کل آسمانی کتب میں اﷲ تعالی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے،اﷲ تعالی نے کہیں یہ نہیں کہا کہ میں فلاں پہلوان سے زیادہ طاقتور ہوں یا فلاں امیر آدمی سے اتنے گنا زیاد خزانوں کا مالک ہوں یا فلاں بادشاہ سے بھی زیادہ بڑے اقتدار کا مالک ہوں یا فلاں اور فلاں اہل دانش سے اتنے گنا زیادہ عقل و فہم رکھتا ہوں لیکن ایک جگہ ضرور ارشاد فرمایا گیا کہ ماں جیسی ہستی سے بھی سترگنازیادہ رحم کرنے والاہوں۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ عورت ذات کا اﷲتعالی کے ہاں کتنابڑامقام ہے۔انبیاء علیھم السلام سے وابسطہ کتنے مردانہ رشتے تو دوزخ کی نذر ہوگئے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹااور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والدلیکن ان معلمین انسانیت سے کوئی زنانہ رشتہ داخل دوزخ نہیں ہوایہاں تک کہ ایک نبی حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش کے عوض فرعون جیسے دشمن خداکی بیوی بھی دولت ایمان سے مالا مال کر دی گئی۔کم و بیش گزشتہ چارہزارسالوں سے حج وعمرہ کی عبادت اس زمین کے سینے پر جاری و ساری ہے،اس عبادت کا مقتدر حصہ ایک مامتا کی یاد میں اداکیاجاتاہے،جب ایک ماں اپنے لخت جگرکے لیے پانی کی تلاش میں سرگرداں رہی۔یہ عبادت اتنی باریک بینی سے اداکی جاتی ہے کہ جہاں وہ ماں اپنے معصوم کے لیے دوڑپڑی وہاں تمام افراد دوڑناشروع کردیتے ہیں اور جہاں وہ ماں تھم گئی وہاں تمام حجاج بھی تھم تھم کر چلنے لگتے ہیں۔عورت ذات کا یہ مقام خاص عطیہ خداوندی ہے جس سے اﷲتعالی کی رحمت کااندازہ کیاجاسکتاہے کہ دنیامیں وارد ہونے والے انسان کا وجود بھی عورت ذات کامرہون منت ٹہرا۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کاتذکرہ تاریخ پاکستان کاایک شاندارباب ہے۔کہاجاتاہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کاہاتھ ہوتاہے ،اسی طرح قائداعظم محمدعلی جناح کی جملہ کامیابیوں کے پیچھے بھی ان کی خواہرحقیقی محترمہ فاطمہ جناح کا بہت بڑا کرداررہاہے۔تحریک پاکستان کے دوران سفروحضراور خاص طور پر آخری عمر میں بزرگی اور بیماری اورعالم نقاہت میں محترمہ فاطمہ کی شکل میں قائد اعظم کو ایک مضبوط لاٹھی میسر آگئی تھی۔قائداعظم کی اولاد کے بارے میں مشہورہے کہ وہ مسلمان نہ ہوئی چنانچہ اولاد سے لاتعلقی کارویہ بہن سے قربت کا مقدمہ بنتاچلاگیااور ان بہن بھائی نے مل کرپاکستان کی تاسیس کی جو یقیناََفتح مکہ کے بعدتاریخ اسلام کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔قائداعظم کی بعض تحریروںسے اندازہ ہوتاہے کہ انہیں اپنی بہن کاکتنا مضبوط سہارامیسرتھا جس کے باعث وہ اس چومکھی لڑائی میں پہاڑ کی مانند استقامت اور صبر کی مثال بنے رہے ۔قائداعظم نے اپنی تحریروں میں کھل کر اپنے ساتھیوں کی بے وفائیوں اور ان کے ناقابل اعتمادہونے کا ذکر کیاہے لیکن ان حالات میں ان کی رازدان اور قریبی مخلص مشیر ان کی اپنی چھوٹی بہن ہی ہوتی تھیںجس کے باعث امت مسلمہ کے لیے ایک نایات تحفہ تخلیق ہوسکا۔قیام پاکستان میںقائداعظم کی طرح محترمہ فاطمہ جناح بھی امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی محسنہ خاتون ہیں،اﷲتعالی ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ عطافرمائے اور کی مرقد کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنادے،آمین۔
