ہم ”سونامیے” تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ وہ تو ہم ”ایویں” مُنہ کا سواد بدلنے کے لیے نواز لیگ میں شامل ہوئے لیکن اب جبکہ ہماری ”اپنی” جماعت بَرسرِ اقتدار آگئی ہے تو کوئی ہمیں ”لوٹی” کہتا ہے تو کہتا پھرے، ہم اپنی جماعت میں واپس جا رہے ہیں۔
2013 ء کے انتخابات میں نون لیگ نے ”رَج کے” جھُرلو پھیرا، اب اگر ہم نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے جھُرلو کا سہارا لیا تو کیا بُرا کیا؟۔ نوازلیگ روتی ہے تو روتی رہے، یا پھر ہماری طرح میوزیکل کنسرٹ کے سہارے ڈی چوک اسلام آباد پہنچ جائے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ویسے بھی ہم اتنے ظالم ہرگز نہیں کہ اِس معاملے میں نوازلیگ کی مدد نہ کریں۔ ہماری اُسے کھُلی پیش کَش ہے کہ سپریم کورٹ کی دیواروں پر لٹکانے کے لیے ”پوتڑے” ہم فری میں مہیا کریں گے۔ ہم چونکہ اُردو کے پروفیسر رہے ہیں اِس لیے لغت میں ”جھُرلو” سے بہتر لفظ تلاش کرنا چاہا لیکن وہاں تو لفظ ”جھُرلو” بھی نہیں تھا۔
اب ہم نئے وزیرِاعظم کو کچھ مفید مشورے دینے جا رہے ہیں۔ ہماراپہلا مشورہ یہ کہ وہ پنجاب کے نگران وزیرِاعلیٰ حسن عسکری کو کوئی چھوٹی موٹی وزارت عنایت فرما دیں کیونکہ اُنہوں نے طویل العمری کے باوجود تحریکِ انصاف کی بہت خدمت کی ہے۔ اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر کپتان وزیرِاعظم بننے سے پہلے پنجاب تشریف لائے تو پھر بھی اُنہیں وزیرِاعظم کا بھرپور پروٹوکول دیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کو ہمیشہ ہاتھ میں رکھا جاتا ہے کیونکہ بوقتِ ضرورت یہ بہت کام آتے ہیں۔ اگر آئین کسی ایسے شخص کو وزارت کے منصب پر فائز ہونے کی اجازت نہ دے تو سپریم کورٹ سے رجوع کرکے ”نظریۂ ضرورت” حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے یہ سفارش اِس لیے کی ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد اُس وقت کے نگران وزیرِاعلیٰ نجم سیٹھی پر تو صرف 35 پنکچروں کا الزام لگا تھا لیکن حسن عسکری نے پنجاب کی پوری ”الیکشن ٹیوب” ہی پنکچر کر دی۔ اِسی طرح پنجاب کے وزیرِ داخلہ شوکت جاوید کو بھی کوئی نہ کوئی وزارت ضرور ملنی چاہیے۔ اُس بیچارے نے بھی بہت محنت کی۔ ایسے ہی لوگوں کی محنت رنگ لائی اور ہمیں فقید المثال کامیابی ملی۔ جَل بھُن کر سیخ کباب ہونے والے نوازلیگئیے کہتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی نہیں، ”دھاندلے” ہوئے۔ اُن کی باتوں پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اُن کے پاس جو چھوٹے موٹے ثبوت ہیں، اُن کی کوئی حیثیت نہیں۔
جنہیں وہ دھاندلے کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ چھوٹی چھوٹی دھاندلیاں ہیں مثلاََ نون لیگیوں کا یہ کہناکہ الیکشن کمیشن نے نتائج میں گَڑبَڑ کرنے کے لیے پولنگ ایجنٹوں کو رزلٹ پر مشتمل فارم 45 نہیں دیئے اوررزلٹ ٹرانسمشن سسٹم (آر ٹی ایس) کی خرابی کا محض بہانہ تراشا گیا تاکہ نتائج تبدیل کیے جا سکیں۔وہ کہتے ہیں کہ نادرا نے بھی کہہ دیا کہ سسٹم میں کسی بھی وقت کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ”صاف شفاف” الیکشن کمیشن پر بھرپور اعتماد ہے۔ اگراُس نے کہہ دیا کہ خرابی پیدا ہوئی تو پھر یقیناََ ہوئی ہوگی۔ رہی فارم 45 کی بات، اگر کسی کواِس فارم کی اتنی ہی چاہت ہے تو وہ الیکشن کمیشن کے پاس ڈھیروںڈھیر پڑے ہیں،جو اُس نے بڑی محنت سے تیار کیے ہیں، جس کا جی چاہے وصول کر لے۔ لیگئیے یہ بھی کہتے ہیں کہ گنتی کے موقعے پر پولنگ ایجنٹس کو کمروں سے باہر نکال کر اندر سے ”کُنڈیاں” لگا دی گئیں جو غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ بالکل بجا لیکن یہ تو کسی ممکنہ تخریب کاری سے بچنے کے لیے کیا گیا۔ کون نہیں جانتا کہ سارے لیگئیے تخریب کار ہیں، اگر وہ کوئی گڑبڑ کر دیتے تو کون ذمہ دار ہوتا؟۔
یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ بائیس، بائیس گھنٹے تک نتائج روک کر رکھے گئے جبکہ شاہ محمود قریشی کے 312 حلقوں کے نتائج کا اعلان 9 بجے ہی کر دیا گیا۔ بھئی! یہ تو طے تھاکہ شاہ محمود قریشی کو جتوانا ہی جتوانا ہے کیونکہ یہی قومی مفاد میں ہے کہ مستقبل کا وزیرِاعظم تیار رکھا جائے، کیا پتہ ”امپائر” کی انگلی کب اُس کی طرف اُٹھ جائے۔ اِس لیے اگر پہلے سے تیارشُدہ نتائج کا اعلان کر بھی دیا گیا تو اِس میں دھاندلی کہاں سے آگئی؟۔ رہی بات بائیس، بائیس گھنٹے رزلٹ روکنے کی، تو ہماری اطلاع کے مطابق پریذائیڈنگ آفیسرز نتائج کو رَٹّا لگا رہے تھے تاکہ اگر کوئی تخریب کار نتائج چوری کر لے تو پریذائیڈنگ آفیسر اپنے ریٹرننگ آفیسر کو ”مُنہ زبانی” نتائج بتا سکے۔ آخر رَٹا لگانے میں اتنا وقت تو لگتا ہی ہے۔
اے این پی کے زاہد خاں کہتے ہیںکہ الیکشن ڈے پراختیارات ریٹرننگ آفیسرز نہیں کسی اور کے پاس تھے۔ اُنہوں نے ”کسی اور” کی تشریح تو نہیں کی لیکن ہم جانتے ہیں کہ اُن کا اشارہ کِن کی طرف ہے۔ عرض ہے کہ ”کسی اور” بھی ہمارے ہی بھائی ہیں۔ اگر اُنہیں کوئی بندہ اچھا لگتا ہے تو وہ اُس کی حمایت کیوں نہ کریں۔ حیرت تو ہمیں اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کے اِس بیان پر ہوئی کہ ایک حلقے میں اوسطاََ ایک ووٹ 53 سیکنڈ میں کاسٹ کروا کر تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کو جتوا دیا گیا۔ چونکہ ہمیں بھی دورانِ ملازمت بطور پریذائیڈنگ آفیسر کام کرنے کے مواقعے ملے۔ اِس لیے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر الیکشن کے عمل میں انتہائی تیزی سے کام لیا جائے تو پھر بھی ایک ووٹ کاسٹ ہونے میں 2 سے 3 منٹ درکار ہوتے ہیں، 53 سیکنڈز کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اِس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ہمارے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے جس کا بابا رحمت کو اَزخود نوٹس لینا چاہیے۔
موجودہ انتخابات میں ہم نے بھی ووٹ کاسٹ کرنے کا مزہ چکھا۔ ہم جب اپنی بیٹی کے ہمراہ پولنگ سٹیشن پہنچے تو ہمیں وہاں تحریکِ انصاف کا کیمپ نظر نہیں آیا اِس لیے مجبوراََ نوازلیگ کے کیمپ سے ووٹ ڈالنے کے لیے دو پرچیاں بنوائیںاور بعد اَز خرابیٔ بسیار جب پولنگ آفیسر کے پاس پہنچے تو اُس نے ماتھے پر بَل ڈال کر کہا کہ پرچی پر سِلسلہ نمبر نہیں ہے اِس لیے واپس جاکر سلسلہ نمبر لکھوا کر لائیں۔ ہم نے اُسے اپنا سلسلہ نمبر بتا کر کہا کہ انتخابی فہرست میں چیک کر لیں لیکن اُسے تو ہماری پرچی پر شیر دھاڑتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اب ہم اُسے کیسے بتاتے کہ ہم تو ”بَلّے” والے ہیں۔ اُس بی بی کے صاف انکار کے بعد تکرار ہم نے مناسب نہ سمجھا کیونکہ سامنے ”بندوقوں والے” کھڑے تھے، اِس لیے مجبوراََ واپس جا کر سلسلہ نمبر لکھوایااور ووٹ ڈالنے تک ہمارے لگ بھگ دو گھنٹے صرف ہو گئے۔ اب ہم کیسے مان لیں کہ 53 سیکنڈ میں بھی ایک ووٹ ڈالا جا سکتا ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ ہمدردی ”صوبہ جنوبی پنجاب محاذ” والوں کے ساتھ ہے جو لوٹے اور ضمیر فروش بھی کہلائے لیکن اُن کے حصّے میں سیٹیں آئیں تو صرف 6 ، باقی سب ”لَم لیٹ” ہوگئے۔ ہم نئے وزیرِاعظم عمران خاں سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اِن لوگوں کے سَروں پر بھی دَستِ شفقت رکھتے ہوئے، اِنہیں بھی وزارتوں سے نوازیں۔ ہمیں معلوم کہ ”ایک انار، سو بیمار” کے مصداق وزارتیں کم اور اُمیدوار بہت زیادہ ہیں لیکن یہ ہماری دردسَری نہیں، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ جس نے وفاداری نبھائی، اُسے بھی وزارت ملنی چاہیے۔ یہی مسٔلہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا بھی ہے جس کے اب تک کئی اُمیدوار سامنے آچکے ہیں۔ شنید ہے کہ چودھری پرویز الٰہی بھی اپنے ”ڈھائی ٹوٹروؤں” کے ساتھ میدانِ عمل میں ہیں۔ اُنہوں نے سوچا ہوگا کہ اگر پیپلزپارٹی کے دَور میں منظور وَٹو اتنے ہی ارکانِ اسمبلی کے ساتھ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بن سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں؟۔ معاملہ گھمبیر ہوتا جا رہاہے اِس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وزارتِ اعلیٰ کے سارے اُمیدواروں کو ”کَچھے” پہنوا کر دَوڑ لگوائی جائے، جو جیتا وہی سکندر۔ اُدھر نوازلیگ نے بھی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے ”لنگوٹ” کَس لیا ہے۔
حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ 2013ء میں نوازلیگ آسانی سے خیبرپختونخوا کی حکومت بنا سکتی تھی لیکن میاں نوازشریف نے مولانا فضل الرحمٰن کے اصرار کے باوجود یہ کہا کہ چونکہ تحریکِ انصاف کے پی کے کی سب سے بڑی جماعت ہے اِس لیے حکومت کی تشکیل کا پہلا حق اُسی کا ہے۔ اب پنجاب میں نوازلیگ سب سے بڑی جماعت ہے اِس لیے اُسے بھی حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ حمزہ شہباز سے کوئی پوچھے کہ اگر میاں نوازشریف حماقت کر بیٹھے تو کیا ہم پر اُن کی پیروی فرض ہے؟۔ ہمارے نزدیک بہترین سیاست وہی ہے جس میںجھوٹ کی آڑھت سجائی جائے، حریفوں کے لیے غیرپارلیمانی الفاظ استعمال کیے جائیں، الیکٹ ایبلز کو اپنے گرد اکٹھا کیا جائے اور جب جی چاہے، یو ٹرن لے لیا جائے۔پاکستان میں انتخابات جیتنے کے یہی گُر ہیں، یقین نہ آئے تو ہماری فقید المثال کامیابی کو دیکھ لیں۔یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ جو آئین وقانون کی پاسداری کرے گا، اُس کی ”اڈیالہ جیل” منتظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ”عظیم لیڈر” نے آئین وقانون کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ اُنہوں نے تو ووٹ کی پرچی پر مہر بھی سب کہ سامنے لگائی۔ اب کسی میں ہے اتنی جرأت کہ وہ کپتان کو چھ ماہ قید کی سزا سُنا سکے؟۔
ہمارا کپتان کو سب سے مفید مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی اوّلین فرصت میں اپنے 100 دِنوں کے پروگرام پر عمل درآمدکرتے ہوئے ایک کروڑ بے روزگاروں کو نوکریاں اوربے گھروں کو 50 لاکھ گھر بنوا کر دیں۔ لیگئیے کہتے ہیں کہ بھٹو مرحوم نے بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا لیکن جب عوام نے زیادہ ہی تنگ کرنا شروع کیا تو اُنہوں نے کہہ دیا ”میں کوئی سونے کا انڈا دینے والی مرغی نہیں۔ محنت کروگے تو روٹی، کپڑا اور مکان خودبخود مِل جائے گا”۔لیگیوںکے خیال میںکپتان بھی عنقریب یہی کہتے ہوئے پائے جائیں گے مگر ہمیں یقین ہے کہ کپتان اِس معاملے میں تو ہرگز یوٹرن نہیں لیں گے کیونکہ اُنہیں بھی پتہ ہے کہ اگر وہ اپنا وعدہ ایفا نہ کر سکے تو سونامیے ”ساڈا حق، ایتھے رَکھ” جیسے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں گے۔