جمہوریت کے ٹرین کو پٹڑی پر روان دواں رکھنے کے لئے جنرل انتخابات عمل میں لائے جاتے ہیں۔ملک میں ہرپانچ سال بعد جب ایک جمہوری حکومت اپنادورپوراکردیتی ہے، تواگلے پانچ سال کے لئے مبینہ طورپر نئی حکومت ،حقیقت میں وہی پرانے لوگ ملک کی باگ ڈورسنبھالنے کے لئے میدان بلکہ میدان جنگ بہ الفاظ دیگر اکاڑے میں اترتے ہیں۔بالکل اسی طرح، جیسے پرانی جنگوں میں بادشاہ علم جنگ بلندکرکے اپنی فوج کے ساتھ میدان میں اترتاتھا۔ جمہوریت کی یہ خوبصورتی ہے کہ اس میں نہ توبادشاہ کے ہاتھ میں تلوارہوتاہے اورنہ وہ خود علم جنگ بلند کرتاہے بلکہ یہ کام انکے نمائندے اورکارندے سرانجام دیتے ہیں۔انکے ہاتھوں میں مختلف رنگ کے علم بھی ہوتے ہیں اورہتھیاربھی۔پورے ملک میں جگہ جگہ ، شہروں ، دیہاتوں، صحرائوں، جنگلوں ، ریگستانوں اورپہاڑوں میں جمہوریت کی خوبصورتی عروج پرہوتی ہے۔ رزق برق جھنڈوں ، پوسٹراوربینروں سے مستقبل کے بادشاہ اوراسکے وزراء اوردیگرکابینہ کے حق میں بھانت بھانت کے پیغامات کی تشہیرہوتی ہے۔ ایسی ایسی مبالغہ آرائی سے کام لیاجاتاہے کہ انکے دامن نچوڑدے توفرشتے وضوکرے۔مدمقابل بلکہ مخالفین کے خلاف ایسے زہریلے پراپیگنڈے کئے جاتے ہیں کہ ۔۔۔دیکھاتوسب کے سرپہ گناہوں کابوجھ تھا۔۔۔
انتخابات کے دنوں میں سب سے زیادہ خوشی بچوں کو ہوتی ہے کیونکہ بچے توغیر سیاسی ہوتے ہیں ۔وہ انتخابات کے دنوں کی رنگینیوں سے عید کی طرح محظوظ ہوتے ہیںاورمستقبل کے سہانے سپنے آنکھوں میں سجائے، اس دن کابے چینی سے انتظارکرتے ہیں ،جب جوش خطابت میں لیڈروں کے منہ سے نکلی ہوئیں صدائیں حقیقت کاروپ دھارکروطن عزیزجنت کانمونہ بن جائے گا، لیکن ہر نیادورپچھلے دورسے زیادہ مہیب اوروحشت ناک ثابت ہوتاہے۔
انتخابات کے اس عمل میں وہ سفید پوش بزرگ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہوتے ، جن کے خاندان میں کسی نااہل اورناحلف کو سیاسی جماعت کے لیڈرنے درجہ چہارم کی ملازمت دلوائی ہو۔درجہ چہارم کی یہ ملازمت گلے کا طوق ہوتا ہے جوساری زندگی ان بزرگوں کے گلے میں پڑاہواہوتاہے تاوقتیکہ پیک اجل آئے اورانہیں ذہنی غلامی اوربے حسی کے اس عذاب سے نجات ملے،لیکن غلامی کی ان زنجیروں سے انکی نسلوں کو بھی نجات نہیں ملتی ۔انکے بعدانکے بچے سیاسی لیڈروں کی غلامی کادم بھرتے ہیں اورانتخابات کے عمل میں اپنی نمک حلالی کاثبوت دیتے ہیں۔ رنگ برنگ ٹوپیاں پہن کر،گھروں پر پارٹی کے پرچم لہراکراپنے قائد کے لئے کبھی اِن کے در کبھی اُن کے دراورکبھی دربدرذلیل اورخوارہوتے جارہے ہیں۔نہ خداکی فکر، نہ رسول ۖ کی اورنہ اپنی قوم اورملک کی بلکہ انکے دل ودماغ پر لالچ اورخودغرضی کے ایسے گہرے سیاہ بادل چھائے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی سواہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
انتخابات کے اس عمل میں جوورکرزلوگوں کے دروازوں پرجاکر ووٹ مانگنے کی احمقانہ کوشش کرتے ہیں ، انہیں اس بات کااحساس ہوناچاہئے کہ ووٹ مانگنے کی چیز نہیں بلکہ یہ عوام کے دل کی آوازہوتی ہے۔یہ ضمیرکافیصلہ ہوتاہے، جس کے بارے میں ہرفردنے لمبی سوچ بچارکے بعدایک فیصلہ کیاہواہوتاہے اوروہ اپنے فیصلے پرقائم رہتاہے۔جب بھی کوئی آدمی اسکے دروازے پرآتاہے اوروہ اسے اپنافیصلہ تبدیل کرنے کے لئے مجبورکرتاہے تواس سے پہلے یہ سوچناچاہئے کہ جس کے لئے وہ ووٹ مانگتاہے ، اس نے اس قوم کی کونسی خدمت کی ہے اوراس کی حیثیت اس قوم اورملک کے لئے کیاہے۔کیاوہ اس قابل ہے کہ اسکے لئے عوام کومجبورکیاجاتاہے۔ کیاوہ اس اہم ذمہ داری کو سنبھالنے کاقابل ہوگا۔اگرنہیں توخدارا! ان بے حسوں کے لئے عوام کومجبورنہ کریں۔
اس طرفہ تماشے میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کابھی ہوتاہے جنہیں جہاں مفادات کی معمولی سے جھلک نظرآتی ہے ، وہاں جاکر اپنے پائوں میں نئی بیڑیاں ڈال دیتے ہیں اورکسی نئی جماعت میں شمولیت کو اپنے لئے سرمایہ افتخارسمجھنے لگتے ہیں۔ایسے لوگ اپنی عزت اورسب کچھ نئے لیڈراورسیاسی جماعت پر قربان کردیتے ہیں ۔ مفادات کے اس حمام میں سب ننگے ہیں ، اشرافیہ ہو، عام لوگ ہو، مذہب کے دعویدار ہوں یاامیرشہرہو،ہرکوئی مفادات کی بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کی بلکہ کپڑے اتارکرنہانے کی کوشش کرتاہے۔اس انفرادی مفادات کی گٹھیاسوچ نے ہماری اجتماعیت کو ختم کردیا ہے۔ ملت کے مقابلے میں فردکی خوشحالی کے لئے نظام بنتے ہیں اورنظام بدلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے کچھ افرادانتخابات کے اس عمل کے نتیجے میں مالامال ہوتے ہیں باقی قوم ذلت اورپسی کی اتاہ گہرائیوں میں چلی جاتی ہے۔