اس سال پاکستان کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پہلی بار ٹرانس جینڈرز نے جنہیں خواجہ سرا بھی کہا جاتا ہے، حصہ لیا لیکن ان میں سے کسی کو بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔
Nadeem Kashish
وائس آف امریکہ کو ایک انٹرو یو میں قومی اسمبلی کے این اے 53 سے انتخاب میں حصہ لینے والے ٹرانس جینڈر ندیم کشش نے کہا کہ ان کی کمیونٹی کے امیدواروں کے لیے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ کہ وہ پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور انہیں کسی بھی قسم کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ انہیں کسی سیاسی جماعت نے ٹکٹ بھی نہیں دیا جب کہ ان کے پاس انتخابی مہم چلانے، بینرز پوسٹ کرنے ، جلسے کر نے یا ووٹرز کے پاس پہنچنے اور انہیں پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے کےلیے وسائل بھی نہیں تھے اور انہیں گھر گھر پیدل جا کر کنویسنگ کرنا پڑی ۔
انہوں نے کہا کہ وہ ٹرانس جینڈر امیدواروں کی ناکامی کو ان کی ناکامی نہیں بلکہ اس انداز میں ایک جیت سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار انتخاب میں حصہ لے کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا تک رسائی حاصل کی اور اپنی کمیونٹی کے وسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک نمایاں قدم اٹھایا ۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے اس تجربے نے انہیں بہت کچھ سکھایا ہے اور اب وہ ان تجربات کی بنیاد پر اپنے لئے سیاسی حکمت عملی وضع کریں گے جس کے تحت وہ اپنی کمیونٹی کے لیے ایک الگ سیاسی جماعت تشکیل دیں گےا ور رجسٹر کرائیں گے جس کے پلیٹ فارم سے وہ پہلے تو آئندہ کے بلدیاتی انتخابات میں اوراس کے بعد اگلے عام انتخابات میں حصہ لیں گے اور سیاسی میدان میں اپنی کمیونٹی کو آگے لائیں گے ۔