اقوام متحدہ دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام

United Nations

United Nations

تحریر : بشریٰ نسیم

دوسری جنگ عظیم کی ہولناک بربادیوں اور لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد عالمی سطح پر ایسے ادارے کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو دنیا میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنا سکے’ اقوام عالم کے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں معاون ثابت ہو اور سب سے بڑی بات یہ کہ دنیا کو تیسری جنگ عظیم سے بچا جا سکے۔ ایسے میں اقوام متحدہ 29 اکتوبر 1945ء کو معرض وجود میں آئی۔ آج 2018ء میں اس عظیم ادارے کے قیام کو 73 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ اپنے سابقہ ا داروں کی طرح ناکام تو نہیں ہوئی لیکن امریکی و صہیونی طاقتوں کی آلہ کار بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 73 برسوں میں یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن جیسا عظیم ادارہ موثر کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بلکہ دیرینہ تنازعات برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ نئے مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کی ناکامی کا واضح ثبوت کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل کا حل نہ ہونا ہے۔ قابض اسرائیل اور بھارت نے ان برسوں میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ جس کے باعث یہ خطے بدامنی کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں امریکہ’ اسرائیل اور بھارت نے اقوام متحدہ کے سامنے قیام امن کی راہ میں ایسی رکاوٹیں حائل کیں کہ یہ معتبر عالمی ادارہ اپنی ساکھ بحال نہ رکھ سکا۔

قیام امن کیلئے کی جانے والی کوششوں میں اقوام متحدہ کی ناکامی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی دنیا کے 16 خطوں میں امن نہ ہو سکا اور اقوام متحدہ کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تاہم اس دوران اقوام متحدہ کے 3553 اہلکار اپنی جانیں دے چکے ہیں اور ابھی بھی ایک لاکھ 14 ہزار اہلکار دنیا کے دیگر علاقوں میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے بنیادی حقوق کی عدم فر اہمی کی یہ واضح مثال ہے کہ دنیا کی ایک ارب کے قریب آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جس کے باعث 82 کروڑ افراد دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ اگر ایک طرف غربت کے باعث خوراک دینا ہی اہم مسئلہ ہے تو دوسری جانب پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہی اقوام متحدہ کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 50 فیصد آبادی خوراک کیلئے استعمال ہونے والے تیل اور گھی تک رسائی نہیں رکھتی جس کے باعث مختلف النوع بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ افسوس 21 ویں صدی کے جدید ترین دور میں عالمی آبادی کا 15 فیصد حصہ انتہائی بنیادی ضروریات سے ہنوز محروم ہے۔ جس کی بدولت یہ خطے آج بھی قدیم دور کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بچوں کی بنیادی ضرورت تعلیم کو پورا کرنے میں بھی ناکام رہا جس کی وجہ سے آج بھی عالمی سطح پرہر 12 واں بچہ چائلڈ لیبر کا حصہ ہے۔

جب اپنے قیام کے فور بعد اقوام متحدہ نے” It`s your world ” کا نعرہ بلند کیا تو بہت سے غریب ممالک کے نادان سربراہوں نے یہ سمجھ لیا کہ شاید ہمارا واقعی کوئی سرپرست آ گیا ہے جو دنیا میں ان کا حق انہیں دلوائے گا۔ لیکن حقیقت میں یہ نعرہ صرف طاقتور قوتوں کیلئے تھا اور اب اقوام متحدہ ان طاقتور قوتوں کا ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس کی مدد سے انہوں نے مسلم ملکوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ شام’ عراق’ لیبیا اور افغانستان کے حالات اس کی واضح عکاسی کرتے ہیں۔ جبکہ وطن عزیزبھی ان قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں’ ان کے نشانہ پر ہے۔

برما کے مظلوم مسلمانوں کی ہولناک صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو صرف مسلمانوں کی بربادی کے لئے تشکیل دیا گیا۔ وگرنہ میانمار کے بے بس و مظلوم مسلمان اپنی سرزمین سے یوں بیدخل و سروسامانی کی حالت میں دربدر نہ ہوتے۔ میانمار کے لاکھوں مسلمان محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ وحشی و درندہ صفت برمی فوجیوں اور مسلمانوں کے قاتل بودھوئوں سے اپنی زندگی بچانے کیلئے خطرناک جنگلوں’ دلدلوں کو پار کر رہے ہیں اور سینکڑوں سمندر کی بے رحم موجود کی نذر ہو چکے ہیں۔ افسوس اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ جمہوریت کی علمبردار سوچی کو مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کی کھلی چھٹی دیدی گئی ہے۔

