آج قوم کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اس فیصلے کا انحصار ہمارے ”ووٹ ” پر ہے ،پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے وسائل پر آبادی کادباؤمسلسل بڑھ رہا ہے لیکن ہمیں آنے والی نسلوں کے مستقبلکا قطعاً کوئی خیال نہیں ہے ، آج الیکشن کا دن ہے،انتخابی عمل پر21ارب روپے سے زاہد اخراجات آئیں گے ۔انتخابی اخراجات میں سابقہ 2الیکشن کے مقابلے میںمجموعی طور پر 3گنا اضافہ ہو چکا ہے ،پاکستان کے 10کروڑ عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کیلئے اپناحق رائے دہی استعمال کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،لیکن ہمیشہ کی طرح آج بھی 50سے55فیصد ووٹر ہی اپنا ”ووٹ” ڈالیں گے ۔اس طرح تقریباً ہر حلقے میں کھڑے ہوئے 10سے 12امیدواران میں سے 10سے15فیصد تک ووٹ لینے والا کامیابی کے وکڑی سٹینڈ پر کھڑا ہوگا ،گویا ہارنے والے امیدواران کے مقابلے میںجیتنے والے امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب کل ووٹوں کا محض 10یا 12فیصد ہی ہوگا ۔موجودہ سسٹم کی خرابیوں اور ہماری قومی بے حسی کی بدولت پاکستان کے رجسٹرڈ ووٹرز میں سے بھی 50فیصد لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی زحمت گوارا کریں گے ۔جبکہ”خاموش اکثریت ”ماضی کی طرح مکمل طور پر اس انتخابی عمل سے لاتعلق رہے گی ۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتی تبدیلی کے حوالے سے عوام کا ایک پختہ ذہن بن چکا ہے کہ حکومت کی تبدیلی ان کے قیمتی ووٹ کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور بااثر ادارے اپنی مرضی سے حکومتیں تبدیل کرتے ہیں یا بناتے ہیں ۔
”ووٹ” کی بے توقیری ایک ایسا عمل ہے کہ جسے کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا ۔بحیثیت قوم ہم آج تک اپنی ”ووٹ کی طاقت” کا اندازہ ہی نہ کرسکے، ”ووٹ ” ڈالے بغیرگھروں میں بیٹھ کر ہم ترقی و خوشحال کے خواب دیکھتے ہیں مگر عملاً ہمارا کوئی کردار نہیں ہے ۔چوروں اور بدمعاشوں کو ہم ووٹ دیتے ہیں ،کسی شریف ،باصلاحیت اور باکردار نمائندے کو ووٹ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کیونکہ پاکستان میں رائج سسٹم میں کسی شریف نمائندے کا کوئی کردار نہیں ہے ،چوروں اور بدمعاشوںنے سارے سسٹم کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔کہتے ہیں کہ کسی ملک میںبادشاہ سلامت نے شہر کے باہر ایک کنواں کھدوایا اور رعایا کو حکم دیاکہ ہر شخص رات کی تاریکی میں اس کنویں میں ایک ایک گلاس دودھ کا ڈالے ،کنواں شہر سے باہر ہونے اور رات کی تاریکی کی وجہ سے ہر دوسرے شخص نے اپنے اپنے طور پر سوچا کہ کیوں نہ وہ دودھ کی بجائے ایک گلاس پانی کا ڈال دے ، جب سبھی لوگ دودھ ڈالیں گے تو اگر وہ ایک گلاس پانی ڈال دے گاتو کون سا پتہ چلے گا ۔ یوں رعایا کے ہر فرد نے اس میں دودھ کی بجائے پانی ہی ڈال دیا ۔۔ صبح جب بادشاہ سلامت نے اپنے وزیر کے ذریعہ کنویں کا معائنہ کروایا تو سار ا کنواں پانی سے بھرا تھا ۔ ہماری قوم کا بھی کچھ یہی حال ہے کہ الیکشن میں اپناایک ”ووٹ” ڈالنے کی بھی زحمت نہیں کرتی اور نہ ہی کسی شریف امیدوار کو ”ووٹ” دیتی ہے ۔ ساری قوم کی سوچ اس بات پر ٹھہری ہوئی ہے کہ میرے ایک ووٹ نہ ڈالنے سے کیا فرق پڑے گا ۔ شریف آدمی کو ووٹ دیا تو ضائع ہو جائے گا ۔ جس نے جیتنا ہے اُسے ہی ووٹ ڈالا جائے تاکہ ووٹ ضائع نہ ہو ۔۔۔قربان جائیں قوم کی اس سوچ و فکر پر ۔۔۔آج اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ملک پر ہر الیکشن بالفاظ دیگرسلیکشن کے بعد بدکردار ، چور، بدمعاش اور لٹیرے ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں یا کر دئیے جاتے ہیں ۔ اور ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
آج کا دن اس امر کا متقاضی ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنی سوچ و فکر کو تبدیل کریں ، ہر بات میں مغرب کی نقالی کرنے والوں کودنیا کی دیگر اقوام میں پائی جانے جمہوری اور قومی سوچ کی تقلید کرنا چاہئے ۔ مار دھاڑ اور تشدد کی فضا ملک کا امن تباہ کرنے کے مترادف ہے ۔ اتحاد ویگانگت کے ساتھ آج ہمیں پُرامن ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کیلئے اپنے گھروں اور حجروں سے باہر نکلنا ہوگا ۔ہماری نوجوان نسل ہمارے رویوں سے سخت بیزار اور مایوس ہو چکی ہے ، ہم میں سے ہر ایک فرد بلاتشخیص رنگ و نسل ، مذہب و عقیدہ ،کرپشن اور لوٹ مار سے پاک پاکستان کا متمنی ہے ۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو بھی اسی لئے سارے ملک میں پذیرائی مل رہی ہے کہ قوم واقعی پورے سسٹم کی تبدیلی چاہتی ہے ۔ آج ہمیں ایک زندہ و بیدار قوم ہونے کا ثبوت دینا ہے ۔امیدواروں کے انتخاب میں ہمیں پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوگا ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو حقیقی معنوں میں ملک و ملت کا درد رکھتے ہوں۔
”خلائی مخلوق” پرہر وقت تنقید کرنے والوں کو ایک با ت ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ہمارے یہ ذمہ دار ادارے ملک کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے ، آج ہماری یہ شان بے نیازی، یہ شان و شوکت ،یہ پروٹوکول ،یہ دولت ،یہ محلات ،یہ بہاریں۔۔ سبھی کچھ ہمارے پیار ے اور عظیم پاکستان کی بدولت ہیں۔لیکن ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم رب کائنات سے ملنے والی ایک آزاد و خودمختار ریاست پر شکر ادا کرنے کی بجائے اسی کی سلامتی کے درپے ہیں۔وطن عزیز کی بقاء اور سلامتی کی ذمہ داری صرف عساکر پاکستان پر ہی عائد نہیں ہوتی ،ہم بھی اس ملک کے باسی ہیں ،ہم اس قوم کی رہبر ہیں ۔اس لئے ہمیں اسلام اور ملک دشمن قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے قومی سوچ و فکر کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہوگا ۔۔آج قوم کی آزمائش کا دن ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج اپنی قومی ذمہ داری کا ادراک کریں ۔عوام کو چاہئے کہ وہ آج اپنے گھروں سے نکلیں اورکسی دباؤ ،لالچ اور جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں تاکہ ہمیںقوم کے روشن مستقبل کیلئے ایک بہترین قیادت میسر آ سکے اور ماضی کی خرابیوں سے بھی نجات مل سکے۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email: arifsaeedbukhari@gmail.com