خرابی صحت کے باعث دو ماہ کی غیر حاضری کے بعد آج پھر اپنے قارئین کی خدمت میں حاضر ہوں۔ سوچا تھا ہمارے انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے تو کچھ لکھا جائے۔ مگر بدقسمتی سے یہ اونٹ نہ دائیں بیٹھا نہ بائیں بیٹھا بلکہ الٹا بیٹھا۔ اہل پاکستان نے اس مرتبہ ایک کھچڑی سی پکا کر رکھ دی بظاہر کپتان کی پارٹی فائز ہوئی مگر جیسے آسمان سے گری کھجور میں اٹک گئی ۔ سالوں سے دونوں پارٹیاں باری باری آتی چلی آرہی تھیں پاکستانی عوام ان سے کسی قدر اکتا چکے تھے۔ وہ تبدیلی مانگ رہے تھے۔ چارہ رہے تھے۔ اولڈ نسل تو کمپرومائز کر لیتے لیکن نوجوان نسل نے تبدیلی لا کر دیکھائی اور کپتان کو اقتدار کی کرسی پر فائز کرادیا۔ دراصل اس میں کپتان کا اور اسکی پارٹی کا کوئی کمال نظر نہیں آتا اور نہ ہی آج تک اقوام عالم میں کسی کھلاڑی کو اقتدار سونپا گیا۔ مگر شریفوں اور زرداریوں اور انکے دم چھلوں کی خرمتیاں من مانیاں بد یانتیاں متکبریاں عمران خان اور اس کی ٹیم کے نا تجربہ کار کھلاڑیوں کو مسند اقتدار پر لا بیٹھادیا۔ مگر ان کا یہ اقتدار اتنا ہی نا پائیدار نظر آتا ہے جتنا کہ پتے پہ پانی ۔ اب یہ ان کی صلاحیت اور تحمل و برداشت پر منحصر ہے کہ وہ کتنا ٹرم پورا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ پاکستانی عوام بہت جلد اپنے لیڈروں سے اکتا جاتے ہیں۔ اپنی ہمدردیاں بدل دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک سوائے فوجی حکومتوں کے کوئی بھی سول حکومت اپنا ٹرم پورا نہ کر سکی۔ دو تہائی اکثریت والے بھی نہیں ہر دو اڑھائی سال بعد تم ہٹو اب ہماری باری ہے اس مرتبہ تو ایک کھچڑی سی پکی ہوئی ہے ہفتہ بھر گزر نے کے باوجود سوائے دو صوبوں کے نہ وفاق میں نہ پنجاب میں نمبر گیم کوئی بھی پارٹی پوری نہیں کر پا رہی ہے۔ دونوں اطراف آزاد گھوڑے اپنا کھیل پر غمالی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے بابا رحمتے نے جہاں کئی اچھے کام کئے وہاں وہ اورالیکشن کمیشن ان آزاد یرغمالیوں پر ان ہر طرف لڑھکنے والے لوٹوں پر پابندی لگا دیتے باسٹھ اور تریسٹھ کی قدغن لگا دیتے اپنے ووٹر وں کو ہر منڈی میں فروخت کرنے والوں اور خود فروخت ہونے والوں پر روک لگا دیتے صادق و آمین کی کسوٹی پر تول لیتے تو خدا کی قسم نہ یہ الیکشن کے بعد کی افرتفری ہوتی خرید و فروخت ہوتی نہ ہی عوام سکتے کے عالم میں آج ہوتی۔
تینوں فریق اپنے اپنے صوبوں میں اپنی اصل نمبر گیم پر بآسانی حکومتیں بنا لیتے چلاتے اور اپنی اپنی کارکردگی دیکھا پاتے۔ وفاق میں کپتان حکومت بنا لیتا ۔ کے پی کے میں بھی انکی حکومت ، سندھ میں پی پی پی اور پنجاب میں اکثریت پارٹی نو ن لیگ اقتدار سجا لیتی اور بلوچستان میں مقامی پارٹی کے ساتھ مل کر سارے حکومت بنا لیتے ۔ سارے اپنی اپنی حدود و قیود مین رہتے ایک دوسرے کا احترام کرتے ان کی اکثریت تسلیم کرتے اور آزاد ممبران جس منشور سے جس حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے وہ وہاں پابند ہو کر اپنے اپنے حلقوں میں اپنے عوام کی خدمت کرتے مگر ہماری بدنصیبی ہمارے یہ لیڈران اتنے فراخ دل نہیں حقیقت شناس نہیں برداشت کا مادہ نہیں رکھتے ہر کوئی سارے پاکستان پر قبضہ کرنے تلا بیٹھا ہے۔