فلسطین کے علاقوں اور خاص طور پر بیت المقدس کے گرد و نواح میں یہودی بستیوں کی تعمیر قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاو ٹ ہے۔ لیکن اقوام متحدہ و عالمی برادری حقوق انسانی کی پامالی پر خاموش ہیں اور جس دن سے فلسطین کے مظلوم لوگوں نے اپنی حریت اور مقدسات کے تحفظ اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنا شروع کی تو عالمی برادری کو ان سے دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہوگیا اور ایک سازش کے تحت دہشتگردی کا لیبل امت مسلمہ کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ظلم و ستم کا سلسلہ دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ 1941ء میں فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد صرف 80 ہزار تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو عالمی برادری نے فلسطین کی تقسیم کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد 1967ء میں پھر ایک جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں یہودی تمام فلسطین پر قابض ہوگیا اور وہاں کے مقامی فلسطینیوں کو اپنی کے ملک سے بے دخل کر دیا گیا۔ 1967ء میں مصر سے غزہ کی پٹی چھیننے کے علاوہ یہودیوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے قبلہ اول بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور اس کا نام یروشلم رکھ دیا۔ تاحال فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی ادارے نے اسرائیل کے پرلگام ڈالنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اسے فلسطینیوں کو اذیتیں پہنچانے میں عالمی سرپرستی حاصل ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے حالات بھی فلسطین سے مختلف نہیں۔ بھارتی قابض افواج نے کشمیر کے چپے چپے کو چھائونی بنا رکھا ہے۔ کشمیری گزشتہ 70 برسوں سے اپنے حق آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں مگر اقوام متحدہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے منظور کروائی گئی قرارداد پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ ادھر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ نہتے کشمیری ہاتھوں میں سنگ اٹھائے اسرائیلی ساختہ مہلک ہتھیاروں سے لیس درندہ صفت بھارتی افواج کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ مگر اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں نے کشمیر کے معاملے میں چُپ سادھ رکھی ہے۔ ہاں اگر بھارت آزادی کا حق مانگنے والے مسلمان نہ ہوتے تو شاید انہیں برہمن سے نجات دلا دی جاتی۔ لیکن کشمیریوں کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔
افغانستان میں ڈرون طیاروں کے حملے’ امریکی افواج کی بربریت وہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ امریکی نیٹو افواج نے مسلمان ممالک میںظلم روا رکھا۔ کیمیکل ہتھیاروںکے استعمال سے انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا اس کی تلافی ممکن نہیں۔ ہاں اقوام متحدہ انے فرائض بخوبی سرانجام دیتی ہے معاملہ اگر مشرقی تیمورکا ہو’ برطانیہ سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے سکاٹ لینڈ کا ہو۔ اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کہ اقوام متحدہ 72 بر س میں کشمیر کا تنازعہ حل کوانے میں ناکام رہی۔

کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کا ادارہ 1945ء میں بین الاقوامی تنازعات کے حل اور عالمی تعاون کے فروغ کیلئے بنا تھا۔جس نے کشمیر کے بارے میں متعدد قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔ تاہم 7 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ان پر عملدآمد نہ کروا سکا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے یہ قراردادیں منظور کر کے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دے گا۔ لیکن بعد میں وہ اپنے وعدے سے مکر گیا۔بھارتی فورسز 1989ء تک اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کوشہید کر چکی ہیں جن میں ہزاروں افراد کو جعلی مقابلوں میں یہاں حراست میں شہید کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے اس عرصے کے دوران حریت رہنمائوں اور کارکنوں سمیت 18 ہزار 531 افراد کو گرفتار کیاجن میں سے 804 افراد پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیاگیا۔ پندرہ سو سے زائد خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اقوام متحدہ کیا کر رہی ہے؟
اقوام متحدہ کے چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ

1۔ ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کی جنگ کی لعنت سے بچائیں گے۔
2۔ انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدر و منزلت کریں گے۔
3 ۔ مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔
4۔ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔
آزادی کی ایک وسیع فضاء میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔ لہٰذا یہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے رواداری اختیار کریں، ہمسایوں سے پرامن زندگی بسر کریں۔ بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر اپنی طاقت متحد کریں نیز اصولوں اور روایتوں کو قبول کر سکیں اس بات کا یقین دلائیں کہ مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ تمام اقوام عالم اقتصادی اور اجتماعی ترقی کی خاطر بین الاقوامی ذرائع اختیار کریں۔
مقاصد
اقوام متحدہ شق نمبر 1 کے تحت مقاصد درج ذیل ہیں۔
1۔ مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا۔
2۔ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا۔
3۔ بین الاقوامی اقتصادی’ سماجی’ ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لئے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا۔
4۔ ایک ایسا مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قوموں میں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر سکیں۔
5۔ آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام کن ممالک کو مرتبہ برابری بنیاد پر ہے
رکنیت

پرامن پسند ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور ادارہ کی نظر میں وہ ملک ان شرائط کو پورا کر سکے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہو برابری کی بنیاد پر اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا ہے۔ شروع شروع میں اس کے صرف 51 ممبر تھے۔ بعد میں اضافہ ہوگیا۔ سکیورٹی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی اراکین کو معطل یا خارج کر سکتی ہے اور اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے تو اسے خارج کیا جا سکتا ہے۔ سلامتی کونسل معطل شدہ اراکین کے حقوق رکنیت کو بحال کر سکتی ہے۔ اس وقت اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193 ہے۔

Bushra Naseem

Bushra Naseem

تحریر : بشریٰ نسیم