محترمہ فاطمہ جناح31جولائی 1893ء کو پیداہوئیں،جناح پونجا اور بی بی مٹھی کے ہاں یہ سب سے آخری اولاد تھی۔ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اورظاہر ہے لاڈلی بھی۔یہ کراچی میں وزیرمنشن کی تیسری منزل پر کرائے کاایک مکان تھا۔1901ء میں پونجاجناح کی رحلت ہوئی توفاطمہ ابھی بہت چھوٹی تھیں،سب سے بڑے بھائی محمدعلی جناح نے باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور یتیم بہن کے سر پر دست شفقت رکھااوران کی پرورش اپنے ذمہ لے لی۔بہت جلد یہ لوگ بمبے منتقل ہوگئے جہاں ابتدائی تعلیم کے لیے فاطمہ کو ایک مقامی اسکول میں داخل کردیاگیا۔وقت پر لگاکر اڑتارہا اور ننھی فاطمہ نے اپنے تعلیمی مراحل بہت تیزی اور کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیے۔پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے یونیورسٹی آف کلکتہ کے ڈاکٹرآراحمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔یہ 1923ء کاسال تھا جب بمبے شہر میں ڈاکٹرفاطمہ جناح نے اپنے دندانی مطب کاآغاز کر دیا،اس طرح سے زندگی کے عملی نشیب و فراز پیش آنے لگے۔1929میں جب ان کی بھرجائی رتن بائی ،جو کہ محمدعلی جناح کی زوجہ تھیں،کاانتقال ہواتو وہ اپنے بڑے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے بمبے میں ہی ان کی رہائش گاہ پر منتقل ہوگئیں اور پھر محمد علی جناح کے آخری دم تک ان کے ساتھ رہیں۔اس دوران بھائی کی خدمت سمیت ان کے جملہ معاملات میں ان کی معاونت،مشاورت اور کبھی کبھی راہنمائی کافریضہ بھی سرانجام دیتی رہیں۔
خاص طورپر جب تحریک پاکستان جوں جوںزور پکڑتی گئی تودوسری طرف قائداعظم کی صحت بگڑتی چلی گئی تو اس دورانیے میں قائدکا کمزوروناتواں ڈھانچہ اس چھوٹی بہن کے خدادادسہارے ہی کھڑارہا۔قائدکے کینسرکاعلم قائد اور طبیب کے علاوہ صرف محترمہ فاطمہ جناح کو تھا۔اگر یہ خبر باہر نکل جاتی توتقسیم ہند میں معمولی تاخیرسے بھی علامہ اقبال کاخواب تشنہ تعبیررہ جاتا۔اگرچہ خواتین کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے لیے بات کو چھپانا ممکن نہیں رہتااوروہ کہیں نہ کہیں رازمحمل اگل دیتی ہیں لیکن قدرت نے جس سے جتنابڑاکام لیناہو اس کوحوصلہ اورظرف بھی اتنا بڑاملتاہے۔ کم و بیش دس سالوں تک ایک رازکو دبائے رکھناجو دیمک کی طرح قائد کے جسم کو چاٹتاچلاجارہا تھاصرف فاطمہ جناح جیسی خواتین کا ہی خاصہ ہے۔قائدکی انگریزوں اور ہندؤں سے مسلسل ملاقاتیں ،مزاکرات،نزاعات اور معاہدات اس تحریک کے دوران پیش آتے رہے اور فاطمہ جناح کے ساتھ ساتھ دیگر خواتین بھی ان مراحل میں مردوں کے شانہ بشانہ ہوتی تھیں،ایسے ماحول میں خود کو آلودگی سے بچانا کس قدر مشکل مرحلہ ہوتاہے خاص طور پر خواتین کے لیے۔چنانچہ تقسیم کے وقت ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں اعترافات کے عنوان سے اپنے سے منسوب متعدد تعلقات کا ذکر کیاہے لیکن آفرین ہے امت مسلمہ کی اس خاتون راہنماکے لیے جس کا کسی غیرمرد سے ہاتھ ملانا بھی کوئی مورخ نقل نہیں کرسکا۔بھائی اور بہن کے ان پہاڑوں جیسے عظیم اور بے داغ کردارنے ہی تاریخ کے منہ زوردریاکے آگے ایسا بند باندھاکہ اس کو اپنا رخ موڑنے پر مجبورکردیا۔
