پاکستان کی شہری آبادی ہو یا دیہاتی آمدو رفت کیلئے لوکل ٹرانسپورٹ کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس گھر میں ذاتی گاڑی ہے تو بھی بعض اوقات آپ کی فیملی کو مارکیٹ آنے جانے کیلئے رکشہ یا ٹیکسی کی ضرورت پڑھتی ہے۔ اس دوران آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ رکشہ یا بس سٹینڈ پر جہاں ایک ہی وقت میں ایک روٹ پر جانے کیلئے کئی گاڑی یا رکشہ موجود ہوں تو سواری کو اپنی طرف کھنچنے کیلئے ایک آواز سب سے زیادہ سننے کو ملتی ہے کہ انکل جی ، آنٹی جی ہمارے ساتھ آئیں صرف ایک سواری باقی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد علم ہوتا ہے کہابھی ایک اور سواری مزید باقی ہے۔
الیکشن 2018 ہو جانے کے بعد ہر جماعت اپنی اپنی پوزیشن کے مطابق قومی یا صوبائی حکومت میں اپنے پاوں جمانے کیلئے تگ و دو کر رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت تحریک انصاف ہو یا پنجاب میں مسلم لیگ ن ہو، کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ ہم کسی کے تعاون کے بغیر حکومت بنا سکتے ہیں ۔ پنجاب کی حکومت کیلئے بے شک مسلم لیگ ن کے پاس سیٹیں زیادہ ہیں لیکن اگر تحریک انصاف آزاد امیدوار کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو مسلم لیگ ن زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ اسی طرح قومی حکومت کیلئے تحریک انصاف کسی کو ساتھ نہیں ملاتی تو باقی تمام جماعتوں کے اتحاد سے تحریک انصاف کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑھ سکتا ہے۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف کی طرف سے جہانگیر ترین کا کردار انتہائی اہم ہے ۔ پچھلے ایک دو سال سے جس طرح لوگوں کو تحریک انصاف میں شامل کرنے میں جہانگیر ترین متحرک نظر آئے ان کے بارے میں کہا جانے لگا کہ وہ صبح گاڑی لے کر نکلیں تو شام تک کسی نہ کسی کو لے کر ہی بنی گالا لوٹتے ہیں۔ اسی طرح اب بھی آزاد امیدوار اور چھوٹی جماعتوں سے رابطہ کر کے جو پیغام دیتے نظر آتے ہیں اس کو اگر مزاح کے انداز میں بولا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ “بس ایک سواری باقی ” ۔
پاکستان میں الیکشن کا ایک ایسا سسٹم ہونا چاہیے جس کیلئے اس طرح کا جوڑ توڑ کرنے کی ضروت نہ ہو۔ عوام کی طرف سے منتخب ہونے والے نمائندوں کا طریقہ کار ایسا ہونا چاہیے کہ حقیقی معنوں میں عوام کی آواز اسمبلیوں میں پہنچ سکے۔ یہ نہیں کہ الیکشن ہو جانے کے بعد عوام کئی کئی دن تک اسی کشمکش میں رہیں کہ آ ئندہ پانچ سال تک ہم پر کون حکمرانی کرے گا۔ اور دوسری طرف ایک منڈی لگی ہو جس میں آزاد امیدوارں اور چھوٹی جماعتوں کی خریدو فروخت جاری ہو۔ کسی کو قیمت لگا کر اور کسی کو وزارت اور عہدوں کی پیشکش کر کے خریدا جا رہا ہو۔ شفاف الیکشن کا دعوی صرف اس صورت ہی حقیقت کا روپ اختیار کرے گا جب الیکشن سسٹم کو ایسا بنائے جائے جس میں ایک عام شہری بھی الیکشن لڑنے کا سوچ سکے۔ جس نے کروڑوں اربوں روپے لگا کر الیکشن جیتاہے اس سے اسمبلیوں میں جا کر عوام کی خدمت کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی ترقی کیلئے ایک مضبوط حکومت کا قیام ضروری تھا ،جو خاص طور پر پاکستان کے معاشی استحکام کیلئے سخت سے سخت فیصلے آزادی کے ساتھ کر سکے ،جو کہ اب تحریک انصاف کی حکومت کی شکل میں نظر آ رہی ہے۔ عوام کی طرف سے دیے جانے والے مینڈیٹ کی صورت میں عمران خان کی حکومت پرجہاں اور بہت سے قرض واجب الادا ہوں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہو گا کہ الیکشن سسٹم میں ایسی اصلاحات کی جائیں کہ الیکشن کے بعد یہ آوازیں نہ لگانا پڑھیں کہ بس ایک سواری باقی۔