کسی دوسرے کو تسلیم کرنے اس کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتا۔ نتیجہ پھر وفاق میں بھی معلق حکومت پنجاب اور بلوچستان میں بھی آزاد اراکین کی مدد سے دو چار نمبر اوپر کر لے حکومت حال میں بنا بھی لیتے ہیں تو ہر وقت ان کے سروں پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ سال چھ مہینے دو سال آخر کب تک وہ ان پرانے کھلاڑیوں سے بچ پائیں گے۔ لوٹے آج یہاں ہیں تو کل انکے ساتھ ہونگے۔ ان پر تو کوئی پابندی نہیں۔ پارٹیاں بدلنے اپنی ہمدردیاں بدلنے کی ایسے میں نقصان ملک کا ہو گا عوام کا ہو گا روز روز کے یہ الیکشن اربوں روپے کے اخراجات خدا کی پناہ ۔ ایسے میں میرے مطابق دیگر تمام جماعتیں کپتان کے اقتدار کو مرکز میں تسلیم کریں۔
رہنمائی کریں۔ اور کپتان اور انکی جماعت پنجاب میں ن لیگ کے اقتدار کو تسلیم کرے احترام کرے سب ملکر نیا پاکستان بنائیں۔ چلائیں حقیقی تبدیلی لائیں۔ اور میثاق جمہوریت کے مطابق پانچ سال ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھنچیں اپنی اپنی کاکردگی دیکھائیں ہماری سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن حالیہ الیکشن کے بعد کسی بھی آزاد منتخب رکن یا پارٹی رکن کو پارٹی بدلنے یا نئی پارٹی جائن کرنے کا پابند بنائے روکے اور ایسے رکن کی رکنیت منسوخ کر ے اور انہیں دوبارہ اپنے حلقوں کے عوام سے مینڈیٹ لینے کا پابند بنائے۔ اور پانچ سال تک نا ہل ڈکلیئر کرے تاکہ آئندہ کوئی بھی عوام کی عزت سے نہ کھیل سکے اور نہ ہی اپنی مرضی سے خرید و فروخت کا بازار گرم کر سکے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو ورنہ ہمارا ملک اب کسی افراتفری دھرنے ریلیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
گزشتہ تین سال ڈالر کی اس حد تک لانے دھرنے ریلیاں کاروبار بند ہونا تعمیراتی پروجیکٹ کا رکنا۔ اس قدر مہنگائی ہمارے ا ن سیاسی لیڈروں افراتفری پھیلانے والوں ہی کی بدولت ہے۔ خدا کے لئے ایسا پھر نہ ہونے پائے عوام کی اکثریت چاہتے ہیں کہ سارے پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم کریں۔ اور عوام چاہتے ہیں کہ پنجاب میں نون لیگ کا بھی مینڈیٹ تسلیم کیا جائے۔ اگر ایسا ہو جائے ہونا چاہیے تو کپتان کو مرکز اور کے پی کے مبارک ۔ پی پی پی کو سندھ مبارک ، بلوچوں کو بلوچستان مبارک اور نون لیگ کو پنجاب مبارک اور پھر عوام کو نیا پاکستان مبارک ۔ ورنہ جمہوریت کی یہ کھچڑی تم لیڈروں کو مبارک ( الحکم لا اللہ الملک اللہ )
Haji Zahid Hussain Khan
تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان) [email protected]