تحریک پاکستان میں خواتین کو متحرک کرنے کی غرض سے قائدنے خواتین کی ایک تنظیم بنائی تھی جس کی اولین راہنما محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔اس تنظیم نے پورے ہندوستان کی خواتین میں پاکستان کامطلب کیا لاالہ الا اﷲکی روح پھونک دی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر کی مسلمان خواتین نے تحریک پاکستان کا ساتھ دینا شروع کر دیاتھا۔تقسیم کے بعد مہاجرین کا مسئلہ ایک سنگین شکل اختیارکرتاجارہاتھا،پورے ہندوستان سے خشکی کے راستے مغربی پاکستان میں اورسمندرکے راستے مشرقی پاکستان میں لٹے پٹے اور کٹے پھٹے قافلے پہنچ رہے تھے۔ان مہاجرین میں ایسی عورتوں کی بہت بڑی اکثریت شامل تھی جن کے مرد شہیدہوچکے تھے،بہت زخمی حالت میں تھے یا پھر لاپتہ تھے۔غیرمسلم اقوام نے ہجرت کرنے والوں پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے تھے کہ الامان والحفیظ۔فاطمہ جناح کی قیادت میں مسلمان خواتین نے مہاجرعورتوں کی مسائل ہنگامی اور جنگی بنیادوں پرحل کر نا شروع کیے۔نوزائدہ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس مالی وسائل اگرچہ نہ ہونے کے برابر تھے لیکن اس امت کی کوکھ دورغلامی میں بھی جراتمندقیادت کو جنم دیتی رہی ہے جس کے نتیجے میں فاطمہ جناح کے ساتھ اس وقت کی مسلمان راہنماخواتین نے مہاجرین کے خیموں میں پہنچ پہنچ کر بے آسراخواتین کے مسائل حل کیے۔محترمہ فاطمہ جناح کا سیاسی اور سماجی تجربہ انہیں پاکستانی سیاست میں بھی لایا،اپنے صدارتی انتخاب میں جب وہ مشرقی پاکستان گئیں تو ڈھائی لاکھ کامجمع انہیں دیکھنے کے لیے موجود تھااور ڈھاکہ سے چٹاگانگ جانے والی ریل گاڑی بائیس گھنٹے تاخیر سے پہنچی کیونکہ مادرملت کے دیدارکامشتاق پاکستانیوںکاجم غفیرباربار گاڑی کے رکنے کاباعث بنارہا۔محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی سوانح حیات”میرابھائی” بھی تحریرکی لیکن ابھی وہ کتاب تکمیل کے مراحل میں ہی تھی کہ 9جولائی1967ء کوداعی اجل آن پہنچا۔محترمہ کو بھائی کے پہلو میں آسودہ خاک کردیاگیا۔
امہات المومنین اور حضرت زینب بنت علی سے قافلہ سخت جاں کے سفرکاجوآغاز ہواوادی وادی ،قریہ قریہ اور منزل منزل وہ قافلہ چلتاچلتاجب ہندوستان کی تقسیم پر براجمان ہواتو یہاں بھی ملت کی ایک ماں کی چادر عفت و عصمت کاخیمہ اس پر سایہ زن تھا۔خواتین کاایک کردارسیکولرازم نے پیش کیاہے جہاں سے انسانیت کو سوائے ہوس نفس،شرمندگی و ندامت اورخاندانی نظام کی تباہی کے کچھ میسر نہیں آیااور ایک کردار تاریخ اسلام نے پیش کیا جہاں آفتاب و ماہتاب کی کرنیں بھی ادب و احترام کے باعث کچھ فاصلے پر اپنی آنکھیں موند لیتی ہیںاوراگر ایمان و یقین کی یہ دیویاں اپنے دامن نچوڑیں تو ملا الاعلی سے اترے ہوئے فرشتے وضو کرنے کے لیے باہم سبقت لے جانا چاہیں ۔حقوق نسواں کے نام پراستحصال نسائیت کی نام نہاد تحریکوں نے اس آسمان کے نیچے جس ننگ دیں ننگ قوم اور ننگ وطن کردارکامظاہرہ کیااس کے مقابلے میں آج بھی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے نام پرامت کی بیٹیاںایمان و عزم و ہمت اور صبر و استقامت کی ایک تاریخ رقم کررہی ہیں۔پاکدامنی اور شرم و حیاء سے مرکب یہ نسوانی کردار تاقیامت تعلیمات اسلامیہ سے پھوٹتے رہیں گے اور عالم انسانیت کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں گے کہ کائنات کے رنگ وجود زن سے مستعارہیںاوراسی کی کوکھ سے جنم لینے والے اسی کی پاؤں تلے اپنی جنت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