تھا کہ آپ کی عوام کے پاس ایک وقت کا کھانا کھانے کے بھی پیسے نہیں ۔اور جناب اس سلطنت کے شہنشاہ ہیں جن کی رعایا کی جھونپڑیوں میں دن رات ظلم ،جبر اور بھوک رقص کرتی ہے ،جہاں مائوں کو اپنے بچوں کی بھوک کو مٹانے کے لیے اپنا جسم ،اپنی عفت وعصمت تک فروخت کرنی پڑتی ہے۔
جہاںغربت کے ہاتھوں باپ سربازار اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہے ۔رسول مقبولۖ کے ارشاد ہے:”امام نگران ہے ۔اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔(متفق علیہ)راعی چرواہے اور نگران کو کہا جاتا ہے ۔مطلب یہ کہ جس طرح ایک چرواہا بکریوںکے ریوڑ کا ذمہ دار ہوتا ہے اسی طرح امام بھی اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے ۔اس حیثیت کسی مطلق العنان بادشاہ یا جابر وقاہر حاکم کی نہیں بلکہ چرواہے کی ،جو دیکھتا رہتا ہے کہ کہیں کسی پر ظلم تو نہیں ہو رہا اور اس کے ساتھ نا انصافی تو نہیں ہو رہی ہے ۔ریاست کا فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کرتی رہے کہ کسی کا حق ضائع نہ ہونے پائے ۔مگر جہاں نگران ،رہبر ہی راہز بن جائے وہاں کیا کیا جاسکتا ہے ؟بتائیے حاکم وقت جب آپ نے منصب سنبھالا تھا اس وقت آپ کے پاس کیا تھا ؟اور آج کیا ہے ؟ کہاں سے آیا ہے یہ پیسہ ؟آپ کے بچے باہر کے ملکوں شاہانہ زندگی گزاریں لندن فلیٹس اور یہاں لاکھوں افراد کے پاس رہنے کے لیے چھت بھی میسر نہیں آپ کی بیوی مہینوںسے لندن کے ایک کلینک میں زیر علاج ہے پیسہ کہاں سے آیا ؟کیا آپ پیدائشی رئیس تھے ؟ جب کے آپ کا اور آپ کے بھائی کا کہنا ہے کہ آپ ایک مزدور کے بیٹے ہیں چلیں مان لیا کہ آپ نے یہ پیسہ اپنی محنت سے کمایا مگر آپ عوام کو وہ ذرائع بتانے کے پابند ہیں جن سے آپ اربوں کھربوں کے مالک بنیں ۔جناب نے کہا کہ اگر اتنا کام کیا ہے کچھ کھا بھی (کرپشن ) لیا تو کیا ہے ؟آئیے آپ کو بناتے ہیں کہ سلاطین اسلام کیسے ہوتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ وقت مقرر ہوئے تو آپ نے لوگو سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :میری بات اس وقت تک ماننا کہ جب تک میں اطاعت الہٰی کی حد سے باہر قدم نہ رکھوں ”اس گفتگو کے شاہی سواری سواریاں پیش کی گئیں تاکہ آپ محل شاہی میں تشریف لے جائیں ،آپ نے ارشاد فرمایا انہیں واپس لے جائو!میری سواری کے لیے میرا خچر کافی ہے ،جب علماء نے منبر پر حسب رواج آپ کا نام لیا دعائیں کی تو آپ نے فرمایا :میری بجائے سب مسلمان بندوں میں مردوںاور عورتوں کے لیے دعا کریں اگر میں بھی مسلمان ہونگا تو یہ دعا مجھے بھی خود بخود پہنچ جائے گی ۔ان تمام کاروائیوں کے مکمل ہونے بعد آپ اداس چہرے ،حیران آنکھوں اور اڑے ہوئے رنگ کے ساتھ گھر آئے تو بیوی نے دیکھتے ہی کہا”آپ آج اس قدر پریشان کیوں ہیں ؟”فرمایا ”آج مجھ پر فرض عائد کیا گیا ہے کہ میں ہر مسلمان کا بغیر اس کے مطالبہ کے حق ادا کروں ،آج مشرق ومغرب کے ہر یتیم ومسکین کا اور ہر بیوہ ومسافر کا جواب دہ بنایا گیا ہوں پھر مجھ سے زیادہ قابل رحم اور کون ہوسکتا ہے ؟پھر اپنی بیوی فاطمہ سے جو کہ خلیفہ عبد الملک کی نور نظر تھیں ارشاد فرمایا :اپنا وہ بیش قیمت جواہر جو تمہیں عبد الملک نے دیا تھا بیت المال میں داخل کردویا مجھ سے اپنا تعلق ختم کر لوآپ کی بیوی اٹھیں اور اپنے جواہرات کو بیت المال میں بھیج دیا بعض خیر خواہوں نے کہا :امیر المومنین !آپ اپنی اولاد کے لیے بھی کچھ چھوڑ دیں تو ارشاد فرمایا”میں انہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ”آپ نے اپنے گھروالوں روزینے بند کر دئیے۔
جب انہوں نے تقاضا کیا تو فرمایا :میرے اپنے پاس کوئی مال نہیں ہے اور بیت المال میں تمہارا حق بھی اس قدر ہے جتنا کہ ہر مسلمان کا جو سلطنت کے آخری کنارے پر آباد ہے ،پھر میں تمہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ کس طرح دے سکتا ہوں ؟خدا کی قسم اگر ساری دنیا بھی تمہاری ہم خیال ہوجائے تو پھر بھی میں نہیں دوں گا”حضرت عمر بن عبد العزیز کا دور حکومت صرف اڑھائی سال ہے اس مختصر اور قلیل مدت میں خلق خدا نے یوں محسوس کیا کہ زمین وآسمان کے درمیان عدل کا ترازو کھڑا ہوگیا ہے اور فطرت الہٰی خود آگے بڑھ کر انسانیت کو آزادی محبت اور خوشحالی کا تاج پہنا رہی ہے لوگ ہاتھوں میں خیرات لیے پھرتے تھے مگر کوئی محتاج نہیں ملتا تھا یہاں تک کوئی حاجت مند باقی نہیں رہا ۔”مجھے کیوں نکالا” کے خالق آپ کا دور حکومت سلاطین اسلام نہیں بلکہ فراعین مصر کی یاد تازہ کرتا ہے ۔پنجاب پر سالہاسال سے حکومت کرنے والے چھوٹے میاں کہتے ہیں کہ پولیس والے نے انکے ورکروں پر تشددکیاہے جناب کے ہونٹ کی جنبش سے جناب کی آنکھ کی لرزش سے قانون بدلتے تھے اورسانحہ ماڈل ٹائون کے اندر خون کی ہولی کھیلی گئی ۔اس وقت کیا تھا آخر میں اتنی استدعا ہے ۔ووٹ کو نہیں ”ووٹر ”کو عزت دیں ،عزت نا بھی دیں صرف زندہ رہنے کا حق دیں۔